پیپلز پارٹی کو اب مفاہمتی نہیں مزاحمتی سیاست کرنی چاہیے۔

Sep 01, 2016

مکتوب دبئی:طاہر منیر طاہر

اگر پیپلزپارٹی کو اپنی مقبولیت کا گراف بلند رکھنا ہے تو اب سے مفاہمتی سیاست ترک کرنا پڑے گی۔ کیوں کہ پیپلز پارٹی کے کارکن اور جیالے ورکر مفاہمتی پالیسی سے مایوس ہو رہے ہیں۔ جس سے پی پی پی کی عوام میں مقبولیت اور ووٹ بینک کا گراف نیچے گر رہا ہے۔ لہٰذا اگر پی پی پی اپنی مقبولیت برقرار رکھنا چاہتی ہے تو اسے مفاہمتی پالیسی ترک کر کے مزاحمتی سیاست اور پالیسی اپنانا پڑے گی۔ ان خیالات کا اظہار سابق وزیر اطلاعات و نشریات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے گزشتہ روز دوبئی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ موجودہ وزیراعظم نواز شریف کے ذہن پر بادشاہت کا جنون سوار ہے۔ اور وہ اپنی بادشاہت قائم رکھنے کے لئے عوام کے بنیادی حقوق سلب کر رہے ہیں۔ موجود حکومت اور اس کے وزراءلوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں۔ بڑے بڑے سکینڈل سامنے آرہے ہیں جن میں سب سے بڑا سیکنڈل پانامہ لیکس کا ہے۔ اگر نواز شریف صحیح جمہوری آدمی ہوتے تو استعفیٰ دے دیتے۔ لیکن وہ لوگوں کا رد عمل دیکھنے کے باوجود حکومت سے الگ نہیں ہو رہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ جمہوریت نہیں بلکہ آمریت پسند ہیں۔ فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ جمہوریت کا تقاضہ ہے کہ اس کا احترام کیا جائے لہٰذا اپوزیشن اور عوام کی رائے کا احترام کرتے ہوئے انہیں حکومت سے الگ ہو کر اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر دینا چاہئے۔
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ مجھے پیپلزپارٹی چھوڑنے اور مسلم لیگ ن یا پی ٹی آئی جوائن کرنے کے لئے متعدد بار کوششیں کی گئیں لیکن میںنے ہر بار انکار ہی کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک بار سپیکر ایاز صادق خود ان کے پاس مسلم لیگ ن کا ٹکٹ لے کر آئے لیکن میں نے ان کی آفر قبول نہیں کی کیونکہ پارٹی کے ساتھ وفاداری ایمانداری ہے۔ فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ مجھے بھی اپنی پارٹی سے کافی گلے شکوے ہیں جن کا برملا اظہار بھی کیا جا چکا ہے۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ اپنی پارٹی کو ہی چھوڑ دیا جائے۔ فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلص ہیں اور اعلیٰ قیادت پر مکمل اعتماد کرتی ہیں۔ فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ وہ کل بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ تھیں ۔ آج بھی ہیں بلکہ ان کا مرنا جینا پاکستان پیپلز پارٹی اور اس کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ ہے۔
فردوس عاشق اعوان کا کہنا کہ انہیں سابقہ دور میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ان باتوں کا اظہار انہوں نے آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری سے کر دیا تھا۔
ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کے سابقہ دور حکومت میں انہیں پانچ سالوں کے دوران پانچ مختلف وزارتیں دی گئیں اور ایک جگہ بھی ٹک کر کام نہیں کرنے دیا گیا۔ بلکہ فٹ بال کی طرح کھیلا گیا۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ وزیر اطلاعات و نشریات تھیں ان کی وزارت کے فیصلے کہیں اور سے ہوتے تھے۔ وہ صرف نام کی وزیر تھیں، جبکہ ان کی وزارت کو چار مختلف جگہوں سے چلایا جا رہا تھا جو سراسر زیادتی اور وزارت میں مداخلت تھی۔ ان تمام باتوں کے باوجود میں نے سیاست کے اندر کبھی سیاست نہیں کی جبکہ پارلیمنٹ میں جا کر مجھ پر یہ بات عیاں ہوئی کہ پاکستان میں پڑھے لکھے اور سنجیدہ سیاستدانوں کا نہ صرف فقدان ہے بلکہ وہ اپنی سچائی اور محب وطن ہونے کے وجہ سے کبھی بھی سسٹم کا حصہ نہیں بن سکتے۔ پارٹی کے اندر سیاست سے بھی پیپلز پارٹی کا وقار مجروح ہوا ہے جس سے مایوسی پھیل رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اندر فرد واحد کے فیصلوں کو ہی اصل جمہوریت سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور ورکروں کو شخصیات کے تابع ہونا پڑتا ہے۔ اسے جمہوریت نہیں کہا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو ازسر نو مضبوط کر نے کی ضرورت ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نئی توانائیوں کے ساتھ ملک میں پیپلز پارٹی کا کھویا مقدر حل کرنے کوشش کر رہے ہیں جبکہ آصف علی زرداری کی سیاسی دانشمندی، تجربہ اور فہم بھی پاکستان میں پیپلز پارٹی کا وقار بحال کر سکتا ہے۔ اگر پارٹی کو عوامی رائے کے مطابق چلایا جائے اور مفاہمتی پالیسی ترک کر دی جائے۔ ملکی حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ حال ہی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات یہ بات ثابت کرا رہے ہیں کہ پاکستان میں استحکام نہیں ہے۔ دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں کے بارے میں حکومت کو کھل کر یہ بات کرنے میں کوئی عار نہیں ہونا چاہئے کہ ان تمام کاروائیوں کے پیچھے ہندوستان کا ہاتھ ہے جسے روکنا حکومت کا کام ہے۔

مزیدخبریں