اس حقیقت میں دو رائے نہیں ہے کہ کچھ عرصہ سے وطن عزیز نہایت مشکل دور سے گزر رہا ہے اس سے بڑھ کر ملک و قوم کیلئے اور بڑے امتحان کا وقت کیا ہوگا کہ پچھلے کئی برسوں سے پاکستان حالت جنگ میں ہے جس میں جانی و مالی قربانیوں کی مثال نہیں ملتی پھر بھی ہمارے سب سے بڑے اتحادی ہم سے نہ خوش ہوکر DO MORE کا تقاضا کررہے ہیں اور بصورت دیگر ہمیں طرح طرح کی سنگین دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ اس پس منظر میں صورتحال سے نمٹنے کیلئے مختلف سطح پر درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجز کا حل ڈھونڈنے کیلئے سرکاری و غیرسرکاری حلقے اپنی اپنی ہمت اور توفیق کے مطابق سرگردہ ہیں۔ یہ حقیر فقیر بھی سربسجود ہوا کہ بارگاہ خداوندی سے نجات کی راہ تلاش کی جائے۔ میرے پیارے رب کا وعدہ ہے کہ اس سے جو بھی درد دل سے مانگتا ہے اللہ اسے مایوس نہیں کرتا۔ چنانچہ غیب سے میرے دل میں نِدا آئی کہ اللہ کے محبوب سرور کائنات کے اسوئہ حُسنہ میں غوطہ زنی کرو‘ عمل کرو گے تو پھل پائو گے اور سب مُشکلیں آسان ہوجائیں گی۔
میرا بوجھ ہلکا ہوگیا ہے جو شخص اپنے دل و دماغ اور نفس کو اردگرد کے غلیظ ماحول کی آلودگی سے پاک و صاف کرکے اپنے ماضی کے گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے پاکیزگی کا لبادہ اوڑھ کر قرآن کی تعلیمات سے استفادہ کرتے ہوئے حضرت محمدؐ کی سانح حیات کا مطالعہ کرے گا تو اس کو سرور کائنات کی پوری زندگی بچپن سے لے کر وصال تک مطالعہ کرنے سے حضور پاکؐ کی شخصیت ایک انسان کی حیثیت سے ایک سیاستدان اور مُدبر کی حیثیت سے‘ ایک قانون دان کی حیثیت سے‘ ایک آئین ساز کی حیثیت سے‘ ایک منصف کی حیثیت سے اور ایک حُکمران کی حیثیت سے اس قدر واضح طور پر ریکارڈ پر لائی گئی ہے جس کی مثال دنیا کے کسی ملک میں ریکارڈ کی ہوئی تاریخ میں کس قدر سربلند اور درخشاں نہیں ہے جس قدر تفصیلات ہمارے محبوب اور مولا حضرت محمدؐ کی ذات برکات کے بارے میں دنیا کی ہر زبان میں ریکارڈ پر ہے۔ قرآن کریم جو الہام اور وحی کی صورت خُدا کی طرف رب کائنات نے اپنے محبوب پر نازل فرمایا وہ کروڑوں انسانوں کے دل و دماغ پر کلام پاک کے نزول سے لیکر آج تک دنیا کے چاروں کونوں میں کروڑوں انسانوں کو حفظ ہے۔ دنیا کے کسی اور مذہب کی کسی اور نبی پر نازل شدہ کلام قرآن حکیم کی اس یکتہ فضیلت کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ یہ وہ نعمت خداوندی ہے جو سوائے نبی آخر الزمانؐ کی اُمت کے کسی اور مذہب کے پیروکاروں کو نصیب نہیں ہے۔
فتح مکہ کے بعد جب حضور پاکؐ نے جب مدینہ کی ریاست قائم کی تو اسے نظم و نسق کو چلانے کیلئے ُدنیا کا سب سے پہلا تحریری آئین ’’میثاق مدینہ‘‘ کی صورت میں دُنیا کے سامنے پیش کیا اور آج ڈیڑھ ہزار سال گزر جانے کے باوجود پوری دنیا اس آئینی دستاویز کی فضیلت کو تسلیم کرتی ہے۔
