بے بسی اور مصلحتاً ”پسپائی“ میں فرق ہوتا ہے

Sep 01, 2016

خالد بیگ

کراچی گزشتہ دس روز سے پوری دنیا میں بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ پاکستان کا ہر شہری اس موضوع پر بات کرنا چاہتا ہے۔ سوشل میڈیا پر تسلسل کے ساتھ گردش کرتی خبریں لوگوں کو الگ پریشان کئے ہوئے ہیں۔ گو الیکٹرانک میڈیا پر الطاف حسین کی پاکستان کے خلاف استعمال کی گئی غلیظ زبان سنائی گئی نہ دکھائی گئی اسکے باوجود موبائل فون رکھنے والے ہر شہری کے پاس ایم کیو ایم کے لیڈر کی تقریر موجود ہے جس میں وہ دیکھ سکتے ہیں کہ پاکستان کے خلاف تقریر کے دوران کراچی میں بھوک ہڑتالی کیمپ میں موجود ایم کیو ایم کے کارکنان و لیڈران ہاتھ باندھے‘ سر جھکائے کس طرح الطاف حسین کی ہاں میں ہاں ملارہے تھے۔ دوران تقریر ہی ایم کیو ایم کے یہ تمام غلام نما کارکن مرد و خواتین اٹھے اور میڈیا ہا¶سز پر ٹوٹ پڑے۔ پورے ملک میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیلی تو لوگ ایک دوسرے سے فون کے ذریعے معلومات لینے کی کوشش کرتے رہے کہ میڈیا ہا¶سز پر تو حملہ ہو گیا لیکن بھوک ہڑتالی کیمپ میں دوران تقریر الطاف حسین نے کیا کہا ہے۔ جن کو معلوم تھا وہ الطاف حسین کے غلیظ الفاظ دہرانا نہیں چاہتے تھے۔ وطن کے غدار الطاف حسین کی تقریر پر مبنی ویڈیو فوٹیج تیز رفتار طوفان کی طرح ہر طرف پھیلتی چلی گئی۔ الطاف حسین کی مغلظات جس نے بھی سنیں اس کا خون کھول اٹھا وہ بھول گئے کہ ان کا تعلق کس سیاسی جماعت‘ زبان یا ملک سے ہے۔ سب اصل کی طرف لوٹ آئے۔ پاکستانی بن گئے اور پھر سوشل میڈیا پر الطاف حسین کے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کراچی کے حوالے سے گزشتہ تین دہائیوں سے وہاں جاری بدامنی کی صورت حال فلم کی طرح ذہنوں میں چلنے لگی۔ بھتہ خوری‘ ٹارگٹ کلنگ‘ بوری بند لاشیں‘ ناجائز قبضے‘ بے گناہ لوگوں پر تشدد کی کہانیاں‘ جسموں میں برموں سے سوراخ‘ مخالفین کو عبرت کا نشان بنانے کے لئے کھیل کے میدانوں میں بنائے گئے پھانسی گھاٹ اور وہاں لٹکائی گئی لاشیں‘ بربریت کا نشان بنائے جانے والوں کی طرف سے پراسرار خاموشی یہاں تک کہ میڈیا سے تعلق رکھنے والوں کی کراچی کے سلسلے میں گنگ زبان سب منظر نامے کی طرح دماغ کے پردہ سکرین پر نمودار ہوتے چلے گئے‘ تاہم لوگوں نے اس وقت اطمینان و سکھ کا سانس لیا جب رینجرز نے رات گئے کراچی میں ایم کیو ایم کے اہم ذمہ داران کی گرفتاریوں کا آغاز کیا۔ لیکن ساری قوم اس وقت دم بخود رہ گئی جب گرفتار کئے گئے لیڈران میں سے مرکزی شخصیت کو نہ صرف چھوڑ دیا گیا بلکہ موقع فراہم کیا گیا کہ وہ میڈیا کے سامنے آ کر پریس کانفرنس کے ذریعے الطاف حسین کی تقریر اور ایم کیو ایم کے مستقبل سے متعلق قوم کو آگاہ کریں۔ لوگوں نے خود کو تسلی دی کہ فاروق ستار پریس کانفرنس کے دوران الطاف حسین کو غدار اور اس کے را سے تعلق کو تسلیم کرتے ہوئے ایم کیو ایم کا بطور سیاسی جماعت کسی بھی غدار سے تعلق نہ رکھنے کا اعلان کریں گے۔ ٹیلی ویژن پر سیاسی تجزیہ نگاروں کا اندازہ بھی یہی تھا کہ اب فاروق ستار اپنے رفقاءکے ذریعے پارٹی کے معاملات چلائیں گے۔ الطاف حسین کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔
فاروق ستار کی طرف سے کسی بڑے اعلان کی منتظر عوام کو اس وقت شدید مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے الطاف حسین کی ایک روز قبل کی گئی تقریر سے لاتعلقی کا اظہار تو کیا لیکن یہ کہہ کر سب کو حیران کر دیا کہ الطاف حسین طبیعت ناساز ہونے کی بدولت سب کچھ کہہ گئے۔ وہ اب آرام کرنا چاہتے ہیں تاہم وہی ہمارے قائد اور ایم کیو ایم کے سربراہ ہیں۔ لوگ ابھی گلقند میں لپیٹ کر فاروق ستار کی طرف سے دی گئی گولی کے ذائقے کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہے تھے کہ فاروق ستار کے دیگر قریبی ساتھیوں نے مختلف ٹیلی ویژن چینلوں پر دئیے گئے اپنے بیانات میں واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ الطاف حسین ہی ایم کیو ایم ہیں اور ان کی ہدایت پر ہی فاروق ستار نے پریس کانفرنس کی۔ سچ کے اس طرح سامنے آنے کے باوجود فاروق ستار بضد رہے کہ کراچی میں ایم کیو ایم اب خود مختار ہے۔ ساتھ ہی خبر جاری ہوئی کہ الطاف حسین اپنی ہرزہ سرائی پر نادم ہے اور معافی کا طلبگار ہے۔ اس پوری صورت حال پر جاری تبصروں کے دوران ہی الطاف حسین کی امریکہ میں ایم کیو ایم کے کارکنوں سے خطاب کی ریکارڈنگ منظر عام پر آ گئی جس میں کراچی میں کی گئی گفتگو سے بھی زیادہ زہریلی زبان استعمال کی گئی تھی۔ اس کھیل میں وسیم اختر کا بطور میئر منتخب ہونا بھی ایک الگ داستان ہے۔ جیل میں ہونے کی وجہ سے شاید وسیم اختر کو معلوم نہیں تھا کہ باہر پلوں کے نیچے سے کتنا پانی گزر چکا ہے۔ اس نے انتخاب جیتنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے الطاف حسین کو اپنا لیڈر ہی قرار نہیں دیا بلکہ اعلان کیا کہ اسے الطاف حسین نے میئر بنوایا ہے۔ انہیں کے مینڈیٹ سے وہ میئر منتخب ہوا ہے اور وہ الطاف حسین کے دئیے گئے اصولوں کے مطابق بطور میئر خدمات سرانجام دیگا۔ ویسے بھی وسیم اختر کا لب و لہجہ الگ کہانی بیان کر رہا تھا۔
کراچی کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا یہ توآنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن عوام کے لئے پریشانی کی بات یہ ہے کہ حکومت نے اتنے اہم مسئلہ پر زبان بندی کر رکھی ہے‘ حکومت غالباً سلامتی کے اتنے اہم مسئلے کو بھی سیاست سمجھ رہی ہے اور اسے سیاسی انداز سے حل کرنا چاہتی ہے۔ حکمرانوں کو احساس ہی نہیں کہ ”مصلحتاً پسپائی“ اگر درست منصوبہ بندی نہ ہو تو ”بے بسی“ میں بدل جاتی ہے جس کا نتیجہ تباہی کے علاوہ کچھ نہیں۔ فوج بھی دوران جنگ جب RECOIL یا Tactical Retreat کا سوچتی ہے تو اس کے ہر پہلو کا باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا ہے کہ دشمن کو بطور حکمت عملی پسپائی اختیار کر کے کتنا اندر آنے کی اجازت دینی ہے۔ دشمن چالاک ہو تو وہ جال میں پھنسنے سے قبل جال توڑنے کے پہلو کو مدنظر رکھتا ہے۔ 1968ءمیں پاکستان مصلحتاً پسپائی کا خمیازہ بھگت چکا ہے۔ جب شیخ مجیب الرحمان اور اس کے 34 ساتھیوں کو بھارت کی خفیہ ایجنسی را کے ساتھ روابط اور پاکستان توڑنے کے لئے تیار کی جانے سازش کے نتیجے میں گرفتار کیا گیا۔ سازشی منصوبہ وہی تھا جس پر 1971ءمیں بھارت اور شیخ مجیب الرحمان نے عمل کرتے ہوئے کامیابی حاصل کی۔ آئی ایس آئی کے مشرقی پاکستان میں سربراہ کرنل شمس الاعالم نے جان پر کھیل کر 1967ءمیں پاکستان کی سلامتی کے خلاف اتنی بڑی سازش کو ثبوتوں کے ساتھ نہ صرف بے نقاب کر دیا بلکہ شیخ مجیب الرحمان‘ اس کے 6 ساتھیوں کی ”اگرتلا“ میں بھارتی فوجی افسران اور را کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ ملاقاتوں اور ان ملاقاتوں میں طے ہونے والی تفصیل سے متعلق صدر پاکستان کو بروقت آگاہ بھی کر دیا۔ شیخ مجیب اپنے ساتھیوں سمیت گرفتار ہوا تو عوامی لیگ نے اسے جنرل ایوب خان کی طرف سے سیاسی انتقام قرار دیا۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے ایوب خان یا دوسرے لفظوں میں پاک فوج کو زچ کرنے کے لئے عوامی لیگ کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور احتجاج میں عوامی لیگ کے ساتھ شامل ہوگئی۔ اس پوری صورت حال کی تفصیل بہت لمبی ہے جس کا حاصل کلام یہ ہے کہ جنرل ایوب خان نے سیاستدانوں کے ساتھ مذاکرات کر کے گول میز کانفرنس بلائی تو پاکستان کے تمام مقتدر سیاستدانوں نے شیخ مجیب کے بنا کانفرنس میں شرکت سے صاف انکار کر دیا۔ سیاسی انتشار کے خاتمہ کے لئے جنرل ایوب خان کو ”مصلحتاً پسپائی“ اختیار کرنی پڑی‘ جو بدقسمتی سے آگے چل کر ”بے بسی“ میں بدل گئی۔ پاکستان بھارت کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنستا چلا گیا۔ پاکستان دولخت ہوا تو اس کی تمام تر ذمہ داری پاک فوج پر ڈال دی گئی جبکہ 2011 میں بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کے ڈپٹی سپیکر شوکت علی اور عوامی لیگ کے بانیوں میں سے طفیل احمد نے ایک تقریب کے دوران پاکستان کے ان تمام سیاستدانوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے فروری 1969ءمیں شیخ مجیب الرحمان کی جیل سے رہائی میں عوامی لیگ کی مدد کی۔ اس تقریب میں تسلیم کیا گیا کہ ”اگرتلہ“ کا مقدمہ حقیقت پر مبنی تھی اگر اس میں شیخ مجیب کو سزا ہو جاتی تو عوامی لیگ کا اپنے مقصد میں کامیاب ہونا ناممکن تھا۔ بھارت کراچی میں ”اگرتلہ“ طرز کی سازش دہرانا چاہتا ہے ایم کیو ایم کا عسکری ونگ (مکتی باہنی) تاحال خاموش ہے اور ہمارے حکمران ”مصلحتاً پسپائی“ کے نام پر سیاست میں مصروف ہیں۔

مزیدخبریں