جب زرداری صاحب کے بارے میں کہا جا رہا تھا کہ وہ صدر کا الیکشن لڑ رہے ہیں میں کہتا تھاصدر زرداری پاکستان میں اب صدارتی الیکشن نہ لڑیں۔ بے شک آصفہ کو لڑوا لیں۔ زرداری صاحب ہار گئے تو کیا ہو گا۔ وہ کانوں کے کچے ہیں۔ ان کو کچھ مفاد پرست ”دوستوں“ نے گمراہ کیا ہوا ہے۔ وہ تو دوست دشمن کی پہچان رکھتے ہیں، جنہوں نے اُن سے فائدے اُٹھائے ہیں انہیں نقصان پہنچانے والے بھی وہی ہیں۔ وہ لوگ زرداری کے ”دوست“ بن گئے ہیں؟ ۔
میں نے کل زرداری صاحب کو چلتے ہوئے دیکھا۔ وہ کسی ٹی وی چینل پر تھے ان سے چلا نہیں جا رہا تھا۔ انہوں نے عیش بھی کی اور عیاشی بھی کی۔ دونوں ایک جیسا کام ہے۔ ان کا نام صدارتی انتخاب کے لئے لیا جا رہا تھا اور میں دکھی ہو رہا تھاانہوں نے خود پیچھے رہنے اور اعتزاز احسن کو آگے لانے کا اچھا فیصلہ کیا۔
لوگ حیران تھے بلکہ پریشان تھے کہ پہلے بھی میں نے اُن کے حق میں بات کی ہے۔ تب وہ جیل میں تھے۔ انہوں نے بڑی شان سے جیل کاٹی، مرشد و محبوب مجید نظامی نے نواز شریف کے مقابلے میں زرداری کی تعریف کی ہے جس کا گلہ بھی نواز شریف نے نظامی صاحب سے کیا تھا۔ انہوں نے کہا تم ایک ماہ جیل سے رہنے سے گھبراتے اور جدہ سُرور لینے چلے گئے۔ یہ جملہ نظامی صاحب کا تھا۔ صدر زرداری نے جیل کاٹی ا ور مردانہ وار کاٹی زرداری کو سمجھ نہ آئی کہ اتنا بڑا آدمی میرے لئے اچھی بات کر رہا ہے۔ پھر زرداری صاحب نوائے وقت کے دفتر میں ملنے بھی آئے۔
آج تو نواز شریف اڈیالہ جیل میں ہیں اور خاموش ہیں۔ شاید اس لئے کہ اُن کی بہادر ، زبردست اور لیڈر بیٹی مریم نواز بھی اُن کے ساتھ ہیں اور بڑی دلیری سے جیل میں ہیں۔ سُنا ہے انہوں نے جیل میں بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا ہے۔ یہ بھی حوصلے کی بات ہے مگر یہ تو بتایا جائے کہ نواز شریف کہاں ہیں؟ کیا کر رہے ہیں۔
اب نواز شریف کی سیاسی وراثت کو ایک نئی شان مریم دے گی۔ کیپٹن صفدر بھی قید میں ہیں۔ قیدی کے بعد قائد بننا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔ اب ان کا نام کیپٹن صفدر نواز شریف فیملی میں شامل ہو گیا ہے۔
ہر فرد کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتاہے۔
میری ذاتی طور پر گزارش بشریٰ عمران سے ہے کہ وہ مریم بی بی کو رہا کروائیں۔ اگرچہ یہ قید اُن سے پہلے کا واقعہ ہے مگر یہ اُن کا واقعہ بھی بن جائے گا۔ اس کے بعد واقعات بنتے چلے جائیں گے۔ پھریہ نہ ہو کہ نواز شریف کے بغیر مریم نواز رہا ہونے سے انکار کر دیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہو گا ایسے ہی ، مگر میری گزارش مریم نواز سے ہے کہ وہ باہر آئیں اور اندر والوں کے لئے سیاست کرے۔
