افغانستان کے دارالحکومت کابل کے حامد کرزئی ائیرپورٹ پر پیر کی صبح 5راکٹ فائر کئے گئے جن کو امریکی دفاعی نظام نے ناکارہ بنادیا۔ امریکی حکام نے راکٹ حملوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ حملہ داعش خراسان گروپ کی جانب سے کیا گیا۔ داعش نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔دوسری طرف امریکی فوجی افغانستان سے منگل کی صبح کو انخلا کر گئے۔ ترجمان افغان طالبان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد داعش کے حملے رک جائینگے۔ انخلا کے بعد طالبان حکومت کی تشکیل دیکھ کر داعش سے متاثر افغانی کارروائیاں ترک کر دینگے۔ اگر ایسے لوگ اپنی کارروائیاں جاری رکھتے ہیں تو طالبان حکومت ان سے نمٹے گی۔ امریکہ کو افغانستان میں ڈرون حملوں کی طرح کے آپریشن کرنے کی اجازت نہیں۔ واضح رہے کہ دو روز قبل امریکی حملے میں9 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔
امریکہ نے 20 سال قبل افغانستان پر نائن الیون کو جواز بناتے ہوئے یلغار کی تھی۔ اسکی طرف سے افغانستان میں طالبان سے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا گیا۔ طالبان کی طرف سے ایسا کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ امریکہ نے جنگی تیاریاں شروع کیں تو طالبان کے رویے میں نرمی دیکھنے میں آئی۔ اسکی طرف سے اسامہ کو کسی تیسرے ملک کے حوالے کرنے پر رضامند ظاہر کی گئی۔ یہی ایک درمیانی راستہ ہو سکتا تھا۔ صدر بش نے نیٹو ممالک کو ساتھ ملا کر افغانستان پر حملہ کردیا جسے بش نے صلیبی جنگ سے تعبیر کیا تھا۔ امریکہ کی طرف سے یہ مہم جوئی ’’دہشت گردی کیخلاف‘‘ جنگ کے نام سے کی گئی۔ اس میں پاکستان بھی شریک ہوا۔ جدید اسلحہ اور تربیت یافتہ افواج کی مدد سے افغانستان کو دنوں میں تاراج کر دیا گیا۔ طالبان اقتدار کے ایوانوں سے نکل کر پہاڑوں پر چلے گئے۔ امریکہ نے وہاں من مرضی کی جمہوریت نافذ کر دی۔ دو ٹرموں کیلئے حامد کرزئی وزیراعظم رہے‘ اگلی ایک ٹرم اشرف غنی نے مکمل کی اور دوسری ٹرم کے ابھی ابتدائی مرحلے میں تھے کہ امریکہ طالبان امن معاہدے کے بعد حالات کو ناموافق دیکھتے ہوئے اشرف غنی کابل سے صدارتی محل سے چپکے سے کھسک گئے۔ ان کو شاید اپنی جان کا خوف اور صدر نجیب اللہ کا بھیانک انجام نظر آرہا تھا۔ اشرف غنی کے فرار کے بعد افغانستان ایک بار بغیر کسی انتظام اور حکومت کے رہ گیا۔ طالبان نے جلدی پورے افغانستان پر تسلط حاصل کرلیا۔ آج افغانستان میں طالبان کا مکمل کنٹرول ضرور ہے مگر حکومت سازی ہنوز نہیں ہو سکی۔ طالبان افغانستان کے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔ انخلا کے بعد امریکہ کا عمل دخل افغانستان سے ختم ہو چکا ہے۔ امریکہ کا افغانستان پر حملے کا مقصد اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنا یا اس کا خاتمہ تھا۔ 2011ء میں اسے ایک آپریشن میں پاکستان کی خودمختاری کو تاراج کرتے ہوئے مار ڈالا گیا۔ اسکے ساتھ امریکہ کا مقصد پورا ہو گیا اسے واپسی کی راہ لینی چاہیے تھی مگر وہ مزید دس سال افغانستان میں صف آراء رہا۔
