ملک بھر میں جاری بارشوں اور سیلابی صورتحال کے باعث خوراک کی قلت کا سنگین بحران پیدا ہونے کا خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور اشیائے خوردونوش بشمول گندم‘ چاول‘ چینی اور سبزیات کی بروقت درآمد ممکن نہ ہو پائی تو عوام کو آنیوالے دنوں میں قحط کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سیلاب سے سینکڑوں ایکڑ پر پھیلی فصلیں تباہ ہونے سے سبزیات بھی عوام کی پہنچ سے دور ہوگئی ہیں اور انکے نرخوں میں سو فیصد سے بھی زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ سیلاب اور بارشوں سے جہاں فصلیں متاثر ہوئی ہیں وہیں منافع خور اور ذخیرہ اندوز مافیاز نے خوراک کی مصنوعی قلت پیدا کرکے سبزیوں بالخصوص پیاز‘ ٹماٹر کے نرخ آسمان تک پہنچا دیئے ہیں جبکہ انتظامی مشینری گراں فروشی کے سدباب میں مکمل ناکام ہو چکی ہے۔ اس وقت عام مارکیٹ میں پیاز چار سو روپے‘ ٹماٹر تین سو روپے اور آلو ڈیڑھ سو روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہو رہے ہیں اور یہی صورتحال دوسری سبزیوں کی قیمتوں کی بھی ہے۔ اسی طرح پھلوں کے نرخ بھی 30 سے چالیس فیصد بڑھ چکے ہیں جبکہ مرغی کا گوشت چار سو روپے اور مٹن 1800 روپے کلو تک پہنچ چکا ہے۔ گزشتہ روز وفاقی وزیر تجارت نویدقمر کی زیرصدارت منعقدہ نیشنل فوڈ سکیورٹی کے اجلاس میں اجناس کی عدم دستیابی اور انکے خراب ہونے سے ملک میں خوراک کی ممکنہ قلت کا جائزہ لیا گیا اور ایران اور افغانستان سے پیاز اور ٹماٹر درآمد کرنے کی سمری تیار کی گئی جو منظوری کیلئے اقتصادی رابطہ کمیٹی کو بھجوائی جائیگی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایران اور افغانستان کے ساتھ خصوصی تجارتی انتظامات کے باعث فارن ایکسچینج پر بہت کم اثر پڑیگا اور مقامی منڈی میں پیاز‘ ٹماٹر کے نرخوں میں کمی آئیگی۔ اس کیلئے پیاز اور ٹماٹر کی درآمد پر لیویز اور ڈیوٹی ختم کرنے کی تجویز پر بھی غور کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ آئندہ تین ماہ تک ٹماٹر اور پیاز کی قلت کا سامنا رہے گا۔ اس دوران نیشنل فوڈ سکیورٹی قیمتوں اور اجناس کی دستیابی کا جائزہ لیتی رہے گی۔
چونکہ مون سون سے قبل بارشوں کا سلسلہ مئی کے اختتام تک شروع ہو گیا تھا جن کے غیرمعمولی ہونے کی پیش گوئی محکمہ موسمیات کی جانب سے پہلے ہی کر دی گئی تھی اس لئے کھیتوں میں پڑی گندم بھی طوفانی بارشوں سے متاثر ہوئی اور کسانوں کو یہ گندم محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا موقع نہ مل سکا۔ پھر مون سون کی بارشوں کا سلسلہ طویل ہوا اور سیلابی ریلوں کی شکل میں پانی کے بہاﺅ کا سلسلہ شروع ہو گیا تو اس سے مونجی کی فصل پر بھی برے اثرات مرتب ہونے لگے۔ سندھ‘ خیبر پی کے، بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں جب سیلاب کی نوبت آئی تو کھیتوں میں کاشت شدہ سبزیات اور فصلوں سمیت ہر چیز تہس نہس ہو گئی‘ چنانچہ اشیائے خوردونوش کی قلت نوشتہ¿ دیوار نظر آنے لگی۔مویشیوں کے علاوہ زرعی آلات‘ کھاد اور فصلوں کے بیجوں سمیت کاشتکاری کے تمام لوازمات سیلاب کے پانی کی نذر ہو گئے جبکہ سیلاب میں جن کاشتکاروں کے گھر تباہ ہوئے وہ کاشتکاری کی بحالی کے بھی قابل نہیں رہے۔ یہی وہ عوامل ہیں جو سیلاب کے بعد ملک میں خوراک کی شدید قلت کی صورت میں منڈلاتے ہوئے سنگین خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں جبکہ حکومتی مشینری اس بحرانی کیفیت سے عہدہ برا¿ ہونے میں قطعی ناکام نظر آتی ہے۔
