افغانستان میں گزشتہ 24 گھنٹوں میں 40 جنگجو ہلاک، بدخشاں میں طالبان کا فرضی ضلعی سربراہ مارا گیا

کابل /فیض آباد(شِنہوا)افغانستان بھر میں گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران کم از کم 40 جنگجو جن میں سے اکثریت عسکریت پسندوں کی تھی ہلاک کر دیے گئے جب افغان حکومت جنگ کے خاتمے کیلئے طالبان سے مذاکرات پر زور ڈال سکے۔ یہ بات حکام نے پیر کے روز بتائی۔ضلعی گورنر محبوب اللہ سیدی نے بتایا کہ پرتشدد واقعات کی تازہ ترین لہروں میں شمالی صوبہ قندوز کے ضلع امام صاحب طالبان کے ٹھکانے پر فوجی طیاروں کے حملے میں 5 طالبان عسکریت پسند موقع پر ہی جاں بحق ہو گئے ہیں۔عہدیدار کے مطابق حکومتی فورسز نے ضلع امام صاحب میں پیش قدمی کرتے ہوئے گزشتہ کچھ دنوں کے دوران شورش زدہ ضلع کے ایک درجن سے زائد دیہات کو باغیوں سے پاک کر دیا ہے۔صوبائی پولیس کے ترجمان محمد کریم یورش نے شِنہوا کو بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران شمالی صوبہ فریاب کے  اضلاع اندخوئی ، کرگان اور خواجہ سبزپوش کے مجموعی طور پر 37 دیہات کو بھی عسکریت پسندوں سے پاک کر دیا گیا ہے۔جس کے نتیجے میں طالبان جنگجوں کو 18 لاشیں چھوڑ کر پسپا ہونا پڑا اور ان کے 10 جنگجو زخمی بھی ہوئے ہیں۔مقامی سیکورٹی حکام کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ملک بھر میں کم از کم 17 مزید جنگجو ہلاک ہوئے ہیں جن میں 6 افغان سیکورٹی اہلکار اور 11 طالبان باغی شامل ہیں۔حکومت اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوششوں کے دوران لڑائی جاری ہے۔دوسری جانب افغانستان  میں طالبان کا ضلعی فرضی سربراہ سوموارکے روز ہلاک جبکہ 2 دیگر زخمی ہوگئے ہیں اورعسکریت پسندوں کی جانب سے صوبہ بدخشاں کے ما ئی ما ئی ضلع  میں خود کو مضبوط کرنے کی کوشش ناکام بنادی گئی ہے۔ یہ پولیس کے صوبائی ترجمان ثنا اللہ روحانی نے بتایا ہے۔روحانی نے بتایا کہ طالبان عسکریت پسندوں کے ایک گروہ نے ضلع مائی مائی کے واداب کے علاقے میں ایک سکیورٹی چوکی پر مقامی وقت کے مطابق سوموار کی صبح 6بجے حملہ کر دیا لیکن پولیس نے جوابی کارروائی کی جس میں مائی مائی کا شیڈو گورنر ضیا الحق ہلاک ہو گیا جبکہ اس کے 2محافظ زخمی ہوگئے، باغیوں کو فرار ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔یہ پہلی مرتبہ ہے کہ طالبان جنگجوں نے تاجکستان کی سرحد کے ساتھ واقع ضلع مائی مائی کے درواز علاقہ پر اپنا اثرورسوخ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔مائی مائی کے نواحی ضلع ناسائی کے مختلف علاقوں پر قابض طالبان عسکریت پسندوں نے واقعہ پر تاحال کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

ای پیپر دی نیشن