امریکہ کو اب سوچنا چاہیے کہ اس نے کیا کھویا کیا پایا۔ اسکے افغان وار میں تین ٹریلین ڈالر کے اخراجات ہوئے‘ کتنے لوگ مرے‘ یہ بھی امریکہ کو اندازہ ہوگا۔ نیٹو افواج کے ساتھ امریکی فوجیوں کے تابوت بھی افغانستان سے جاتے رہے۔ پاکستان اس جنگ کا فریق نہیں تھا‘ اسکے سات ہزار سکیورٹی سپوتوں سمیت 80 ہزار افراد اس نامراد جنگ کا ایندھن بن گئے۔ 120 ارب ڈالر کا انفراسٹرکچر کی تباہی کی صورت میں نقصان ہوا۔ سابق صدر بش ابھی زندہ ہیں‘ ان سے پوچھا جائے کہ صلیبی جنگ میں کتنی کامیابی حاصل کی؟
طالبان کیخلاف امریکہ نے 3 لاکھ مقامی لوگوں پر مشتمل فوج کھڑی تھی۔ اشرف غنی حکومت امریکی فوج کی بیساکھیوں پر کھڑی تھی۔ یہ بیساکھیاں ہٹیں تو حکومت دھڑام سے زمین پر آرہی۔ تین لاکھ افغان فوجی طالبان کے مقابلے میں ایک دن بھی کھڑے نہ رہ سکے۔ تین لاکھ افغان فوج کے تتربتر ہونے سے افغانستان بدترین خونریزی سے محفوظ رہا۔ امریکہ کی طرف سے پاکستان کے ایما پر امن معاہدہ افغانستان میں امن کی طرف بہترین پیشرفت تھی۔ مگر امریکہ کی طرف سے ایک بار پھر وہی غلطی دہرائی گئی جو روس کی افغانستان میں شکست کے بعد افغانستان کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر کی گئی تھی۔ امن معاہدہ 29 فروری 2020ء کو ہوا۔ اسکے بعد ایک سال تین ماہ میں انخلا کرنا طے پایا تھا۔ اس دوران نیا سیاسی سیٹ اپ تشکیل پانا تھا۔ امریکہ نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی۔ تمام معاملات اشرف غنی انتظامیہ کی صوابدید پر چھوڑ دیئے۔ اسکی طرف سے امن معاہدے کی شدید مخالفت کی گئی ہے۔ وہ سٹیٹس کو برقرار رکھنے کیلئے سازشیں کرتے رہے۔ تاآنکہ انخلا کی ڈیڈلائن یکم مئی 2021ء آگئی۔ امریکہ نے اس میں توسیع کی درخواست کی جسے طالبان نے بادل نخواستہ قبول کیا جس کے تحت 31اگست کو امریکی انخلا مکمل ہو گیا۔ افغانستان میں امن کی بحالی میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔ امریکہ نے سیاسی سیٹ اپ تشکیل دیا ہوتا تو بہت سے مسائل سے بچا جا سکتا تھا۔
امریکہ نے جاتے ہوئے بھی ایک حملے میں نو افراد مار ڈالے۔ ایسے حملوں کا اسے کوئی اختیار نہیں تھا۔ طالبان کی طرف سے اس پر اس لئے زیادہ شدت سے ردعمل نہیں دیا گیا کہ امریکہ کا افغانستان سے عمل دخل ہو چکا ہے۔ انخلا کے آخری دنوں میں داعش کے دو خودکش حملوں میں 13 امریکیوں سمیت 200 لوگ ہلاک ہوگئے۔ اسکے امریکی خود ذمہ دار ہیں۔ انکی طرف سے یکم مئی 2021ء کی انخلاء کی ڈیڈلائن پر عمل کیا جاتا تو 13 امریکی ہلاکت اور 15 زخمی ہو کر زندگی بھر کیلئے معذور ہونے سے بچ جاتے۔ امریکہ کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنا چاہیے کہ 20 سال میں اسکی غلطیوں سے افغانستان میں کتنے بے گناہوں کا خون ناحق بہہ گیا‘ اس سے امریکہ کو کیا ملا۔
اقوام متحدہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ طالبان اب دہشت گرد نہیں رہے۔ امریکہ نے نائن الیون کے بعد جوش کے بجائے ہوشمندی سے کام لیا ہوتا تو طالبان کو دہشت گرد قرار دینے کی شاید نوبت نہ آتی۔ اب جبکہ امریکہ افغانستان سے مکمل طور پر بے دخل ہو چکا ہے‘ اسے ڈرون حملوں سے گریز کرنا چاہیے اور طالبان کو فری ہینڈ دینا چاہیے اور وہ کسی بدامنی کے بغیر اپنا سیٹ اپ بنائیں تاکہ وہ عالمی برادری کے ساتھ مل کر چل سکیں جس کا انہوں نے پہلے ہی اعلان کیا ہوا ہے۔
افغانستان سے انخلا مکمل، امریکہ سوچے کیا کھویا کیا پایا؟
Sep 01, 2021