اچھے مزاح کی پہچان اس کی لطافت، برجستگی اور شائستگی ہے۔زبردستی کے مزاح میں بھی لطافت اور شائستگی ضروری ہے۔ زبردستی کا مزاح بھی غیر پسندیدہ نہیں۔کچھ لوگ لطیفوں میں فحاشی کو بھی شامل کر لیتے ہیں۔ ہم کسی طور بھی اس کثافت کو لطیفہ نہیں کہہ سکتے اس لیئے آج کے موضوع میں یہ خارج از بحث ہے مزاح گو ادیبوں یا شاعروں کے لیئے برجستگی تک محدود رہنا ناممکن تو نہیں لیکن مشکل ضرور ہے اس لیئے اچھے مزاح نگار کی تخلیق میں مزاح میں برجستگی اور شائستگی کا تناسب زبردستی سے زیادہ ہونا چاہیئے۔اگر ہم شوکت تھانوی، کنہیا لال کپور، رشید احمد صدیقی، چراغ حسن حسرت کو چھوڑ کر دور جدید (اس کی بھی حد نہیں قائم کی جا سکتی کیونکہ جو دور آپ کے لیئے قدیم ہو ہمارے لیئے اپنی عمر کے لحاظ سے جدید ہی ہوگا)کے مزاح نگاروں میں گر چہ ابن صفی مرحوم کو مزاح نگار تو نہیں کہا جاسکتا لیکن برجستہ مزاح میں انکا اپنا ہی مقام ہے۔ڈاکٹر شفیق الرحمٰن کے ہاں بھی برجستگی اسی فی صدملتی ہے‘بیس فیصد زبردستی مجبوراً ہوتی ہے۔ ٹھہریئے یہاں زبردستی کے مزاح کی تشریح ضروری ہے۔ ہمارے نزدیک وہ مزاح جس کو پیش کرنے کے لیئے زبردستی کا ماحول(سچویشن پیدا کی جائے) وہ برجستہ مزاح نہیں رہتا۔مثلاً کوئی مزاحیہ بات سوجھ گئی تو اب بلا وجہ کوئی سچویشن بنائی جائے کہ وہ مزاح وہاںفِٹ(FIT) ہوجائے۔اب وہ بھلے ’’ٹاٹ میں مخمل کا پیوند‘‘ ہی کیوں نہ لگے۔ اپنی بات واضح کرنے کے لیئے ہم آگے چل کر دو ایک اشتہاروں کی مدد لیں گے۔یہ مجبوری کرنل محمد خان کی بجنگ آمد میں بھی ملتی ہے لیکن ان کے پاس اس کتاب کی حد تک برجستگی کا تناسب زیادہ ہے اور مزاح خود بخود امڈ آتا ہے جس کا فقد ان، انکی بعد میں آنے والی کتابوں میںمحسوس ہوتا ہے۔آگے بڑھنے سے پہلے ہم اپنی بھی ایک مجبوری بتاتے چلیں کہ اس دور میںاظہار آزادی رائے کے بلند و بانگ دعوئوں کے باوجود، دستار ہی نہیں ہاتھ پائوں بھی بچا کر کسی کانام لینا ہوتا ہے یا سرے سے نام لینے سے پرہیز کرنا حفظ ماتقدم کہلاتا ہے۔یہ علت پہلے سیاست تک محدود تھی کہ کسی سیاستدان پر تنقید کی تو اس کے چاہنے والے جان کے درپے ہوئے اگر سیاستدان صاحب اقتدار بھی ہوا تو کم از کم ’’در زنداں کھلتا ہے‘‘ کی نوبت آسکتی ہے اور زیادہ سے زیادہ جنت المکانی ہونے کا شرف بھی حاصل ہوسکتا۔تیسری صورت ، مسنگ پرسنز کی لسٹ میں اضافہ۔یہ علت سیاست سے نکل کر (پاکستان میں) دینی حلقوں تک پہنچ گئی ہے۔آپ نے کوئی بات قران اور سنت کے حوالے سے کی جو کسی فرقہ یامسلک پرست مولانا کے خلاف ہوئی تو پھر خیر نہیں۔آپ پر کفر کا فتویٰ بھی لگ سکتا ہے اور توہین مذہب کا بھی اور پھر چاہنے والوں پر منحصر ہے کہ وہ قانون کی کونسی شق اپنے ہاتھ میں لے کرصرف زد و کوب کرتے ہیں یا راہی ملک عدم بنادیتے ہیں۔