گزشتہ دنوں کراچی میں مون سون کی برسات کے چھٹے ا سپیل نے پاکستان کے معاشی حب کراچی کو جل تھل کر ڈالا کراچی میں ہونے والی بارش نے اس شہر کا مینڈیٹ رکھنے والی پیپلزپارٹی ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی کی کار کردگی کو عوام کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے ساتھ ہی اس ملک کے غریب عوام پر مسلط کے ۔الیکڑک نے بھی اس برسات میں کوئی کسر نہیں چھوڑی بارش کی پہلی بوند گرتے ہی لوڈ شیڈنگ کر کے لوگوں کی پریشانی میں اضافہ کر دیا گیا‘ کے ۔الیکڑک وہ بے لگام ادارہ بن چکا ہے جس کو لگام ڈالنے کی پاکستان کی کسی حکومت یا ادارے میں جرات نہیں اور یہ جرات کی بھی کیسے جاسکتی ہے کیوں کہ کئی قومی سرکاری ادارے بدقسمتی سے کے۔الیکڑک کے مقروض ہیں۔کورونا کی آڑ میں سیاست کرنی والی پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت جو ہر روز انسانی زندگیوں کو بچانے کا درس دیتی تھی‘ چیئر مین پیپلزپارٹی جو معیشت کی تباہی سے زیادہ غریب کی زندگی کو بچانے کے لئے فکر مند دکھائی دیتے تھے‘ لوگوں کو گھروں میں شام پانچ بجے قید کرنے والے لوگوں کا کاروبار تباہ کرنے والے اور ان کو کسی بھی قسم کا ریلیف فراہم نہ کرنے والے‘ ہر روز وفاق کو گرانے والے چیئر مین پیپلزپارٹی کہاں ہیں ۔آج جب کراچی ان نااہل حکمرانوں کے ذاتی مفاد کی بھینٹ چڑ چکا ہے کراچی کی گلیاں کچی آبادیاں تباہ ہوگئی ہیںبرسات نے کراچی شہر کا پورا نظام تباہ برباد کر دیا ہے کئی علاقوں میں لوگ برسات کی وجہ سے بے گھر کئی بے روزگار اور ہزاروں لوگ بھوک سے پریشان طویل لوڈشیڈنگ کے عذاب میں مبتلا ہیں ایسے میں چیئر مین پیپلزپارٹی کہیں دکھائی نہیں دیتے ۔چار روز کی بارش میں کراچی شہر نالائق حکمرانوں کی نااہلی کی بھینٹ چڑھ چکا ہے بے حسی کا عالم تو یہ ہے کہ اس وقت اس شہر کا مینڈیٹ رکھنے والی تینوں جماعتیں سیاست سیاست کھیل رہی ہیں کراچی کے مسائل پر سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا معزز بینج بھی ان کی نااہلیوں کو درست کرانے میں ناکام نظر آتا ہے۔ ہر عدالتی سماعت عدالتی حکم کے فوری بعد عدالتی فیصلوں کی دھجیاں اُڑا دی جاتی ہیں ۔کراچی میں غیر قانونی تعمیرات کا معاملہ ہو پینے کے صاف پانی کا معاملہ ہو لاپتا افراد کا معاملہ ہو لوڈشیڈنگ کا معاملہ ہو یا جعلی پولیس مقابلوں کا معاملہ ہو ہر معاملے پر معزز عدالتوں نے حکم جاری کیئے مگر بدقسمتی سے اس وقت تک ان تمام معاملات میں سے کسی ایک پر بھی عمل نہیں ہوسکا ۔ پاکستان کے معاشی حب کراچی کے مسائل کے حل پر اس وقت بھی سیاست کی جارہی ہے ۔گزشتہ دنوں سابق میئر کراچی وسیم اختر کو کراچی کے مسائل پر چار سال بعد آبدیدہ ہونے کا ڈرامہ کرنا ہی پڑا یقینا ان کا آبدید ہ ہونا کراچی کے مسائل پر نہیں تھا بلکہ میئر کی مدت کے اختتام پذیر ہونے پر تھا اگر کراچی کے مسائل پر یہ رونا تھا تو چار سال بعد مدت کے اختتام پر کیوں؟ آپکو تو شروع دنوں میں ہی مکمل اختیارات نہ ملنے پر مستعفی ہوجانا چاہیئے تھا پھر اس شہر سے اس شہر کے عوام سے میئر صاحب کی محبت کا یہ عالم ہے کہ محترم پر کرپشن کے الزامات ہیں اور محترم بیرون ملک جانے کے لئے عدالت میں اپیل دائر کیئے ہوئے ہیں تاکہ لندن پہنچ کر سیاسی پناہ حاصل کی جاسکے بد قسمتی سے اس وقت کرپشن کے الزامات کی زد میں مبتلا تمام لیڈر لندن فرار ہونے میں کامیاب ہوچکے ہیں اور کچھ فرا ر ہونے کے لئے این آر اوکی کوشش میں اپوزیشن کی اے پی سی پر زور دے رہے ہیں یقینا یہ اے۔ پی۔ سی ایک بار پھر ناکام نظر آرہی ہے ۔کراچی جو اس وقت مسائل کا گڑھ بن چکا ہے بد قسمتی سے برسوں پہلے ہم نے پیپلزپارٹی کے دور اقتدار میں ڈھاکا ڈوبتے دیکھا تھا اور کئی برس بعد آج ہم بلاول بھٹو کی حکمرانی میں کراچی ڈوبتا دیکھ رہے ہیں ۱۳ سال سے پیپلزپارٹی سندھ کے اقتدار پر براجمان ہے اور ۳۵ سال سے ایم کیو ایم ہر حکومت کی اتحادی کے طور پر برسر اقتدار رہی ۔چائنا کٹنگ،تجاوزات کی بھر مار ان دونوں جماعتوں کی ملی بھگت سے چلتی رہی ہے آج شہر کراچی کے ڈوبنے کی وجہ یہ دونوں جماعتیں ہیں جن کی وجہ سے کراچی کے ہر ندی نالے پر تجاوزات قائم ہیں جس کی وجہ سے آج کراچی کسی گائوں دیہات کا منظر پیش کر رہا ہے۔کراچی صرف برسات سے نہیں ڈوبا بلکہ یہ شہر پچھلے کئی برسوں سے مختلف مسائل کے دلدل میں ڈوبا ہوا ہے جس پر صرف سیاست چمکائی جارہی ہے برسات کی آفت نے عوام کو نقل مکانی پر مجبور کر دیا ہے لوگوں کو اپنے بچوں کے لئے محفوظ چھت نہیں مل رہی ایسے میں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف دونوں وزیر اعلی ہائوس اور گورنر ہائوس کے محفوظ دروازے بند کر کے آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں اس شہر میں زمین کی کمی نہیں بلکہ ضمیر کی کمی ضرور ہے ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ فوری طور پر وزیر اعلی اور گورنر ہائوس کے دروازے بے گھر افراد کے لئے کھول دیئے جاتے جن میں شیلٹر ہائوس قائم کر کے بے گھر لوگوں کو پناہ دی جاتی کراچی کے بڑے بڑے اسٹیڈیم ان افراد کی قیام گاہ بن سکتے تھے مگر افسوس کہ اس خوفناک برسات پر بھی سیاست کی گئی اس وقت کراچی جل رہا ہے کراچی ڈوب رہا ہے اور اس وقت اس شہر کا مینڈیٹ رکھنے والی تینوں جماعتیں پیپلزپارٹی ایم کیو ایم تحریک انصاف تماشائی بنی ہوئی ہیں ۔کراچی کے عوام اپنے معزز اداروں سے اپیل کر رہے ہیں کہ اس مصیبت کی گھڑی میں ان کا مکمل ساتھ دیا جائے ضمیر فروش حکمرانوں سے ان کو اپنے مسائل کی کوئی اُمید نہیں رہی برسوں پہلے اس قوم نے اپنی آنکھوں کے سامنے ان نااہل حکمرانوں کی وجہ سے ڈھاکا ڈوبتے دیکھا تھا اب یہ قوم اپنی آنکھوں کے سامنے کراچی ڈوبتا نہیں دیکھنا چاہتی ۔