ایک سوال جس پر تجزیہ نگاروں میں خوب بحث جاری ہے یہ ہے کہ مودی سرکار نے کشمیر میں اتنا بڑا قدم اس وقت کیوں کیا جبکہ ان کا انتخابی وعدہ تو جن سنگھ اور مہا سبھا کے دنوں سے چلا آرہا ہے اور ماضی میں بھی ان کی حکومت (واجپائی) اس پوزیشن میں تھی کہ وہ یہ کام کرسکتی تھی۔ خود مودی کی پہلی سرکار بڑی اکثریت کی حامل تھی لیکن پھر بھی اس نے اپنے وعدے کے برخلاف یہ کام نہیں کیا۔ لہٰذا یہ کہنا کہ کیونکہ وہ آج ایک بڑی کامیابی سے جیت کر آیا ہے تو وہ اپنے وعدے کا پاس کرتے ہوئے اس کو پورا کررہا ہے، کوئی مضبوط دلیل نہیں ہے۔
اس امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا کہ اس پیش رفت کا تعلق داخلی سے زیادہ خارجی معاملات سے ہے۔ داخلی طور پر بے جی پی کی حکومت تازہ تازہ چناؤ جیت کر آئی ہے اور اس دوران اس نے یقیناً ساری انتخابی مہم پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے گذاری۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کیونکہ ان کی پہلی حکومت نے معاشی میدان میں نہ صرف بڑے بڑے اہداف حاصل نہیں کیے تھے (مثلاً روزگار کی فراہمی اور ترقیاتی کاموں کا اجرا وغیرہ) بلکہ کرنسی کی منسوخی سے لوگوں میں جو بددلی پیدا ہوئی تھی وہ ان کیلئے بڑا چیلنج تھا۔ لہٰذا ان ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے اس دفعہ مودی نے گجرات کے "معاشی گرو" کا پہناوا چھوڑ کر "چوکیدار" کی وردی پہن لی، اور کمال مہارت سے فروری کی جنگ میں جھوٹے دعؤں اور فضائی معرکے میں ذلت آمیز ناکامی کو بھی سادہ لوح عوام کے سامنے فتوحات کی حیثیت سے پیش کردیا۔ تو لہٰذا یہ بات درست نہیں ہے کہ مودی نے کشمیر کی حیثیت کو بدل کر ایک انتخابی وعدہ پورا کیا ہے۔ وہ کونسے بیرونی عوامل ہیں جو اس پیش رفت کا باعث بنے ہیں۔ ہماری نظر میں اس میں اہم ترین افغانستان میں ہونے والی امن کی کوششیں ہیں۔ نائن الیون کے بعد کابل میں جو حکومت قائم ہوئی اس نے پاکستان کے بجائے بھارت کو اپنا دوست بنا لیا۔ امریکہ نے جلد ہی پاکستان کی قربانیاں اور افغان جنگ میں فراہم کی جانیوالی مدد اور آسانیاں بھلا دیں اور بھارت کی کابل میں رسائی کو سہل بنایا۔ بھارت نے اس ساری رسائی کو پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال کیا۔ وہ نہ صرف بلوچستان میں دہشت گردوں کی سر پرستی کر رہا تھا بلکہ اس نے قبائلی علاقوں میں بھی دہشت گردی کو ہوا دی۔ بھارت شروع سے طالبان سے مذاکرات کا مخالف رہا ہے اور وہ چاہتا تھا کہ ان سے جنگ جاری رہے۔یہی خواہش کابل حکومت کی بھی رہی ہے اور وہ بھی امریکہ سے اس بات پر نالاں ہے کہ اس کی پیٹھ پر ان امن مذاکرات کا انعقاد ہوا ہے۔ لہذا کابل حکومت اور بھارت اس وقت شدید صدمے سے دوچار ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اب ان کیلئے افغانستان کی سر زمین تنگ ہونے والی ہے۔
