اسلام آباد(اپنے سٹاف رپورٹر سے) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا-سینیٹرز اعظم نذیر تارڑ، مولا بخش چانڈیو، فوزیہ ارشد، سیف اللّہ ابڑو، رانا مقبول احمد، شہادت اعوان، کامل علی آغا، سرفراز احمد بگٹی کے علاوہ سینیٹرز اعجاز احمد چودھری، فیصل جاوید، زیشان خانزادہ، اعظم خان سواتی نے خصوصی طور پر کمیٹی اجلاس میں شرکت کی-آئی جی پی اسلام آباد، چیف کمشنر اسلام آباد بھی کمیٹی اجلاس میں شریک ہوئے چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے وزیر داخلہ اور سیکریٹری داخلہ کی عدم موجودگی پر تشویش اور برہمی کا اظہار کیا اور کہ وزیرداخلہ اور سیکرٹری داخلہ کو کمیٹی میں شرکت کیلئے خطوط ارسال کئے گئے لیکن اس کے با وجود وہ کمیٹی میں پیش نہ ہوئے سابق وزیراعظم عمران خان کی سیکیورٹی کے معاملے پر بات کرتے ہوئے چیئرمین کمیٹی سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ عمران خان ایک عالمی لیڈر ہے، اسلاموفوبیا کے مسئلے پر انہوں نے پوری دنیا میں ہر پلیٹ پر بات کی سب نے ان کی کاوشوں کو سراہا ہے-انہوں نے بتایا کہ عمران خان جب اسلام کی بات کرتی ہے تو پوری دنیا اس کو اپنا لیڈر سمجھتی ہے-انہوں نے امریکہ کو ‘‘ایبسولوٹلی ناٹ’’ کہا، امن کا ساتھ دینے اور کشیدگی سے دور رہنے کی بات کی-ان کا کہنا تھا کہ یہ ایسی باتیں ہیں جس پر باہر کے ممالک بھی ناراض ہیں-چیئرمین کمیٹی نے مزید کہا کہ سیکیورٹی ایجنسیز اور پولیس نے خود کہا ہے کہ عمران خان کی جان کو خطرہ ہے تو ایسی صورتحال میں ان سے سیکیورٹی واپس لینا ناجائز اور غیرمناسب ہیچیئرمین کمیٹی نے سوال کیا کہ عمران خان کے پاس جو پرائیویٹ سیکیورٹی گارڈز تھے ان کو کیوں ہٹایا گیا؟ ان کا سیکیورٹی لائسنس ناجائز طریقے سے واپس لیا گیا جو غیرمناسب ہے-انہوں نیکہا کہ گلگت بلتستان سیکیورٹی کے اہلکار جو عمران خان کی سیکیورٹی مامور تھے ان کو واپس لیا گیاسینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ شہید بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی غلط ہوا اور اب عمران خان کے ساتھ بھی غلط ہو رہا ہیعمران خان کی سیکیورٹی واپس لینے کے حوالے سے کمیٹی کو بریفگ دیتے ہوئے آئی جی پی اسلام آباد نے بتایا کہ اس وقت سابق وزیراعظم عمران کی سیکیورٹی پر دو پرائیویٹ کمپنیز کے علاوہ خیبرپختونخوا، اسلام آباد، گلگت بلتستان، فرنٹیئر کانسٹیبلری اور رینجرز کے تقریبا 266 اہلکارمامور ہیں اور یہ سب ایک ہی کمانڈ کے انڈر کام کرتے ہیں-انہوں نے بتایا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی سیکیورٹی پر تنخواہوں سمیت تقریبا سالانہ 24 کروڑ کا خرچہ آرہا ہے-سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی سیکیورٹی پر 2200 اہلکار مامور ہوتے تھے جن کا خرچہ سالانہ 4.5 ارب روپے ہوتا تھاکمیٹی کو بتایا گیا کہ دو پرائیویٹ سیکیورٹی کمپنیز کے لائسنس معمولی غلطی کے باعث منسوخ کئے گئے لیکن وہ ابھی بھی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں چیف کمشنر نے بتایا کہ لائسنس منسوخ کرنے کا اختیار وزارت داخلہ کے پاس ہوتا ہے-ان کا کہنا تھا کہ وزارت داخلہ چاہتی ہے کہ ان دو پرائیویٹ کمپنیز کو تبدیل کردیا جائے اس سے پہلے کمیٹی کے آغاز میں پاکستان میں موجودہ سیلابی صورتحال اور اس کے نتیجے میں متاثرین اور جاں بحق افراد کیلئے خصوصی دعا کی گئی عمران خان کی سیکیورٹی