کراچی کی آبادی کم ہو رہی ہے لاہور کی بڑھ رہی ہے نقشے بن اور بگڑ رہے ہیں نازک قومی معاملات کو اپنے اپنے مفادات کی عینکوں کے عدسے سے دیکھا جا رہا ہے۔
سندھ کا آئندہ وزیراعلیٰ شہری آبادی سے ہو گا؟ سندھ میں دیہی کے مقابلے میں شہری کا پلڑا بھاری ہونا سندھی سیاست کا قبلہ بدلنے کے مترادف ہے۔ سندھ کی شاہی مسند پر افراد کی تبدیلی دیہی سندھ کی علامت وڈیرے، جاگیردار اور ’سائیں کلچر‘ سے مستفید ہونے والوں کے لئے ڈراؤنا خواب ہے۔ ان کا ’سیاسی کفن دفن‘ ہے۔ سندھ سے پیپلز پارٹی کی ابھرنے والی کربناک آواز سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔ پاک فوج کی معاونت سے اداروں نے محنت سے جو کام کیا، اسے متنازعہ بنانے کے پیچھے خوف کا ایجنڈا ہے۔
سیاسی، مالیاتی اور انتظامی اثرات لئے مردم شماری کا جن اعداد و شمار کی بوتل سے نکل آیا ہے۔ مردم شماری آئینی تقاضا تھا جو سیاسی حکمت کاروں کی خواہشات کے برعکس پورا ہوا۔ آئین کی کتاب ذمہ داریوں اور فرائض کی ایک فہرست ہے، اس پر عملدرآمد البتہ اقتدار کے سنگھاسن پر بیٹھے افراد کے تابع ہوتا ہے۔ مردم شماری کو بھی ’سیاسی فٹ بال‘ بنایا جا رہا ہے عدالت عظمیٰ نے اس آئینی فرض کا پہرہ دیا اور کوئی سمجھوتہ، عذر یا توجیہہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ ہمیشہ کی طرح اس کا کریڈٹ بھی وہ لے رہے ہیں جو اب ’ڈِس کریڈٹ‘ ہو چکے ہیں۔
پہلی مردم شماری 1951ء میں، دوسری 1961ء میں، تیسری 1971ء میں ہونا تھی لیکن سیاسی حالات کی بناء پر 1972ء میں ہوئی۔ چوتھی مردم شماری 1981ء میں ہوئی تھی۔ آئین کے مطابق دس سال بعد 1991ء میں یہ کام انجام دیا جانا تھا لیکن پھر سیاسی حالات کی بھینٹ چڑھ گئی اور پھر آخری مرتبہ خانہ و مردم شماری کا آئینی تقاضا 1998 میں پورا کیا گیا۔ 19 سال کے بعد عدالت عظمیٰ کی کاوشوں سے اس ضمن میں آئین کی شق پر عمل درآمد ہو سکا ہے۔ اس سارے عمل کا مقصد 15 مارچ 2017 تک پاکستان کی کل آبادی اور گھر، گھروندوں کی تعداد کا حتمی پتہ چلانا تھا۔
’خدا خدا کرکے کفر ٹوٹا‘ ہی تھا کہ آزادی اظہار رائے‘ کے حق کی برسات میں سیاسی مینڈکوں کے ٹرانے کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ ہر کوئی اپنے اپنے مطلب اور سمجھ کی بنیادپر مردم شماری میں اپنے رخنے تلاش کر رہا ہے، شور و غوغا کر رہا ہے جسں نے سندھ کو ’دیدہ عبرت نگاہ‘ بنا دیا ہے، روشنیوں کے شہر کو جرم، غلاظت اور بدعنوانی کی گندی علامت بنا کر رکھ دیا ہے۔ کیا اب سندھ کے لوگوں کی گنتی بھی ’سیاسی بزرجمہروں کے رحم و کرم پر ہو گی۔ اب ’لوگوں‘ کی تعداد کے درست اور غلط ہونے کا فیصلہ بھی شاید’ ’جلسوں‘، ’جلوسوں‘ کی بنیاد پر "عوامی عدالتیں" کریں گی جن عدالتوں کاذکر جناب نواز شریف انگلینڈ روانہ ہونے سے پہلے کیا کرتے تھے۔
وزیر اطلاعات سندھ ناصر علی شاہ نے اعلان کیا کہ صوبائی حکومت مردم شماری کے نتائج پر اپنے اعتراضات مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں اٹھائے گی۔ اْن کا کہنا تھا کہ نہ صرف پیپلز پارٹی بلکہ ایم کیوایم، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتیں بھی ان نتائج پر اعتراض کر رہی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ مردم شماری کے آغاز پر سندھ حکومت نے مردم شماری فارم کی ایک نقل فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ ہر صوبے کا حق ہے کہ اسے یہ تفصیلات فراہم کی جائیں۔ یہ نقول ہمارے پاس ہوتیں تو پرانے ریکارڈ سے موازنہ کر کے دیکھ لیتے۔ وہ یہ بھی مان رہے ہیں کہ ضروری نہیں کہ مردم شماری کے غلط نتائج کسی دانستہ بے ایمانی کا حصہ ہوں۔ نثار کھوڑو صاحب کا فرمانا ہے کہ سندھ کو اس کے سیاسی و مالیاتی حقوق سے محروم کرنے کی نئی سازش ہو رہی ہے جسے ہم کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