مزید سنگین صورتحال یہ پیدا ہورہی ہے کہ جن ممالک کی اجناس اور دوسری اشیائے خوردونوش برآمد کیلئے عالمی منڈیوں میں آتی ہیں‘ ان میں سے بعض ممالک خشک سالی کا شکار ہیں اور بعض ممالک روس یوکرائن جنگ کے منفی اثرات کی لپیٹ میں ہیں جبکہ موسمی تغروتبدل نے بھی بیشتر ممالک کی زراعت و معیشت پر برے اثرات مرتب کئے ہیں۔ عملاً اس وقت پوری دنیا خوراک کی قلت کے بحرانوں کی زد میں ہے۔ اس بحران میں جو ممالک اپنی سٹور کی گئی اجناس مارکیٹ میں لائیں گے وہ ایک تو غیرمعیاری ہوں گی اور دوسرے وہ مہنگے داموں فروخت کرینگے۔ چنانچہ یہ اشیاءپاکستان مہنگے داموں درآمد کریگا تو مقامی منڈیوں میں ان درآمد شدہ اشیاءکے نرخ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو جائیں گے جبکہ مقامی اجناس کی ویسے ہی قلت پیدا ہو چکی ہے چنانچہ آنیوالے لمحات ملک اور عوام کیلئے بعد ازسیلاب والے مسائل اور مصائب کے انبار لگاتے نظر آرہے ہیں جو لامحالہ حکومت کی سطح پر ٹھوس حکمت عملی طے کرنے اور قومی سطح پر ادارہ جاتی‘ سیاسی‘ دینی اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں مکمل اتحاد و یکجہتی کے متقاضی ہیں۔
بدقسمتی سے ملک میں اقتدار کے سفاک کھیل نے سیاسی انتشار اور عدم استحکام کی جو فضا پیدا کر رکھی ہے‘ اسکے تناظر میں سیاسی اور اقتصادی بحران گھمبیر ہونا بعیداز قیاس نہیں۔ سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے گزشتہ روز اسلام آباد میں معاشی زبوں حالی کے زیرعنوان ایک سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام انتہائی ضروری ہے۔ انکے بقول امپورٹڈ حکومت نے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا کر دیا ہے جسے عام آدمی کی کوئی پرواہ نہیں۔ ان کا یہ تجزیہ بھی تلخ حقائق کی عکاسی کرتا ہے کہ ابتر معاشی حالات کو سدھارنے کیلئے مشکل فیصلے لینے ہونگے اور آنیوالی حکومت کو بھی موجودہ حالات کے تناظر میں ہنگامی بنیادوں پر فیصلے کرنا ہونگے۔ انہوں نے جس انداز میں حکمران جماعتوں کی قیادتوں کو ہدف تنقید بنایا اس سے ملک میں سیاسی کشیدگی کم ہونے کے بجائے بڑھنے کا ہی عندیہ ملتا ہے۔ اگر بطور قومی لیڈر عمران خان کو اس امر کا ادراک ہے کہ سخت اور مشکل فیصلوں کے بغیر ملکی معیشت کو ٹریک پر نہیں چڑھایا جا سکتا تو ان فیصلوں کیلئے ملک کو سیاسی استحکام سے ہمکنار کرنا ضروری ہے جو اقتدار کی رسہ کشی میں بلیم گیم سے رجوع کرنے کا متقاضی ہے۔ آج ملک جس بحرانی کیفیت کا شکار ہے اور قحط کے خطرات سر پر منڈلا رہے ہیں اسکے تناظر میں قومی سیاسی‘ دینی اور ادارہ جاتی قیادتوں کو باہم یکجہت ہو کر غیریقینی کی فضا کو ٹالنا ہوگااور قومی سیاسی اور اقتصادی استحکام کی مشترکہ حکمت عملی طے کرنا ہوگی۔ آج وطن عزیز مفاداتی سیاست کا ہرگز متحمل نہیں ہو سکتا چنانچہ قوم توقع کرتی ہے کہ حکومتی اور اپوزیشن قیادتیں اپنے باہمی سیاسی‘ ذاتی اختلافات کو بھلا کر ملک و قوم کے بہترین مفاد کی خاطر ایک دوسرے کی جانب تعاون کا ہاتھ بڑھائیں گی اور ایک میز پر بیٹھ کر قومی ڈائیلاگ کے ذریعے ملک کو اقتصادی اور مالی بحران سے نکالنے کی کوئی مشترکہ ٹھوس حکمت عملی طے کرلی جائیگی۔ اگر قومی قیادتوں نے ملک کی بقاءو سلامتی کی خاطر اب کوئی مشترکہ فیصلہ نہ کیا تو آنیوالی تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کریگی۔