گورڈن کالج راولپنڈی ۔۔۔میری مادر علمی

Sep 01, 2018

مجھ سے قبل گورڈن کالج راولپنڈی میں میرے دو بڑے بھائی رفیق جعفری اور شفیق جعفری پڑھتے تھے۔ 1963ءمیں مسلم ہائی اسکول سید پور روڈ راولپنڈی سے میں نے فرسٹ کلاس میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔میں اسکول کا بہترین مقرر قرار دیا گیا اور وقت کے مرکزی وزیر تعلیم فضل قادر چودھری نے سند فضیلت دی۔1963 میں گورڈن کالج میں داخلہ لیا۔چونکہ بچپن سے ہی میرا مزاج شاعرانہ و عاشقانہ تھا اس لئے خواہش تھی کہ ادبیات اور سیاسیات کے مضامین لوں لیکن والد گرامی کو کسی دوست نے مشورہ دیا کہ مجھے چارٹرڈ اکاونٹنٹ بنایا جائے جس میں مستقبل محفوظ ہے اور مالی فواہد بھی ہیں۔لہذا ”باالجبر“پڑھنا پڑا۔یعنی ایف اے میں انگریزی اور اردو کیساتھ حساب ،شمایات اور معاشیات جیسے مضامین پڑھنے پڑے جو میرے مزاج اور فطری میلان کےخلاف تھے۔خدا کے فضل و کرم ،خداداد ذہانت اور شبانہ روز محنت کی بدولت ایف اے میں بھی میں نے فرسٹ ڈویژن حاصل کی۔بی اے میں حساب کو ترک کیا یعنی حساب بے باق کیا۔بقول شاعر
روز حساب ڈر ہو مجھے کیوں حساب کا
میرا حساب کیوں ہو میں ہوں کس حساب میں
1967میں گورڈن کالج کے صرف دوطلبہ مجتبٰی حسن اور میں نے بی اے میں فرسٹ ڈویژن میں گریجویشن کی۔ اب میری خواہش تھی کہ لاہور جاکر ایل ایل بی میں داخلہ لوں اور ایک وکیل بنوں۔والد گرامی قبلہ تحسین جعفری مرحوم و مغفور نے وکالت کے پیشہ کی حمایت نہ کی اور مجھ سے فرمایا کہ گورڈن کالج میں ہی ایم اے انگریزی ادبیات میں کرکے پاکستان کی سول سروس یعنی سی ایس ایس کا امتحان دو۔ان کا خیال تھا کہ میری محنت اور ذہانت کا یہ تقاضا ہے کہ میں سول افسر ہوں کیونکہ پاکستان میں نوکری نہیں افسری کی عزت ہے بی اے کی تعلیم کے دوران میں ہی مجھے گورڈن کالج کا بہترین مقرر قرار دیا گیا۔اسٹوڈنٹس یونین کا چیف ایڈوائزر منتخب ہوا۔بار کلب کا صدر منتخب ہوا،شاعری بھی میرے لےے وجوانی میں باعث شہرت بنی۔ایسے میں وکیل بننے کی خواہش ہی تھی کیونکہ شاعرو ادیب پیدائشی طور پر آزادی پسند ہوتے ہیں اور فضول قدغنوں کو برداشت نہیں کرتے۔ان کی طبیعت باغیا نہ ہوتی ہے۔والد گرامی کی خواہش پر وکالت کے جنون کو پس پشت ڈالا اور انگریزی ادبیات میں گورڈن کالج میں 1967 میں داخلہ لے لیا۔یہ 1969 کا واقعہ ہے۔کالج کے پرنسپل چیئرمین انگلش ڈیپارٹمنٹ پروفسیر وی کے صاحب نے بی اے پاس کرنے سے پہلے ہی انگریزی کا لیکچرر مقرر کردیا جو میرے لئے باعث افتخارتھا۔گورڈن کالج کی تاریخ میں مجھے ”سٹوڈنٹ لیکچرر“ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ایم اے انگریزی کرتے ہی۔لیکچرر شب برقرار رہیں۔1970 سے لے کر 1991 تک گورڈن کالج میں انگریزی ادبیات کا درس دیتا رہا۔ایم اے انگریزی کی کلاس کو امریکی ادبیات پڑھاتا تھا جس سے مجھے برطانوی ادبیات کیساتھ ساتھ امریکی ادبیات کے گہرے مطالعہ کا موقع ملا۔