بھارتی را کے سابق سربراہ وکرم سود نے گذشتہ دسمبر میں یہ کہہ دیا تھا کہ " ہم جلد دیکھ سکتے ہیں کہ امریکہ افغانستان میں ایک وحشیانہ جنگ کو ادھورا چھوڑ کر نکل جائیگا۔ عام افغان پر اس کے خوفناک مضمرات مرتب ہونگے۔لیکن یہ بھارت کیلئے بھی کوئی اچھی خبر نہیں ہے"۔ مضمون کے خاتمے پر موصوف لکھتے ہیں کہ: "طالبان کی فتح کو پاکستان اپنی پالیسیوں کی کامیابی تصور کریگا۔ اور یہ دونوں ملکر اس کو اپنے ایمان کا نتیجہ گردانیں گے جس نے ایک اور سپر پاور کو شکست دے دی۔ یہ بات ان جہادی قوتوں کی حوصلہ افزائی کیلئے کفایت کریگی جن کی پرورش اس لیے کی گئی ہے کہ وہ بھارت پر غزوہ ہند کا آغاز کردیں۔ہم نادان ہونگے اگر ہم اس کے سوا کسی اور بات پر یقین کریں گے"۔یہ بات کسی بھارتی سیاستدان نے نہیں کی ہے۔ یہ اس شخصیت کے خیالات ہیں جس نے اپنی ساری زندگی اس ادارے میں گزاری ہے جس پر بھارت کی سلامتی کی اولین ذمہ داری ہے ۔ اس کا علاوہ دیگر آوازیں بھی اس طرح کی گمراہ کن خبریں پھیلا رہی ہیں۔ سنڈے گارجین میں ایک ہندوستانی صحافی تین اگست کو لکھتا ہے کہ"افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلاء طالبان کو ’آزاد‘ کردیگا کہ وہ جی ایچ کیو کی پشت پناہی سے وادی کشمیر کے اندر داخل ہوجائیں"۔ آگے چل کر وہ لکھتا ہے کہ "اون لائن پیغامات جو سنڈے گارجین نے دیکھے ہیں ان سے صاف ظاہر ہے کہ وہ جہادی گروپ جو امریکی انخلاء کو ایک بڑی کامیابی سمجھتے ہیں وہ اب اس مقصد میں زیادہ پر اعتماد ہوگئے ہیں کہ ملک میں غزوہ ہند شروع کرنے کا وقت آگیا ہے، جس کا پہلا مرحلہ کشمیر میں اس کو قائم کرنا ہوگا"۔
مزید براں مقبوضہ کشمیر کے سابق انسپکٹر جنرل کے راجندرا نے بھی اپنے ایک خط میں نئی دہلی کو متنبہ کیا تھا کہ امریکی انخلاء کے بعد یہ صرف کچھ وقت کی بات ہوگی کہ جہادی عناصر وادی کشمیر کا رخ کریں۔ ان عناصر کو اس بات کا بھی خدشہ ہے کہ خود بھارت کے اندر داعش اور القاعدہ کے عناصر پیدا ہوسکتے ہیں یا ہو رہے ہیں۔
سری لنکا میں مارچ میں ہونے والے خود کش دھماکوں کے ایک ملزم نے یہ اعتراف کیا ہے کہ اس نے کیرالہ اور کشمیر کا دورہ کیا تھا اور خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے یہاں تربیت بھی حاصل کی ہو۔ کشمیر ی حریت پسندوں کا ایک گروہ جو قلیل تعداد میں اور جس کی قیادت برہان وانی کا دوست ذاکر موسی کر رہا ہے اس نے علی الاعلان عالمی جہاد سے وابستگی کا اظہار کیا ہے۔ بھارت کو ایک اور خطرہ سی پیک سے لاحق ہے جو چین اور پاکستان کے درمیان ترقی کی نئی شاہراہ کھولنے کا باعث بن رہا ہے۔ دونوں ممالک کے بڑھتے ہوئے تعاون کو وہ مشتبہ نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ اس بابت اس نے اس منصوبے کیخلاف ایک بڑا گمراہ کن پروپیگنڈہ شروع کیا لیکن اس کی عملدرامد کی رفتار دیکھ کر وہ مزید متفکر ہوگیا ہے۔ موجودہ حکومت نے اس منصوبے کوابتداً پس پشت ڈال دیا تھا لیکن اب یہ امکان ہے کہ اس میں دوبارہ تیزی آئے گی۔ لہذا بھارت یہ چاہتا ہے کہ اسے یہ قدرت حاصل ہوجائے کہ وہ ضرورت کے تحت اس کو سبوتاژ کرسکے۔