کے حوالے سے آئی جی پی اسلام آباد کی بریفنگ سے پہلے سینیٹرز ممبران نے عمران خان کی سیکیورٹی کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا اور اپنے تحفظات سے آگاہ کیاعمران خان کی سیکیورٹی واپس لینے کے حوالے سے معاملے پر بحث کرتے ہوئے چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ تمام دنیا سمجھتی ہے اور تمام اداروں نے تسلیم کیا ہے کہ عمران خان کی جان کو خطرہ ہے-ان کی اندرونی سیکیورٹی کو بھی واپس لینا انتہائی افسوسناک ہے-سینیٹر اعجاز چودھری نے کہا عمران خان کی سیکیورٹی واپس لینا نا مناسب ہے، ان کی زندگی کو خطرات لاحق ہیں، اس سے بڑی زیادتی نہیں ہو سکتی-مریم نواز کو تو پروٹوکول دیا گیا ہے لیکن سابق وزیراعظم کو سیکیورٹی نہیں دے رہے سینیٹر اور سینیٹ میں قائد حزب اختلاف ڈاکٹر شہزادوسیم نے کہا کہ بہت مشکل سے عمران خان جیسے لیڈرز پیدا ہوتے ہیں، بینظیر کی شہادت بھی بڑا حادثہ تھا،عمران خان کی شکل میں وفاقی لیڈر موجود ہے-وہ سابق وزیر اعظم نہیں بلکہ لیڈر ہیں، لیڈر کا نقصان قوم کا نقصان ہوتا ہے- انہوں نے بتایا کہ کل مریم نواز سیلاب زدگان کے پاس جا رہی تھی تو پروٹوکول میں 62 گاڑیاں تھیں-عمران خان کی سیکیورٹی واپس لینا تشویشناک ہیسینیٹر کامل علی آغا کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی سیکیورٹی کا معاملہ حساس ہے اس کو سنجیدگی سے لینا چاہئے محترمہ بینظیر کو بھی سیکیورٹی تھریٹ تھا نام بھی سامنے آگئے تھیاس معاملے کو پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر دیکھنا چاہئے نوازشریف کوسکیورٹی ملتی رہی اس لئے انہوں نے اعتراض نہیں کیا آج وزیر داخلہ کو لازمی کمیٹی اجلاس میں آنا چاہئے تھا کیونکہ الزامات ہیں کہ عمران خان کی پرائیویٹ سیکیورٹی کو بھی ہٹا دیا گیا ہے وہ ایک بڑی جماعت کے لیڈر ہیں-اگر وزارت داخلہ کیحکام کمیٹی اجلاس میں نہیں آئے تو اس سے تو یہ تاثر جائے گا کہ یہ عمران خان کو مروانا چاہتے ہیں سینیٹراعظم خان سواتی نے کہا کہ ہائی کورٹ میں بھی کہا گیا کہ عمران خان کی جان کو خطرہ ہے-ان حالات کے اندر ہم سب نیاپنا فرض ادا کرنا ہے اور اس کمیٹی کی آواز موثر انداز سیباہرجانی چاہئے،عمران خان کی سیکیورٹی ان کی شخصیت کے مطابق نہیں ہے، دشمن کافی زیادہ ہیں، کمیٹی فیصلے میں عمران خان کو لاحق خطرات کو سامنے رکھا جائے-سینیٹر مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ ہم عمران خان کی سلامتی کے دشمن نہیں ہیں ہم ان میں نہیں جنہوں نے بی بی اور بھٹو کی شہادت پر مٹھائیاں تقسیم کیں سینیٹر اور سینیٹ میں قائد ایوان اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سیلاب زدگان کی فکر نہیں لیکن عمران خان کے جلسے ہو رہے ہیں اور گالیاں دی جا رہی ہیں-انہوں نے کہا کہ یہ فارم اس قسم کے معاملات پر بحث کرنے کیلئے نہیں ہیآئی جی پی اسلام آباد نے کہا کہ سابق وزیراعظم کی سیکیورٹی کا معاملہ اہم ہے-کوئی بھی سابق وزیراعظم ہو ان کی سیکیورٹی کا معاملہ سیاسی نہیں ہونا چاہئے-معاملے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے میڈیا میں اس حوالے سے باتیں نہیں ہونی چاہئے سیکیورٹی مہیا کرنے کا ایک طریقہ ہے-ایجنسیز بھی اس عمل میں شریک ہوتی ہیں۔سب قانون کے مطابق ہوتا ہے-ہماری گزارش ہوتی ہے کہ ہم سے بھی تعاون کیا جائے-عمران خان کو بھی وہی طریقہ کار کے مطابق سیکیورٹی دی جا رہی ہے.