آج کل ملک کے بیشتر حصے بدترین سیلابی صورتحال سے دوچار ہیں جس کی وجہ سے معمولات زندگی نہ صرف بری طرح متاثر ہوئے ہیں بلکہ قیمتی جانوں کے ضیاع کے علاوہ لامحدود مالی نقصان بھی ہواہے، بہت سے علاقوںمیں قیامت صغریٰ کا سامنظرہے، بارشیں اب بھی جاری ہیں جس وجہ سے اس بات کا بھی شدیدہ خطرہ ہے کہ آنے والے دنوںمیں صورتحال مزیدبگڑسکتی ہے، شدیدمتاثر ہونے والے علاقوںمیں بلوچستان کا وسیع علاقہ اس کے علاوہ اندرونی سندھ کا بیشتر حصہ اور خیبرپختونخواہ کے کچھ علاقوں کے علاوہ جنوبی پنجاب کے علاقے بھی شامل ہیں۔ کوئٹہ سمیت مختلف علاقوںکازمینی رابطہ بھی کٹ چکاہے۔ پاک فوج اور حکومتی ادارے امدادی کاموںمیں مصروف ہیںمگر تباہی اتنی زیادہ ہے کہ فی الحال وہ بھی بے بس نظرآرہے ہیں، لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں جبکہ مال مویشی کا نقصان بھی حد سے زیادہ ہے، ابھی تک مکمل آگاہی بھی نہیں ہوسکی کہ نقصان کا حجم کتنا ہے، میڈیا بھی اتنی کوریج نہیں دے رہا جبکہ ملک کے اندر جاری بدترین سیاسی کشمکش کے سبب عوام کی توجہ بھی بٹی ہوئی ہے، مرکزی پنجاب، خیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومت میں جاری سیاسی کشمکش کی وجہ سے باہمی رابطے کابھی فقدان ہے، وزیراعظم کے طلب کردہ اجلاس میں ان دوصوبوں کے وزرائے اعلیٰ نے بھی شرکت نہیںکی جس کا نقصان عوام الناس کو ہورہاہے، آنے والے دنوںمیں خدشہ ہے کہ صورتحال میں مزید بگاڑ پیدا ہوگا، ملک کی کمزور معاشی حالت کی وجہ سے وسائل اور پیسے کی بھی شدید کمی ہے، حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان جلسوں اور احتجاج میں مصروف ہیں جس کی وجہ سے عوام کو وہ توجہ بھی نہیںمل رہی۔
سیلاب نے صوبہ بلوچستان کے علاقے میں اب تک سب سے زیادہ تباہی مچائی ہے۔ وہاں پر اب یہ صورتحال تقریباً ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری ہے، وزیراعظم نے صوبے کے سیلاب زدہ علاقوں کے متعدد دورے بھی کئے ہیں اور وہ امدادی کارروائیوں کی نگرانی بھی کررہے ہیں مگر ابھی بہت کچھ کرنے کی اشدضرورت ہے، بلوچستان کے ایک بڑے علاقے میں گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے شورش کی سی صورتحال ہے جس وجہ سے حکومت کی رٹ بھی اتنی مضبوط نہیں ان علاقوںمیں نقصان کا صحیح اندازہ بھی نہیں لگایاجاسکتا اور امدادی کارروائیوں میں بھی رکاوٹ پڑی ہے، بلوچستان کے عوام کا احساس محرومی بھی بتدریج بڑھ رہاہے جس کو مزید ہوا وطن دشمن عناصر دے رہے ہیں تاکہ اپنے مضموم مقاصد حاصل کرسکیں۔ صوبہ بلوچستان کے عوام اور سیاستدان عمومی طور پر مرکز اورپنجاب کے بارے میں شاکی رہتے ہیں ان کا گلہ اور شکایت رہتی ہے کہ ان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیاجاتاہے اور آزادی کے صحیح ثمرات آج تک بھی انہیں نہیںملے، انہیں جان بوجھ کر پسماندہ رکھاگیاہے اس طرح کی غیریقینی اور بداعتمادی کی سی صورتحال میںملک دشمن عناصر کاکام آسان ہوجاتاہے اور وہ عوام کو اشتعال دلاتے ہیں تاکہ ان کی اہمیت بڑھے، آج کل مرکزی حکومت میں بلوچستان کی تقریباً تمام پارٹیاں شامل ہیں جن میں بلوچ قومیت کے نام پر سیاست کرنےوالی جماعت بلوچستان نینشل پارٹی بھی شامل ہے، اس کے علاوہ صوبائی حکومت بھی مرکزی حکومت کے اتحادیوں پر مشتمل ہے۔
