ڈی پی او تبادلہ نوٹس خاور مانیکا‘ احسن جمیل آئی ایس آئی کا کرنل طلب

اسلام آباد(نمائندہ نوائے وقت)سپریم کورٹ میںڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کے تبادلے سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں عدالت نے خاور مانیکا ، احسن جمیل گجر، اور آئی ایس آئی کے کرنل طارق کو پرسوں طلب کر لیا۔ عدالت نے پی ایس او وزیرعلی حیدر، ڈی آئی جی ہیڈ کوارٹرز شہزادہ سلطان اور سی ایس او وزیر اعلی عمر کو بھی طلب کر لیا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایڈوکیٹ جنرل پنجاب اور سرکاری لا ا فسران آئندہ سماعت پر پبلک آفس کے غلط استعمال پر آرٹیکل 62 ون ایف کے سکوپ کے لئے عمران خان ، جہانگیر ترین اور حنیف عباسی کے مقدمات کے فیصلے پڑھ کر آئیں۔ چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ یہ خاور مانکا معافی منگوانے والا کون ہوتا ہے اور وزیراعلیٰ پنجاب نے معافی مانگنے کے لئے کیوں دبا¶ ڈالا ہم دیکھتے ہیں کس طرح دبا¶ کے تحت تبادلہ ہوتا ہے۔ آئی جی پنجاب نے کہا کہ مجھ پر تبادلے کے لئے کوئی دبا¶ نہیں تھا بلکہ رضوان گوندل کے خلاف محکمانہ طور پر کارروائی کی گئی۔ ڈی پی او رضوان گوندل نے بتایا کہ مجھے طلب کر کے وزیراعلیٰ پنجاب نے احسن جمیل گجر کو بطور بھائی متعارف کرایا جبکہ بیرون ملک سے آئی ایس آئی کے کرنل طارق نے مجھے پیغام بھیجے،رات ساڑھے بارہ بجے وزیراعلیٰ پنجاب کے افسر کی طرف سے بتایا گیا کہ میرا تبادلہ کردیا گیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ ایک پولیس افسر کیوں کسی کے ڈیرے پر جا کر معافی مانگے،؟کدھر ہے خاور مانیکا؟چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کی سرزنش کرتے ہوئے کہاکہ عدالت سے جھوٹ بولیں گے تو نتائج بھگتنا ہوں گے،آپ بھی گریڈ اکیس کے ملازم ہو کر گریڈ بائیس پر کام کر رہے ہیں، کیوں نہ سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کو بلا کر آپکو تبدیل کرا دیا جائے، ایسی کیا قیامت آگئی تھی کہ رات کو ایک بجے تبادلے کا حکم دیاکیا صبح نہیں ہونی تھی۔چیف جسٹس نے آئی جی سے استفسار کیاکہ کون ہے یہ جمیل گجر؟پولیس کو سیاسی دباو سے نکالنا چاہتے ہیں۔ جمیل گجر کو کس نے تبادلے کا اختیاردیا۔دیکھ لیتا ہوں کون ہے یہ جمیل گجر ؟ آئی جی پنجاب نے موقف اپنایاکہ 31سال سے پولیس سروس میں ہوں ۔ کسی سیاستدان کے کہنے پر کام نہیں کرتا۔ قسم کھاتا ہوں سیاسی دباو نہیں لیتا ہوںڈی پی او کی تبدیلی انتظامی کا حکم تھا ۔اس کے بارے میں دو واقعات کا علم ہوا تھا ۔ اس لئے تبادلہ کیا رضوان گوندل مجھ سے پوچھے بغیر وزیراعلی کے پاس گئے اوررضوان گوندل نے حقائق کے خلاف باتیں بتائیں۔ پاکپتن میں ہونے والے واقعات کے ذمہ دار ڈی پی او نہیں تھے۔ آئی جی پنجاب نے کہاکہ 5اگست کو ایک خاتون کیساتھ بدتمیزی کی گی تھی۔حلفیہ کہتا ہوں کسی کے کہنے پر تبادلہ نہیں کیاجس سے چاہیں میرے بارے میں پوچھ لیں۔بلند آواز میں بات کرنے پر چیف جسٹس اور جسٹس عمر عطابندیال نے سخت سرزنش کرتے ہوئے کہاکہ عدالت کو ہدایات نہ دیں ۔آپ کو جرآت کیسے ہوئی کہ اس لہجے میںبات کریں ، جس پر آئی جی نے معذرت کرتے ہوئے کہاکہ انہوں نے رضوان گوندل کو دوبارہ وزیر اعلی کے پاس جانے سے روکاتھا چیف جسٹس نے کہاکہ رات گئے تبادلہ کیوں کیا گیا،آپ کا بھی ابھی تبادلہ کر دیتے ہیں۔عدالت میںجھوٹ بولا تو بطور آئی جی واپس نہیں جائیں گے، آئی جی نے کہاکہ رضوان گوندل نے مجھے سچ نہیں بتایا، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا رات دو بجے خاتون کا باہر جانا اچھی بات ہے۔پولیس نے حفاطت کے لیے پوچھا تو کیا غلط کیا؟آئی جی نے اعتراف کیاکہ ڈی پی او نے کوئی غلط کام نہیں کیا؟لیکن لڑکی کا رات گئے ہاتھ پکڑا گیا۔لڑکی کا ہاتھ پکڑنے پر دکھ ہوا ہے پولیس افسر کیوں کسی لڑکی کا ہاتھ پکڑے۔