ایک شخص نے دوسرے شخص کو ”گالی دی، اس پر بے ایمانی ، ناانصافی کا الزام لگایا ،ساتھ ہی دھمکی بھی دے دی کہ میں تمہیں چھوڑوں گا نہیں، جب دوسرے شخص نے اسے کہا کہ آپ کے بیانات ہر ملک کے قانون کے خلاف ہیں، تو الزامات لگانے والے شخص نے ایک عجیب بیان دیا ، قانون کو میںنہیں مانتا، ہاں اگر تمھاری میری باتوں سے دل آزادی ہوئی ہے تو تم سے معافی مانگنے کو تیار ہوں یہ ہی بیان ہمارے سابق وزیر اعظم اور سابقہ دور میں لاڈلے ( شائد کسی حد تک آج بھی) نے ایک قانونی ادارے کی جج کے سلسلے میں ادا کرنے کے بعد اپنے بیان کو قانون کی گرفت سے آزاد کہہ کر ، ملکی قانون کو تسلیم نہ کرتے ہوئے ، براہ راست معزز جج سے ان کی’د ل آزادی“پر معافی مانگنے کی ”آفر “کیا ہے ، سابق وزیر اعظم کواس بیان کیلئے انکے ”ماہر ‘ قانون دانون نے ہی دیا ہوگا ۔ ہمارے وطن عزیز میں ادارے چاہے قانونی ہوں یا کوئی اور سیاست دانوں نے اپنے آپ کو انقلابی ظاہر کرنے کیلئے ان پر گھٹیا بیان بازی کرنے کا وطیرہ بنا لیا ہے ۔ اسکی وجہ اسطرح کی بیان بازی کرنے والے سیاست دان ، یو ٹیبرز جو اپنے آپ کو سینئر صحافی بھی کہتے ہیں سے زیادہ ہمارے قانون کی ڈھیلی رسی ، اداروں کی رٹ کا نہ ہونا ہے ۔ ریاست کے خلاف بیان بازی ، ملک کے مستقبل کے خلاف سازش کو ہی دہشت گردی کہا جاتا ہے یا اسے جو بھی نام دے دیں۔ جس سابقہ حکومت نے اپنے چار سالہ سے بھی کم دور میں ملک کیلئے 53 بلین ڈالر سے زیادہ لیا ہو ، یقیناً انکی حکومت نے بھی یہ قرضہ ملک کی معیشت کی بہتری کیلئے لیاہوگا جس کی کچھ فیصد وجہ بد انتظامی بھی رہی ہوگی اس لئے چار سال میں چار سے زائد وزراءخزانہ تعنیات کئے گئے اس جماعت کا سابق وزیر خزانہ شوکت عزیز جن کی سیاسی وابستگی بہت طویل سیاسی سفر جو جماعتوں اور عہدے ملنے کی شرط پر پی پی پی اور دیگر جماعتوں کے ہمراہ رہا ،اب کسی عہدے کی کوئی امید نہ ہونے پر وہ صوبوں کی وزارت خزانہ کو اس بات پر اکسا رہے ہیں کہ خط لکھو آئی ایم ایف کو کہ اتحادی حکومت کو اگر قرض دیا تو ہم ذمہ دار نہیں ہونگے ۔ کیا یہ دہشت گردی ، ریاست دشمنی کے زمرے میں نہیں آتا ، سو موٹو لینے والی عدالتیں کیوںخاموش۔بہر حال ایسے معاملات کرنے کی دیکھ بھال کرنا حکومت کا بھی فرض ہے جسکے ”ہاتھ پیر “پہلے ہی بندھے ہیں تقرریاں ، برطرفیوںکا انہیں حق نہیں پھر حکومت کہاں کی پھر تو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی رائے جس پر وہ آج بھی قائم ہیں کہ حکومت لے کر غلطی کی ، انتخابات کی طرف جانا تھا جس وقت عمران حکومت کو ہٹایا گیا اس وقت تحریک انصاف کی عوام میں وہ حیثیت تھی جو پنجاب کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن اوراتحادی جماعتوںکی تھی یعنی 20میں سے 15نشستیں وہ ہار گئے ، اس پنجاب میں جہاں مسلم لیگ ن کی شکست کا تصور بھی مشکل تھا ۔ اتحادی جماعتوں میں سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن ہے مگر غلطیان کسی کو معاف نہیں کرتیں، تحریک عدم اعتماد ( چاہے لاکھ مجبوریاں ہوں کہ ملک دیوالیہ ہونے جارہا تھا ) دیوالیہ ہونے سے بچانے کیلئے سیاسی جماعت نے اپنا سیاسی مسقبل داﺅ پر لگا دیا ، انتخابات کے ذریعے حکومت میں آکر بھی تو معیشت ٹھیک ہوسکتی تھی ۔عمران خان حکومت سخت مشکل میں تھی بقول انکے انہیںحساس ادارے بتایا کرتے تھے کہ ”ایسا ایسا کرو “اور وہ ایسا ایسا کیا کرتے تھے ، وہ بھی عمران خان کے ”یو ٹرنیوں “سے نالاںہوچکے تھے ، ہدایات لینے کی عادت پڑ چکی تھی اب ہدایات کا دروازہ بند ہوگیا ۔عدم اعتماد لانے کے علاوہ مسلم لیگ کی غلطیوںمیں خامخواہ کا شور مچا کر حمزہ شہباز کو وزیر اعلی بنانے کی خواہش کرنا ، ملک میں پیسہ نہ ہونے پر مہنگائی پر بھی قابو نہ ہوسکا، گرفتاری سیاست دان کو معصوم بننے کا موقع دینا ہوتا ہے۔ اس صورتحال میں جب کوئی رٹ نہ ہو۔ایسے میں سابق وزیر اعظم کو گرفتار کرنے کی صبح شام دھمکیا ں دینا عملی طور پر کچھ نہیں ۔میاں صاحب کے ساتھ بیٹھ کر لندن میں یہ بیان دینا اسحاق ڈا رکا کہ ”میں ہوتا تو مہنگائی نہیں ہوتی“ لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنماءکا بیان ہے ، مسلم لیگ ن کے کسی شخص کا بیان خود مسلم لیگ ن میں دراڑ ڈالنے کا ذریعہ ہے ۔آج پی ٹی آئی خوش ہے کہ اچھا ہوا ہمیں ہٹا دیا گیا خود اتحادی حکومت یہ موقع دے رہی ہے کہ ایک مرتبہ پھر وہ عوام کے مسیحا بنکر عوام میں آجائیں۔ اب ضروری ہے کہ نئی قدرتی آفت سیلاب کی تباہ کاریوں سے اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے تمام تر توجہ متاثرین کی آباد کاری پردی جائے ، عمران خان کی ٹائیگر فورس کی ڈیوٹیاںتو انہوںنے بنی گالہ میں لگا دی ہیں گرفتاری کا مقابلہ کیلئے ، سیلاب زدگا ن کی فیلڈ میں مدد بہادر افواج کے نوجوان کررہے ہیں ،انتظامی معاملات حکومتی ادارے کریں۔ قرضے اور امداد آراہی ہے اس کا جائز استعمال کریں نوکر شاہی کی عیاشیوںپر خرچ نہ ہو ۔ سیاسی میدان میں ایک مرتبہ پھر پور قدم رکھنے کیلئے مسلم لیگ ن کو حالیہ معاملات سے نبرد آزمانے ہونے کے بعد سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کا لانا ہوگا تاکہ مسلم لیگ ن ایک جماعت بن سکے ۔
میاں نواز شریف کو لانا ہو گا
Sep 01, 2022