اس ساری صورتحال نے ایسا موقع پیدا کردیاہے جس کا تصور بھی شاید اتنی آسانی سے ممکن نہیں تھا اگرمرکزی حکومت بالخصوص وزیراعظم شہبازشریف اس لمحے کو پکڑلیتے ہیں تو اس کے بلوچستان کے مستقبل پر انتہائی خوشگوار اثرات مرتب ہونگے، آج ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ بلوچستان کے سیلاب زدگان پر بھرپور شفقت کا ہاتھ رکھاجائے، وزیراعظم علاقے کا بار بار دورے کریں اس وقت تک کہ جب تک صورتحال نارمل نہ ہوجائے۔وہ امدادی کاموں کی خودنگرانی کریں اور اس سلسلے میں تمام دستیاب وسائل کا بھرپور استعمال کیاجائے، بلوچستان کی تمام سیاسی قیادت جوکہ آج مرکزی وصوبائی حکومت کا حصہ ہیں کو ساتھ ملاکر آگے بڑھاجائے، عوام کی تجاویز پر عمل کیاجائے اور امدادی کاموں کی بھرپور کوریج بھی کی جائے تاکہ عوام کو اور دنیا کو پتہ چلے کہ حکومت اپنے بلوچ بھائی بہنوں کے ساتھ کس طرح شانہ بشانہ کھڑی ہے۔سیلاب زدگان کےلئے منعقد کی جانے والی ڈونرز کانفرنس کا انعقاد کوئٹہ میں کیاجائے، حکومت اپنے اقدامات اور حکمت عملی سے ثابت ک رے کہ جب مقصد مثبت ہو اور جذبہ ہو تو فاصلے یا موسم کی سختی آپ کو کچھ نقصان نہیں پہنچاسکتی۔ بالخصوص وہ علاقے جہاں ملک دشمن عناصر زیادہ متحریک ہیں وہاں امدادی کام زیادہ کئے جائیں، تمام حکومتی مشینری کو متحرک کرنا بہت ضروری ہے، بلوچستان کی تمام جماعتیں چاہیں وہ پارلیمنٹ کا حصہ ہیں یا نہیں انہیں ایک پلیٹ فارم پر اکٹھاکیاجائے اور تجاویز کی روشنی میں فوری اقدامات کئے جائیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل گروپ کے ایم پی اے جناب ثناءاللہ بلوچ نے گزشتہ دنوں وزیراعظم سے دوطرفہ ملاقات کے دوران چند اچھی تجاویز دی ہیں جن پر عمل کرکے ہم صورتحال کو فوری طور پر ٹھیک بھی کرسکتے ہیں اور عوام کے اعتماد میں اضافہ کرسکتے ہیں۔
اس ساری حکمت عملی کا مقصد صرف ایک ہونا چاہیے کہ حکومت وقت نے اپنے عمل اور ترجیحات سے یہ ثابت کرنا ہے کہ بلوچستان کے عوام کو بھی وہی حقوق حاصل ہیں جو ملک کے دوسرے کسی علاقے کے لوگوں کو حاصل ہیں۔ ریاست صحیح طور پر ماں بن کر دکھائے اور اپنے لوگوں کی مصیبت کی اس گھڑی میں بھرپور مددکرے۔وعدے بہت ہوچکے اور دعوے بھی بہت کرلئے اب صرف اور صرف عمل کی ضرورت ہے، وزیراعظم شہبازشریف کو اللہ نے یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اس قدرتی آفت میں اپنی قوم کی قیادت کررہے ہیں ۔
٭....٭....٭