دوسری جانب مردم شماری کمشنر آصف باجوہ نے یہ اعتراضات مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ہر فرد کی تصدیق کو یقینی بنایا گیا۔ بیس فیصد آبادی کے شناختی کارڈ کی تصدیق نادرا ریکارڈ سے کی گئی۔ ایک حیرت انگیز بات انہوں نے یہ بھی بتائی کہ ملک میں سات کروڑ افراد کے پاس شناختی کارڈ نہیں۔ فوج کے ساتھ اعداد و شمار کا موازنہ کرنے کے مطالبے پر آصف باجوہ نے سینٹ کمیٹی کو بتایا کہ فوج اور محکمہ شماریات کے اعداد و شمار میں فرق نہیں۔ فوج نے مردم وخانہ شماری کے عمل میں محکمہ شماریات کو سکیورٹی کی معاونت کی ہے۔ کراچی اور لاہور کی آبادی میں زیادہ فرق نہ ہونے کی وجہ یہ بتائی کہ حکومت نے لاہور کے سارے ضلع کو شہری علاقہ قرار دے دیا ہے جبکہ کراچی کے دو اضلاع اب بھی دیہی میں شمار ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر عاجز دھامرا کا اعتراض تھا کہ کراچی اور لاہور کی آبادی میں کوئی زیادہ فرق دکھائی نہیں دیتا جو ناممکن ہے۔ ایم کیو ایم کے ڈاکٹر فاروق ستار نے اعتراض اٹھایا کہ کراچی کی آبادی کیلئے اعداد و شمار کا بیان اس انداز سے درج کیاگیا ہے کہ ’’یہ تین کروڑ سے کم نہیں ہو سکتی‘‘۔
مردم شماری نتائج کے مطابق پاکستان کی بیس فیصد آبادی 10 شہروں میں رہتی ہے۔ کراچی پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر ہے جس کی آبادی میں 1998ء سے اب تک 57 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ لاہور دوسرے نمبر پر ہے اور یہاں ایک کروڑ تیرہ لاکھ تیس ہزار نفوس آباد ہیں۔ اس کی آبادی میں 75 فیصد کا خطرناک اضافہ سامنے آیا ہے۔ دیگر شہروں میں فیصل آباد، راولپنڈی، پشاور اور حیدر آباد شامل ہیں۔ 19 سال میں ملک کے دس بڑے شہروں میں اوسط آبادی میں اضافہ 71 فیصد بتایا گیا ہے۔ 1998 میں ان شہروں میں بسنے والے دو کروڑ چالیس لاکھ افراد کی تعداد اب تازہ اعداد و شمار کی روشنی میں چار کروڑ دس لاکھ ہو چکی ہے۔ محکمہ شماریات کے مطابق ان دس شہروں کی آبادی یوں ہے۔ کراچی شہر کی آبادی ایک کروڑ انچاس لاکھ دس ہزار تین سو باون، لاہور کی آبادی ایک کروڑ گیارہ لاکھ چھبیس ہزار دو سو پچاسی، فیصل آباد میٹروپولیٹن کارپوریشن 38 لاکھ تین ہزار آٹھ سو چھیالیس، راولپنڈی سٹی بیس لاکھ اٹھانوے ہزار دو سو اکتّیس، گوجرانوالہ میٹروپولیٹن کارپوریشن بیس لاکھ ستائیس ہزار ایک، پشاور سٹی انیس لاکھ ستر ہزار بیالیس، حیدر آباد سٹی سترہ لاکھ بتیس ہزار چھ سو ترانوے، اسلام آباد میٹروپولیٹن کارپوریشن دس لاکھ چودہ ہزار آٹھ سو پچیس اور کوئٹہ شہر دس لاکھ ایک ہزار دو سو پانچ نفوس پر مشتمل ہے۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کوبھی مردم شماری میں شامل نہیں کیا گیا تاہم ایسا بھی کوئی پیمانہ ہونا چاہئے جس سے پتہ چلے کہ ملک کو اربوں روپے سالانہ بھجوانے والے ہمارے ان محنت کشوں کی تعداد کیا ہے اور کس ملک میں کتنی تعداد میں رہتے ہیں۔ تازہ اعداد و شمار کے مطابق وطن عزیز کی کل آبادی 20 کروڑ 77 لاکھ 74 ہزار 520 افراد پر مشتمل ہے۔
حرف آخر یہ کہ مردم شماری کے حوالے سے حیران کن تحقیق سامنے آئی ہے جو کسی لطیفے سے کم نہیں ہے مسکرایئے اور ملاحظہ فرمایئے۔ چھ مہینے پہلے ہر پاکستانی ایک لاکھ پچیس ہزار کا مقروض تھا اب ہر پاکستانی پچانوے ہزار روپے کا مقروض ہے۔ یہ معجزہ کیسے رونما ہوا؟
چھ مہینے پہلے ملک کی آبادی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 20 کروڑ تھی۔ اب مردم شماری کے بعد 22 کروڑ ہو چکی ہے۔ آبادی کا بڑھنا، مطلب قرض داروں کی تعداد کا بڑھنا ہے۔ زیادہ قرض داروں پر تقسیم ہونے کے بعد قرضہ کم ہو جایا کرتا ہے۔ اگر پاکستان کی آبادی دو ارب تک پہنچ جائے تو ہر شخص پر قرضہ صرف پچاس روپے رہ جائے گا۔ لہٰذا ہمت کیجئے، آبادی بڑھائیے، اپنے لئے۔۔ قوم کے لئے۔۔۔ بس یہی ایک صورت بچی ہے قرض کم کرنے کی۔