آئی جی کے بعدعدالتی طلبی پرسابق ڈی پی او رضوان گوندل روسٹرم پر آئے اور بتایاکہ 24 اگست کو وزیر اعلی کے پرسنل سیکرٹری حیدر نے فون کرکے کہاکہ مجھے اور آر پی او کو وزیر اعلی نے بلایا ہے ۔جس کے بعد میں نے فون پرآر پی او کو اطلاع دی اور انہیں پانچ اگست اور تئیس اگست والا واقعہ بتایا،آر پی او کی ہدایت پرمیں نے آئی جی کو بتایا تو انہوں نے کہاکہ آپ وزیراعلی کو میرا سلام بھی کہہ دیجئیے گا جب دس بجے وزیراعلی ہاﺅس پہنچے تو وزیر اعلی نے حال احوال کے بعد وہاں بیٹھے شخص کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ احسن جمیل میرے گجر بھائی ہیں یہ آپ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں جس کے بعد احسن جمیل نے پوچھا مانیکا فیملی کے ساتھ کیا ہوا؟رضوان گوندل نے کہاکہ انکو دونوں واقعات سے آگاہ کیاتوآرپی او کی طرف سے واقعات کی انکوائری کی یقین دہانی کے بعد ہم واپس آگئے تو مجھے کہا گیا کے خاور مانیکا کے ڈیرے پر جائیںیہ فیصل آباد میں تعینات آئی ایس آئی کے کرنل طارق کے زریعے پیغام دیا گیا،ابراہیم مانیکا کو اپنے گھر اور دفتر بلایا،پولیس افسر عظیم ارشد کے ذریعے بھی پیغام پہنچایا گیا کہا گیا تھا شاید مانیکا فیملی کے ساتھ سازش ہوئی ہے، عدالتی استفسار پر انہوں نے بتایا کہ احسن جمیل کی اہلیہ خاتون اول کی دوست ہیں۔چیف جسٹس نے کہاکہ کیا یہ وہی خاتون ہیں جن کے گھر خاتون اول کا نکاح ہوا تھا رضوان گوندل نے کہاکہ میں نے ڈی ایس پی کو بھی ڈیرے پر بھیجنے سے انکار کیا اور کہاکسی چھوٹے افسر کو ڈیرے پر بھیج دیتا ہوں۔ احسن جمیل گجر سے کہا بطور ڈی پی او ڈیرے پر نہیں آﺅں گا۔ رضوان گوندل نے کہاکہ وزیراعلی کو بتایا کہ کوئی سازش نہیں ہورہی۔طے ہوا تھا کہ ٓار پی او ساہیوال انکوائری کریں گے۔وزیراعلی پنجاب نے آئی جی کو کہا مجھے یہ ڈی پی او نہیں چاہیے۔ وزیراعلی کے سٹاف افسر نے رات بارہ بجے کال کر کے بتایا۔ رات گئے ڈی آئی جی ہیڈ کواٹر شہزادہ سلطان سے بات کرنے کا کہا گیا۔رات ساڑھے بارہ بجے آر پی او کو بتایا کہ میرا تبادلہ ہو گیا ۔ چیف جسٹس نے عدالت میں موجود سینئر وکیل مخدوم علی خان سے کہاکہ وہ عدالتی معاون کے طور پر جائزہ لے کر بتائیں کہ اس معاملہ میںآئین کے آرٹیکل 62کا وزیراعلی پر اطلاق ہوسکتا ہے یا نہیں عدالت نے اپنے ایک فیصلہ میں آرٹیکل 62کی مفصل تشریح کی ہے ممکن ہے اس وزیراعلی پراطلاق نہ ہو لیکن کسی اور پر ہوسکتا ہے ۔چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کا موقف یکسر مسترد کرتے ہوئے کہاکہ آپ نے یہ کام وزیراعلی کے دباﺅ پر کیا ، ملک میں ریاست کی رٹ بڑی اہم ہے اورپولیس کو آذادہونے کی ضرورت ہے کیونکہ پولیس عوام کی خدمت کیلئے ہوتی ہے ۔جسٹس عمر عطاء بندےال نے کہاکہ آئی جی پنجاب نے تبادلہ کرنے کی یہ وجہ نہیں بتائی،انکوائری افسر نے کہاکہ بطور پبلک سرونٹ ہماری کوئی انا نہیں ہوتی، شکایت کنندہ کے گھر جانا پولیس کام نہیں ہے۔ آج کل توپولیس کہتی ہے گاڑی لاﺅ تو تفتیش کے لیے جائیں گے۔ آئی جی پنجاب نے بطور کمانڈر اپنا کردار ادا نہیں کیا۔ آئی جی نے کہاکہ رضوان گوندل کو ڈیرے پر جانے سے روکا تھا ۔رضوان گوندل نے کہاکہ انہیں بیٹی سے بدتمیزی کا کسی نے نہیں بتایا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ سمجھ نہیں آتی وزیراعلی اور اس کا یار کہاں سے آگیا۔ عدالت نے تین بجے تک خاور مانیکاان کے بیٹے ابراہیم مانیکا اور جمیل گجر کو طلب کیا مگر وہ عدالت پیش نہیں ہوئے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ ابراہیم مانکا گلگت نلتر میں موجود، ہیں خاور مانیکا کو تین بجے بچی کو سکول سے لینے جانا ہے، جبکہ احسن جیل گجر کا نمبر نہیں لگ رہا۔عدالت نے کہا فی الحال ہم وزیراعلیٰ کے خلاف کوئی ایسا ایکشن نہیں لے رہے، کیس کی سماعت سوموار تک ملتوی کر دی گئی۔
ڈی پی او تبادلہ نوٹس

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...