گورڈن کالج کی لائبریری سے اردو ،فارسی اور انگریزی کی کتابوں سے خوب استفادہ کیا یہ لاجواب کتاب خانہ ہے۔پروفیسر کے ایام میں بزم ادب کا بھی انچارج رہا ور انگلشن لٹریری سوسائٹی کا بھی انچارج رہا۔اس طرح گاہے بگاہے ممتاز علم و ادبی شخصیات کو کالج میں مدعو کیا گیا۔بھارت کی مشہور افسانہ نگار عصمت چغتائی اور توک چند محروم کے صاحبزادے عالمی شہرت کے ماہر اقبالیات اور شاعر جگن ناتھ آزاد نے ہماری ادبی محفل میں شرکت کی۔ جگن ناتھ کا تعلق راولپنڈی سے ساتھ اور وہ گورڈن کالج میں پڑھ چکے تھے۔انہوں نے اپنی پرانی یادوں سے نہ صرف دلوں کو گرمایا بلکہ روحوں کو بھی تڑپایا۔ممتاز مزاحیہ شاعر سید ضمیر جعفری اور عالمی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز بھی متعدد بار زینت مسند محفل ادب بنے۔گارڈن کالج کا جو بلی ہال راولپنڈی شہر میں واحد وسیع اور محفوظ ہال تصور کیا جاتا تھا اس ہال کا افتتاح صدر پاکستان فیلڈ مارشل ایوب خان نے کیا تھا مجھے یاد ہے کہ جب 1969 میں میں ایم اے انگریزی کا طالب علم تھا تو ایک شام میں کالج کا ہاسٹل میں اپنے ایک دوست سے ملنے گیا۔اس نے مجھے بتایا کہ کچھ دیر بعد جوبلی ہال میں آل پاکستان مشاعرہ ہورہا ہے جسے مقامی انتظامیہ منعقد کروارہی ہے اور اس مشاعرہ میں شاعر انقلاب جوش ملیح آبادی ،فیض احمد فیض،احمد ندیم قاسمی اور احمد فراز تشریف لا رہے ہیں۔مجھے حیرت ہوئی کہ اتنے بڑے مشاعرہ کی مجھے خبر ہی نہیں۔ دوست نے بتایا کہ مشاعرہ کالج انتظامیہ کرتی تو آپ نوجوان شاعروں کی فہرست میں ہوتے یہ مشاعرہ بلدیہ راولپنڈی نے کرایا ہے اور داخلہ ٹکٹ دس روپے ہے۔میں فوراً جوبلی ہال کی طرف گیا اور ذہے نصیب کہ چند ٹکٹ باقی رہ گئے تھے اور دس روپے ادا کرکے ٹکٹ حاصل کیا۔جوبلی ہال معززین شہر، افسران حکومت،ادیبوں اور شاعروں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ وہ میری زندگی کا یاد گار مشاعرہ ہے جس میں بیک وقت عالمی شہرت کے شاعروں کو سنا اور ان سے ملاقات بھی کی۔یہ خدا کی کرم نوازی ہے کہ زندگی میں جوش ملیح آبادی،فیض احمد فیض اور احمد فراز سے ذاتی ملاقات رہی۔جوش صاحب نے میری شعری تصنیف گوشہ فقس کا 1982 میں دبیاچہ لکھا ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کمشنر راولپنڈی جی ایچ شاہ اور چیف آفیسر بلدیہ قانون دان اور اقبال شیخ الطاف حسین جن کی کتاب”اقبال اور اسلامی معاشرہ“اقبالیات پر ایک قابل قدر تصنیف ہے نے مشاعرہ کا اہتمام کیا ۔اس مشاعرہ کی صدارت پاکستان کے قومی ترانہ کے خالق اور شاہنامہ اسلام کے مصنف حفیظ جالندھری نے کی۔مشاعرہ میں راولپنڈی کے شعراءکو مدعو کیا گیا تھا۔ نوجوان شاعروں ،کی نمائندگی ”قرعہ فال بنام من دیوانہ زدند“ ٹھہری۔جوبلی ہال کالج کے طلبہ و طالبات سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔پروگرام کیمطابق پہلے مشاعرہ اور پھر قوالی تھی۔مشاعرہ شروع ہوا تو سب سے پہلے مجھے دعوت کلام دی گئی۔ان دنوں میں کلام ترنم سے پڑھتا تھا میں نے غزل پڑھی ....