اس کے بعد آپ کو غرض نہیں ہونی چاہیئے کہ شہادت ملی یا جہنم رسید ہوئے۔کہتے ہیں ’بیوہ‘تو اپنی ’بیوگی‘کاٹ لے لیکن رنڈوے کاٹنے بھی تو دیں (محاورے میں ترمیم کے لیئے معذرت۔ اصل محاورہ نا شائستہ سالگتا ہے) کیونکہ سیاستدانوں اور مذہبی ٹھیکے داروں سے اجتناب کریں بھی تو یہ علت ادیبوں اور شاعروں تک پہنچ گئی ہے۔ شکر ہے اس میں سر پھٹول اور ہاتھا پائی کی نوبت نہیں آتی لیکن متاثر ادیب یا شاعر کے چاہنے والے وہ غیر ادبی زبان یا قلم استعمال کرتے ہیں کہ ادب و آداب سے ایمان اٹھ جاتا ہے۔سر پھٹول کی نوبت آئے یا نہ آئے بہتر تو یہ ہی ہے کہ کسی کانام نہ لکھیں۔ہمارے ملک میں دو تین ایسے شاعر اور ادیب بھی گزرے ہیں جن کی تخلیقات کالوہا تو ہم بھی مانتے ہیں لیکن ہمیں یہ کہنے میں عار نہیں کہ انہوں نے وقتاً فوقتاً پاکستان کے خلاف زہر بھی اگلا ہے بلکہ کفریہ کلمات بھی کہہ دیئے جو ان کے چاہنے والے لب پر نہیں لاتے اور اب ان کا قد کاٹھ اتنا بڑھ چکا ہے کہ کوشش ہے کہ انہیں اقبال کے مد مقابل کھڑا کردیں(اس میں لبرل اور نظریہ پاکستان کے مخالفین پیش پیش ہیں)۔موضوع تو ہے کہ کچھ مزاح نگار برجستہ کی بجائے زبردستی کا مزاح شامل کر لیتے ہیں لیکن ہم بھی کم نہیں ہم نے بھی زبردستی اس مضمون میں غیر موضوعاتی قصہ چھیڑ دیالیکن یہ اس لیئے ضروری ہے کہ ذکر ہے کچھ ایسے مزاح نگاروں کا کہ جن کی پسندیدگی کا گراف اتنا بلند ہو چکا ہے کہ ان کی کتابوں سے مثال دینا ’’آ بیل مجھے مار‘‘ کے مترادف ہوگا۔اس لیئے نشان عبرت بننے سے بہتر ہے کہ ’’زبردستی‘‘سمجھانے کے لیئے دو اشتہاروں کی مثال دی جائے کیونکہ مشتہر ہمارا کیا بگاڑ لے گا کیونکہ ان کی مثال ’’غریب کی جورو سب کی بھابھی‘‘ سے دی جا سکتی ہے۔پاکستان میںبھارت سے در آمد اشتہار جسے بعد میں پاکستانی سانچے میں ڈھال دیا گیا بتایا جاتا ہے ایک بچی بریانی کھانے پر بضد ہوتی ہے تواماں فرماتی ہیں اب اتنی’تیزی‘ سے کیسے بنے گی بریانی لیکن کم سن بھائی نے بڑی تیزی سے بنانے میں کپڑے خراب کر لیئے۔اماں نے یہ دیکھ کر اس کے اقدام کو سراہتے ہوئے کہا ’’بڑی’تیزی‘سے بنائی بریانی۔ اب یہ داغ بھی (پائوڈر سے)صاف ہونگے تیزی سے۔ملاحظہ کیا کہ اماں نے مشتہر پائوڈر کی تیزی دکھانے کے لیئے ’’جلدی‘‘ کو’’تیزی‘‘ سے بدل دیا۔ایک اور اشتہار میں اماں بی بیٹے کے گر کر کپڑے خراب کرنے پرفرماتی ہیں ’’ پھر لگا لیا نا داغ‘‘ کیونکہ اشتہار کا سلوگن ہے ’’داغ‘‘ تو اچھے ہوتے ہیںیہ مزاح تک محدود نہیں زبردستی کی ٹھونسم ٹھونسا کہیں بھی ہو سکتی ہے دور کیوں جائیں ہمارے اپنے اس مضمون میں بھی زبردستی دو شاعروں کا ذکر ٹھونس دیا گیا ہے