مکرمی!کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ استاد بادشاہ نہیں ہوتا مگر بادشاہ بناتا ہے،پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ ایسی ہی ایک شخصیت ہیں ان کے لاکھوں شاگرد پوری دنیا میں میڈیا کی عملی تربیت کی بہترین مثال ہیں۔تین برس کی عمر میں والد کا سایہ اٹھ گیا اس کے باوجود ان کی سیلف میڈ شخصیت نے وہ کر دکھایا جو اکثر لوگ کئی زندگیاں گزار کے بھی نہیں کر سکتے۔ان کی خود نوشت سوانح عمری 'سسکتی مسکراتی زندگی' کی ایوان اقبال میں ہونے والی تقریب پذیرائی میں ان کے احباب، ساتھیوں اور طالب علموں نے جو وطن عزیز کے آج معروف اینکرز، کالم نویس، صحافی اور استاد ہیں نے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت پر اظہار خیال کیا جس سے ان کی زندگی کے ایسے کئی گوشے بے نقاب ہوئے جو ہم نہیں جانتے تھے،اس کتاب میں ا±ن کی زندگی کے تمام زیر و زبر، حالات اور واقعات کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے۔ تعلیمی زندگی سے لے کر بحیثیت معلم پنجاب یونیورسٹی میں خدمات، جامعہ پنجاب میں ہونے والے تلخ اور خوشگوار واقعات ، مختلف ملکی ، غیر ملکی مذہبی، سیاسی اور سماجی شخصیات سے ملاقاتیں اور ان کے بارے میں تاثرات بھی کتاب کی زینت ہیں۔کتاب میں ڈاکٹر مغیث کی زندگی کی متنوع پہلو بھی سامنے آتے ہیں وہ استاد بھی ہیں، وہ ماہر ابلاغ عامہ بھی ہیں، کبھی ان کا کردار تحریک ختم نبوت میں نظر آتا ہے تو کہیں وہ بنگلہ دیش نامنظور تحریک میں انتہائی متحرک ملتے ہیں، کبھی وہ امریکہ کی بہترین جامعات میں پاکستان کے بارے میں غلط تصورات پر مخالفین پر عقاب کی طرح جھپٹے ہیں تو کبھی ڈھاکہ میں پاکستان کا انتہائی جامعیت سے دفاع کرتے نظر آتے ہیں۔سچ ہے ایسے دور میں ان ایسے ہیرے نایاب ہیں۔ ( صاحبزادہ محمد زابر سعید بدر)
سسکتی مسکراتی زندگی کی تقریب پذیرائی
Sep 01, 2018