یہ وہ خطرات ہیں جن کا سامنا کرنے کیلئے بھارت سہ طرفہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ سب سے پہلے اس نے کشمیر پر چڑھائی کرکے یہ کوشش کی ہے کہ وہ کشمیری جدوجہد کو مکمل طور پر تہہ و تیغ کردے۔ علاوہ ازیں وہ کشمیر کے داخلے کے سارے راستوں کو بند کرنا چاہتا ہے تاکہ افغانستان کے راستے سے کوئی آمد ورفت ممکن نہ رہے۔ لیکن وا خان راہداری کی موجودگی میں یہ ناممکن ہے۔ لہذا دوسری جانب اس کی خواہش یہ ہے کہ وہ گلگت بلتستان میں یا براہ راست داخل ہوجائے یا اس کو اس علاقے میں مداخلت کی کھلی چھٹی مل جائے جو کشمیر پر مکمل استبداد سے ممکن ہے۔ یوں اسے سی پیک میں گڑ بڑ کرنے کا موقع بھی مل جائیگا۔
تیسری جانب وہ اس بات کی بھی تیاری کر رہا ہے کہ اگر امریکیوں نے کابل حکومت کو تنہا چھوڑ دیا تو وہ اس کی مکمل پشتیبانی کریگا اور اس کی کوشش ہوگی کہ طالبان افغانستان میں مستحکم حکومت قائم نہ کرسکیں اور وہاں خانہ جنگی جاری رہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ امریکہ کو یہ باور کرائے کہ بھارت افغان امن کی کوششوں کو خراب کرنا چاہتا ہے۔ اور وہ جس اضافی فوج کو کشمیر میں لایا ہے اس سے پاکستان کو شدید خطرات لاحق اور جس کے لیے ہوسکتا ہے کہ پاکستان کو بھی شمال مغربی سرحدوں سے فوجیں کسی حد تک ہٹانی پڑینگی۔ لہٰذا اس سے امن کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ امریکہ کو چاہئے کے وہ بھارت کو یہ بتا دے کہ اس کی امن کو خراب کرنے کی کوششیں ناقابل قبول ہیں اور وہ اس سے باز رہے۔ ہماری نظر میں بھارت نے یہ قدم گھبراہٹ اور اضطراب میں اٹھایا ہے۔ اس نے خود کو بیشمار خطرات سے دوچار کردیا ہے۔ اتنی بڑی آبادی کو ایک پنجرے میں بند کرکے رکھنا خود فریبی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ لوگوں کو کشمیریوں کی نسل کشی کا خطرہ ہے، لیکن اتنی بڑی آبادی کا قتل عام کرنا ناممکن ہے۔ تین دہائیوں کے بعد بھی جس قوم کا جذبہ حریت تر و تازہ ہو اسے آج کیونکر ٹھنڈا کیا جاسکتا ہے۔ کل جب بھارت بالآخر فوجی کرفیو کو ختم کریگا تو اسے احساس ہوجائیگا کہ یہ مسئلہ یوں حل نہیں ہوگا۔ بلکہ بھارت جتنا ظلم و تشدد کریگا، جو شروع ہوچکا ہے اور جس کی تفصیلی خبر بی بی سی کے نمائندے نے ساری وادی کا دورہ کرکے شائع کردی ہے، تو پھر اس کا جواب صرف تشدد سے ملے گا۔ مبصرین متنبہ کررہے ہیں کہ طالبان نے جس طرح اٹھارہ سال امریکہ سے جنگ لڑی ہے یونہی کشمیر نوجوان بھی بھارتی قابض فوج کا مقابلہ کرینگے۔
بھارت، کشمیر اور افغانستان
Sep 01, 2019