دھندلے دھندلے نقوش ابھرتے ہیں
گاہ جیتے ہیں گاہ مرتے ہیں
کوئی مہوش کہیں ہے نغمہ سرا
غنچے کھلتے ہیں گل نکھرتے ہیں
ابھی یہ دو شعر ہی پڑھے تھے کہ غیر سنجیدہ اور شرارتی طلبہ نے آوازے کسنے شروع کردیئے ”آواز نہیں آرہی۔اونچا پڑھو“حفیظ جالندھری سمجھے شاید بڑے مجمع میں آواز پچھلی نشستوں تک نہیں پہنچ رہی تو وہ بولے”ذرا اونچا پڑھو“میں سمجھتا تھا مسئلہ آواز کا نہیں مسئلہ نوجوانوں کی طرف سے ”ہوٹنگ“کا ہے جو اس اس زمانے میں نوجوانوں کیلئے تفریح طبع کا مرچ مصالحہ ہوا کرتا تھا میری غزل کے بعد نوجوان شاعرہ پروین فنا سید صاحبہ کو دعوت کلام دی گئی،محترمہ اب انتقال کرچکی ہیں۔خدا نے انہیں تینوں صفات سے بے دریغ نوازا تھا،خوبصورت شخصیت،خوبصورت مترنم آواز اور خوبصورت شاعری۔ابھی انہوں نے پہلا ہی شعر اپنی مسحور کن آواز میں پڑھا تھا کہ مجمع سے پھر شور محشربپا ہوا۔”اونچا پڑھو۔اونچا پڑھو“اب حفیظ جالندھری تاڑ گئے کہ بات آواز کی نہیں ساز باز کی ہے۔شرارت ہے۔وہ مائیک پر آئے اور اپنے فطری میلان کےمطابق غیظ و غضب کا شکار۔فرمایا۔ ”لونڈو تمہیں پتہ ہے میں کون ہوں۔میں حفیظ جالندھری ہوں ”ترانہ پاکستان کا خالق“ طلبہ نے یہ یک زبان کہا۔ ”ہاں ہمیں پتہ ہے“فرمایا مشاعرہ سنو گے یا نہیں سنو گے۔ طلبہ چلائے نہیں سنیں گے۔ہم قوالی سنیں گے۔اس پر حفیظ جالندھری آگ بگولہ ہوگئے۔اٹھو شاعروان حبشیوں کو کیا شعر سنانا۔تمام شاعر و شاعرات اسٹیج سے بطور احتجاج اٹھ کھڑے ہوئے ۔کمشنر،ڈپٹی کمشنر،افسران بلدیہ حفیظ جالندھری صاحب کی منتن کرتے رہے کہ وہ طلبہ کو ابھی کنٹرول کرتے ہیں آپ مشاعرے کا بائیکاٹ نہ کریں لیکن حفیظ جالندھری ہال سے لے کر کالج گیٹ تک جہاں ان کی کار بمع ڈرائیور کھڑی تھی وہ وہ مغلظات دیتے گئے کہ شاعرات نے شرم سے ڈوپٹے دانتوں میں دیا لےے۔بہر حال یہ چند واقعات محافل ادبی یاد آئے جو ضبط تحریر میں لایا ہوں۔جب میں نے 1963 میں گورڈن کالج میں داخلہ لیا تو یہ امریکی مشنری کالج تھا جسے 1972 میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے قومی تحویل میں لے لیا تھا۔اس کالج کی تقریبات میں بڑی بڑی نامور سیاسی،علمی و ادبی شخصیات آتی رہی ہیں۔اس کالج نے بڑے بڑے نامور لوگوں کی تربیت کی۔اگر سب کے نام لکھوں تو مضمون کے صفحات انہیں کے ناموں سے بھر جائیں۔

مزیدخبریں