میرے دل میں مریم نواز کے لئے ایک جذبہ ہے اور میں چاہتا ہوں کہ قوم اُن سے کام لے۔ کچھ لوگ اُن کے خلاف بھی باتیں کرتے ہیں۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ وہ باہر آئیں اور میدان میں آئیں۔ نواز شریف بھی مریم کی رہائی کے ساتھ اپنی رہائی سے مشروط نہ کریں۔ مریم اب نواز شریف کے لئے بھی سیاست کریںگی۔ میری گزارش ہے کہ نواز شریف اب سیاست سے ریٹائر ہو جائیں اور سب کچھ مریم کے حوالے کر دیں پھر دیکھیں یہ سیاست کس طرح بدلتی ہے۔
یہ بھی بہت بڑی تبدیلی ہو گی۔ عمران کے مقابلے کی تبدیلی مگر لوگوں کے حالات کب بدلیں گے۔ حالات بدلنے کے لئے خیالات بدلنے کی بہت ضرورت ہوتی ہے۔
٭٭٭٭٭
میرے بھائی توفیق بٹ اور دوست علیم خان عمران خان سے ملے ہیں۔ اب برادرم توفیق بٹ نے پاکستان میں رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور برادرم علیم خان وہاںمنتقل ہو گئے ہیں جہاں کبھی شہباز شریف بیٹھا کرتے تھے۔ 90 ۔ شاہراہ قائد اعظم۔
کچھ لوگ عمران سے بہت امیدیں لگائے ہوئے ہیں۔ قائد اعظم ثانی تو جیل میں ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرائے گی۔ عمران خان انتظار کریں۔ اللہ ان کی حفاظت کرے اور وہ اپنی کہی ہوئی باتوں کو عمل میں لائیں۔ انگوٹھی توانکی روحانی پیشوا بشریٰ بی بی نے دی ہے۔ یہ انگوٹھی ہے یا کوئی تعویذ کہ عمران کبھی اس سے کھیلتا ہے اورکبھی انگوٹھی اس سے کھیلتی ہے۔
پاکپتن میں اب کیا ہونے لگا ہے۔ بابا فرید کے مزار میں داخل ہوتے ہی پہلے ایک بار عمران نے دہلیز کو چوما تھا۔ جسے لوگوں نے سجدے کا نام دے کر پروپیگنڈا کیا۔ کہتے ہیں عمران وزیر اعظم بنا کہ اُس نے بشریٰ بی بی سے شادی کی۔ یہ کام بہت پہلے شروع ہو گیا تھا۔
٭٭٭٭٭
اقوام متحدہ کے لئے عمران پہلی بار تقریر کریں گے ۔ اُردو کے لئے ایک منفرد نئی مہم چلانے والی فاطمہ قمر نے میری معرفت عمران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وہاں پاکستان کی قومی زبان اُردو میں تقریر کریں۔ عمران نے پہلی تقریر پر فی البدیہ کی اور اُردو میں کی۔ کمال کر دیا۔ ورنہ نواز شریف بھی وزیر اعظم کے طور پر آجکل انگریزی میں تقریر کرنے لگ گئے تھے۔ نواز شریف سے بھی فاطمہ قمر نے اپیل کی تھی اور میری معرفت کی تھی۔
آخر میں ایک درد مندانہ بات کہ گورنمنٹ کالج رائے ونڈ کی پرنسپل ڈاکٹر راشدہ قریشی کوتبدیل کیا جا رہا ہے۔ وہاں کی طالبات نے مطالبہ کیا ہے کہ یہ تجویز فوراً واپس لی جائے۔ ورنہ احتجاج ہو گا اور ہڑتال ہو گی اور میں محمد اجمل نیازی بھی اس احتجاج میں اُن کے ساتھ شریک ہوں گا۔ ڈاکٹر راشدہ قریشی بہت قابل خاتون ہیں بہت زبردست ماہر تعلیم ہیں۔ کسی کالج میں انہیں کچھ عرصہ رہنے دیں کہ ایک قابل خاتون سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ وہ وحدت کالونی گرلز کالج میں پروفیسر تھیں۔ میری بیٹی بتاتی ہے کہ میں نے ایسی عظیم خاتون کم کم دیکھی ہے۔
٭٭٭٭٭