میں نہایت عاجزی کے ساتھ یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ 1993ء میں جب راقم نگران وزیراعظم مرحوم و مغفور معین قریشی کا پریس سیکرٹری تھا تو میں نے ’’میثاق مدینہ‘‘ کی ایک جلد انگریزی زبان میں شائع شدہ وزیراعظم کی خدمت میں پیش کی جس کا انہوں نے فوری مطالعہ پیش کرنے کے بعد یہ حکم دیا کہ اسے اردو میں بھی ترجمہ کر کے تمام وزارتوں میں تقسیم کیا جائے۔ بعدازاں کابینہ کے ایک اجلاس میں وزارت قانون اور سپیکر قومی اسمبلی و چیئرمین سینٹ کو بھی ’’میثاق مدینہ‘‘ کے سنجیدہ مطالعہ کی سفارش کی۔ مرحوم وزیراعظم معین قریشی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ وہ مختلف تقریبات کی اپنے خطابات میں ’’میثاق مدینہ‘‘ پر ذکر کرتے ہوئے اس دستاویز سے سبق حاصل کرنے کا درس دیا کرتے تھے اور وزارت اطلاعات و نشریات و وزارت تعلیم کے ذریعے ’’میثاق مدینہ‘‘ کی کامیابی بھی مختلف سطح پر تقسیم کی گئی تھیں لیکن نگران وزیراعظم کی مُدت ختم ہوجانے کے بعد اس کا چرچہ بھی حالات کے مدوجزر میں غائب ہوگیا۔ مدینہ کی ریاست اگرچہ ایک سٹی اسٹیٹ تھی لیکن اس میں بھی مُسلمان کثیر آبادی کے باوجود کئی دیگر اقلیتیں اور ان سے پیدا شدہ مسائل آج کل مسائل سے تعلق رکھتے ہیں۔ مُسلمانوں کی اکثریت کے ساتھ ساتھ مدینہ میں بااثر یہودی کاروباری اور مذہبی عیسائی اور بعض قبیلوں کے کُفار بھی مدینے کے گردونواح کے قبائل میں شامل تھے۔ اپنی مذہبی رسومات کے علاوہ یہودی‘ عیسائی اور کفار مُسلمانوں کیخلاف طرح طرح سازشوں اور نت نئے فتنے برپا کرنے میں سرگرم رہتے تھے۔ مدینہ اور مکہ بین الاقوامی تجارتی قافلوں کے گزرگاہ ہونے کے باعث نہایت اہم بین الاقوامی امور جن میں کئی شہروں کے علاوہ دیگر ممالک اور ہمسایہ سلطنتیں بھی شامل تھیں‘ مدینہ سٹی اسٹیٹ کو اس وقت کی دُنیا میں تقریباً تقریباً ویسی ہی حیثیت حاصل تھی جیسی موجودہ پاکستان کو اپنے علاقہ کے ہمسایہ ممالک اور عالمی سطح پر ہے۔ اس وقت کے عالمی ماحول میں مدینہ کی ریاست کے والی اور سربراہ ہونے کے ناطے حضور سرور کائنات حضرت محمدؐ نے اس وقت کی دنیا میں ایک نیا نظم حیات جاری کیا تھا اور حضور اکرمؐ اس وقت کے عالمی رہنمائوں اور سربراہان مملکت سے ان کو مراسلے تحریر کرکے نئے اسلامی حیات میں شامل ہونے کے دعوت نامے اور وفود نے مدینہ کی ریاست اور اس کے سربراہ کیلئے ایک ایسے دور کا آغاز کیا تھا جس کا انجام بعد میں دنیا کی عظیم اسلامی سلطنت کے قیام میں ہوا۔ اس کی بنیاد ’’میثاق مدینہ‘‘ تھا اور یہ خاکسار آج عید الاضحیٰ کے موقع پر جب کے پاکستان میں پاکستان کی سربلندی اور عالمی امن کیلئے دُنیا میں دہشت گردی کو ختم کرنے کیلئے دُنیا کے تمام ممالک سے بڑھ کر قربانیاں دی ہیں یہ خاکسار اپنی حکومت کے سربراہان اور پارلیمنٹیرین کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیوں کی لیڈر شپ اور ملک کی فوجی قیادت کو میثاق مدینہ کا تحفہ پیش کرتا ہوں
در قبول افتد زہے عزو شرف
جب ہم پیغمبر اسلام کے ان درجنوں سفارتی خطوط کو دیکھتے ہیں جو آپؐ نے مختلف حکمرانوں کو لکھے جن میں اس وقت کی دنیا کی دو سُپر پاور بھی شامل تھیں تو ان میں بین الاقوامی ڈپلومیسی اور حکمرانی کے شاہکار پائے جاتے ہیں جن کا پاکستان کے دفتر خارجہ کو مطالعہ کرنا چاہئے اور اگر وقت ملا تو ان کے چند نمونے اور سرور کائناتؐ کے اعلی ترین ذاتی کردار کی نادر جھلکیاں بھی آج کل کے سیاستدانوں اور ڈپلومیٹ کی رہنمائی کیلئے درج کروں گا
سب اہل وطن کو عید مبارک ہو۔ پاکستان زندہ باد۔
’’میثاق مدینہ‘‘ کو مشعل راہ بنائیں
Sep 01, 2017