فنڈز اکٹھے کرنا،نظام نہ بنانا 

اصل غم طوفانوں کا نہیں صدمہ تو یہ ہے کہ سیاسی مذہبی سماجی تنظیمیں مقابلے میں فنڈز اکٹھے کرتی ہیں مگر پچہتر برسوں میں کوئی بھی حکمران ایسا نہ آیا جو اس ملک میں طوفانوں سے نبٹنے کے لئے جدید نظام بنا سکے۔ سب بڑے بڑے ڈیم بنانے کے لارے لگاتے ہیں فنڈز اکٹھے کرتے ہیں مگر جب بھی کوئی طوفان آتا ہے کہیں کوئی سسٹم دکھائی نہیں دیتا۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے نام نہاد ڈیم کے نام پر جو فنڈز اکٹھا کیا تھا وہ عوام کا پیسہ ہے ڈیم تو بنا نہیں وہ پیسہ سیلاب متاثرین پر استعمال کیا جائے۔ الا ماشا اللہ سیلاب کو عذاب الٰہی کہنے والے یہ بتائیں یہ سارے عذاب غریبوں پر ہی کیوں ٹوٹتے ہیں۔ تم علما سو اور اس ملک کی کرپٹ اشرافیہ پر کیوں نہیں ٹوٹتے۔در حقیقت اشرافیہ اور علما سو کے اعمال بد عذاب ہیں۔ سیلاب کا ناقص انتظام اور بجلی کے بلوں نے عوام کو مار ڈالا۔حکومتیں اور اپوزیشن والے مصائب کو محسوس ہی نہیں سکتے کہ سب امیر کبیر اور اقتدار کے نشئی ہیں۔طوفانوں پر بھی سیاست چمکاتے ہیں۔ ہر سیاسی پارٹی کا اپنا جرنیل اپنا جج اپنا صحافی اپنا بیوروکریٹ اپنا آئی جی اپنا چینل اپنا اخبار تے فیر لڑائی کتھے تے کیوں تیری ڈانگ stick تے میری ڈانگ تشدد ؟ فراڈجمہوریت فراڈسیاست۔ حالیہ بارشوں اور سیلاب سے پاکستان کا صوبہ بلوچستان سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ ہے جہاں کے 34 اضلاع اور تین لاکھ 60 ہزار سے زائد افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں۔ این ڈی ایم اے کے مطابق بلوچستان میں اب تک 225 اموات ہو چکی ہیں۔ رب کسی کو کسی طوفان سے آشنا نہ کرے۔ امریکہ میں بھی ہولناک طوفان آتے ہیں اور ترقی یافتہ ملک بھی قدرت کے سامنے بے بس دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لئے تباہ کن طوفان مزید کمر توڑ جاتے ہیں۔ بارشوں کا طوفان بند توڑ کر انسانوں کو نگلتا ہوا گزر جاتا ہے۔ امریکہ کے شمالی علاقوں میں 2012 میں آنے والے سینڈی نامی طوفان کی تباہ کاریاں بھی تاریخی ہیں۔ سینڈی طوفان کے تقریباً ایک ہفتے کے بعد بھی نیو جرسی نیویارک کے علاقوں میں بجلی بحال نہ ہو سکی۔پاکستان غریب ملک اپنی تاریخ کے المناک طوفانوں کا شکار رہا ہے۔لیکن حالیہ سیلاب اور بارشوں نے ملک میں تباہی مچا دی ہے،ماضی میں یہ سیلاب وسطی پنجاب کو بھی متاثر کرتے رہے ہیں، جہاں سے پاکستان کے تین دریا یعنی دریائے جہلم، چناب اور راوی گزرتے ہیں۔تاہم حالیہ سیلاب سے متاثرہ علاقے بالکل مختلف ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کا آغاز بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب سے ہوا اور اب خیبرپختونخوا کے کچھ علاقے اس کی زد میں ہیں۔اس سال آنے والے سیلاب کے بارے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ ان کی وجہ غیر معمولی بارشیں تھیں اور اس کے باعث جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں کہیں فلیش فلڈنگ اور کہیں اربن فلڈنگ کے باعث نقصان ہوا۔ یہ موسمیاتی نظام دراصل خلیجِ بنگال یا بحیرہ عرب سے شروع ہو کر، انڈیا میں برستے ہوئے پاکستان کے شمالی علاقوں میں پہنچتے ہیں۔ یہاں ان کا ملاپ مغرب سے آنے والی ہواو¿ں سے ہوتا ہے جس کے بعد یہ بارش کا باعث بنتے ہیں۔تاہم اس مرتبہ موسمِ گرما کی صورتحال شروع سے ہی خاصی غیر معمولی رہی ہے۔ اپریل اور مئی کے مہینوں میں درجہ حرارت زیادہ شدید ہوتے ہیں، تو مون سون بھی زیادہ متحرک ہوتی ہے۔'بلوچستان سے آنے والے سیلابی پانی کا دباو¿ بڑھنے کے بعد سندھ کو پھر سیلاب کا سامنا ہے، ادھر ضلع دادو کی تحصیل میہڑ کی آخری ڈیفنس لائن سپریو بند میں 30 فٹ چوڑا شگاف پڑگیا، سینکڑوں دیہات متاثر ہوئے ہےں۔ کوئٹہ میں شدید لوڈشیڈنگ، بجلی، گیس اور موبائل فون سروس کی معطلی سے شہری پریشان ہیں۔ خیبر پختونخوا کے شہروں سوات،ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک، نوشہرہ اور چارسدہ میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں جہاں چارسدہ میں دریا کنارے واقع آبادیاں ڈوب گئیں‘ایک لاکھ 80 ہزار سے زائد افراد بے گھر ہوگئے، متاثرین کی بڑی تعداد پشاور موٹر وے پر پناہ لیے ہوئے ہے۔کوہستان میں سیلابی ریلا گزر گیا لیکن تباہی کی داستانیں چھوڑ گیا۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی پانی ہی پانی ہے، دریائے کابل میں نوشہرہ کے مقام پر پانی کی سطح میں کمی آنے لگی۔سیلاب کی تباہ کاریاں سنگین صورتحال اختیار کر چکی ہیں۔ متاثرین اور ملک کی بحالی میں برسوں درکار ہیں۔ مومنہ چیمہ فاونڈیشن کی ٹیم اور ایمبولینس نے شگر بلتستان کے علاقے کونیس میں سیلاب کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیا، بلوچستان میں بے گھروں کی کفالت کا ذمہ لیا اور جو متعددخاندان متاثر ہوئے،خشک راشن کیساتھ کراکری کے تمام ضروری سامان تقسیم کیا گیا۔ الحمد للّٰہ۔

طیبہ ضیاء … مکتوب امریکہ

ای پیپر دی نیشن