کراچی (نوائے وقت رپورٹ) موہنجوداڑو کی سب سے مشہور خصوصیات میں سے ایک ’ماؤنٹ آف ڈیڈ‘ نیلے ترپال سے ڈھکی ہوئی ہے۔ جہاں موسلادھار بارشوں نے صوبہ سندھ کا بڑا حصہ ڈبو دیا وہیں ان کھنڈرات کو بھی نہیں بخشا اور کارکن ٹیلے کی برقرار رہ جانے والی دیوار کو مضبوط بنانے کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں، کیونکہ پانی چینلز کو کاٹتے ہوئے سائٹ کے غیر کھدائی والے حصوں میں گرتا ہے۔ صوبے کے مختلف حصوں سے آنے والی رپورٹیں ایک بہت ہی تاریک تصویر پیش کرتی ہیں۔ قلعے‘ مقبرے اور اوطاق وغیرہ جو اس خطے کی شاندار ماضی کی علامت ہیں اب گرنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔ موئن جوڈو میں بارشوں نے کھدائی والے علاقوں کو نقصان پہنچایا ہے اور ان میں گڑھے پیدا کر کے نیچے دبے ہوئے لوگوں کو بے نقاب کر دیا ہے۔ لاڑکانہ میں جہاں صوبے میں سب سے زیادہ بارشیں ہوئیں‘ وہاں شاہ بہارو اور تجار کی عمارتیں شہر کے وسط میں نکاسی آب اور سیوریج لائنوں سے بہنے والے بارش کے پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ تاہم میاں نور محمد کلہوڑو قبرستان (مورو میں) کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا جہاں 6 مقبروں سمیت کئی قبریں مکمل طور پر مٹ چکی ہیں۔ سیلاب نے ٹھٹھہ اور بھنبر کی مشہور یادگار مکلی کو بھی نہیں بخشا‘ دونوں بین الاقوامی سطح پر مشہور آثار قدیمہ کے مقامات ہیں۔ اس مسئلے کی سنگینی کے بارے میں بات کرتے ہوئے سندھ کے ثقافتی ورثے کے تحفظ کیلئے انڈومنٹ فنڈ ٹرسٹ کے سیکرٹری حامد اخوند ہی نے ڈان کو بتایا کہ بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے یہاں جو کچھ بھی بحال کیا ہے اسے نقصان پہنچا ہے۔ سندھ میں ایک بھی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں قدیم ورثہ برقرار ہو‘ انہوں نے مزید کہا کہ ہم نہیں جانتے کہ تھر میں کیا ہو رہا ہے‘ کوٹ ڈیجی میں 4 سے 5 فٹ پانی کھڑا ہے‘ صوبے کا تمام قدیم علاقہ موئن جوداڑو میں تبدیل ہو رہا ہے اور حکومت اب حرکت میں نہیں آئی۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ موسیقی کے پروگرام منعقد کرنے کے بجائے ان فنڈز کو سندھ کے ورثے اور اس کی یادگاروں کو بچانے کیلئے خرچ کیا جائے۔