عمران کے جواب پر دکھ ، سوچ کر7 روز میں دوبارہ دیں : اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد (وقار عباسی/ وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ نے توہین عدالت کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے جواب کو غیر تسلی بخش قرار دے کر7 روز میں دوبارہ جواب جمع کرانے کا موقع دیتے ہوئے پاکستان بارکونسل، سینئر وکلاء منیر اے ملک اور مخدوم علی خان کو عدالتی معاون مقررکردیا۔ گذشتہ روز چیف جسٹس اطہرمن اللہ کی سربراہی میں جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بنچ میں سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل، عمران خان کی لیگل ٹیم حامد خان، نیاز اللہ نیازی اور دیگرعدالت میں پیش ہوئے۔ عمران خان کی آمد سے قبل سینئر وکیل بابر اعوان کے بیٹے کا نام فہرست میں نہ ہونے کے باعث کمرہ عدالت سے نکال دیا گیا اور بابر اعوان کو بھی کمرہ عدالت سے نکلنے کا کہا گیا۔ عمران خان اکیلے کمرہ عدالت پہنچے اور چند منٹ بعد شاہ محمود قریشی اور اسد عمر بھی کمرہ عدالت پہنچ گئے، جبکہ اعظم سواتی اور اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر شعیب شاہین بھی کمرہ عدالت موجود تھے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا تحریری جواب پڑھ لیا ہے، جو کہا گیا توقع نہیں تھی، حامد خان صاحب آپ عمران خان کے وکیل ہونگے؟، ہمیں بہت خوشی ہے کہ اس اہم معاملے میں آپ یہاں عمران خان کے وکیل ہی نہیں عدالتی معاون بھی ہیں، توقع تھی آپ یہاں آنے سے پہلے ماتحت عدالت سے ہو کر آئیں گے، توقع تھی آپ کنڈکٹ سے ظاہر کریں گے قانون کی عملداری پر یقین رکھتے ہیں، مجھے ایسے بیانات کی بالکل بھی توقع نہیں تھی، ماتحت عدالت کے ججوں سے متعلق جو کہا گیا اسکی توقع نہیں تھی، ستر سال میں عام آدمی کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں رسائی نہیں ہے، میں توقع کر رہا تھا کہ احساس ہو گا کہ غلطی ہو گئی، چیف جسٹس نے کہاکہ جس طرح گزرا ہوا وقت واپس نہیں آتا زبان سے کہی ہوئی چیز واپس نہیں آتی، جن مشکل حالات میں ضلع کچہری میں ججز کام کررہے ہیں وہ سب کے سامنے ہیں، میں یہ توقع کررہا تھا کہ اس پر شرمندگی اور افسوس کیا جائے گا، ایک سیاسی جماعت کے لیڈر کے فالورز ہوتے ہیں اس کو کچھ کہتے سوچنا چاہیے، تحریری جواب سے مجھے ذاتی طور پر تسلی نہیں ہوئی، عمران خان کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے ہمارے کہنے پر جوڈیشل کمپلیکس بنایا، عمران خان اس عدلیہ کے پاس جاکر اظہار کرتے کہ انہیں عدلیہ پر اعتماد ہے، ایک سیاسی پارٹی کے رہنما عمران خان کا ہر لفظ اہم ہوتا ہے، عمران خان کے ان الفاظ میں ایک خاتون جج کو دھمکی دی گئی، تحریری جواب میں ہمیں جو امید نظر آرہی تھی، وہ نہیں ملی، عمران خان کے قد کے آدمی کو کیا ایسا کرنا چاہیے تھا؟۔ اس عدالت نے تین سالوں سے مسلسل ٹارچر کے معاملے کو اٹھایا، لاپتہ افراد کی گمشدگی اور بلوچ طلباء کی ہراسگی سب سے بڑا ٹارچر ہے، ٹارچر کی کسی بھی سطح پر اجازت نہیں دی جاسکتی، کیا کسی شخص کو لاپتہ کرنے سے بڑا کوئی ٹارچر ہوتا ہے؟۔ ابصار عالم اور اسد طور کیس میں سب کچھ واضح تھا، اس عدالت نے ہر معاملے کو وفاقی کابینہ کو بھیج دیا تھا، کاش اس وقت ٹارچر والے معاملے پر غور کیا ہوتا یہ آواز اٹھاتے تو آج یہ سب نہ ہوتا، آج نہ کسی تھانے میں ٹارچر ہوتا، نہ ہی کوئی گمشدگی ہوتی، آپ کے موکل کو احساس ہی نہیں کہ انہوں نے کیا کہا ہے، جواب سے لگتا ہے کہ عمران خان کو احساس ہی نہیں کہ انہوں نے کیا کہا؟۔ چیف جسٹس نے کہاکہ اس عدالت کے قائم مقام چیف جسٹس نے شہباز گل کا معاملہ واپس ریمانڈ کیا تھا۔ عدالت نے حامد خان سے کہا کہ آپ اس عدالت کے معاون ہیں خود کو کسی کا وکیل نہ سمجھیں، عدالت نے شہباز گل کے وکیل کو شہباز گل کیس کا فیصلہ پڑھنے کی ہدایت کی جس پر وکیل سلمان صفدر نے کیس کا عدالتی فیصلہ پڑھ کر سنایا، چیف جسٹس نے کہاکہ شہباز گل ٹارچر کیس پر اسلام آبادہائیکورٹ نے حکم جاری کیا، چیف جسٹس نے کہاکہ اڈیالہ جیل کس کے ایڈمنسٹریٹو کنٹرول میں ہے؟، کیا ٹارچر کی ذرا سی بھی شکایت ہو تو کیا جیل حکام ملزم کو بغیر میڈیکل داخل کرتے ہیں؟ چیف جسٹس نے کہاکہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التواء تھا تو تقریر کی گئی، عدلیہ اور ججز احتساب کے لیے حاضر ہیں، چاہے تنقید کریں، لیکن کیا عدالت میں زیر سماعت مقدمے پر بات کرکے زیر سماعت مقدمے پر اثر انداز ہونے کی اجازت دیں؟، آپ نے توہین عدالت کے معاملے پر فردوس عاشق اعوان کیس کی ججمنٹ پڑھی ہو گی، تمام چیزوں کی جانکاری کے باوجود پبلک سٹیٹمنٹ دیا گیا، اگر یہ عدالت پیکا آرڈیننس معطل نہ کرتی تو سارے جیل میں ہوتے، اس آرڈیننس کے مطابق تو چھ ماہ تک کسی کو ضمانت بھی نہیں ملنا تھی، جب پیکا آرڈیننس کو معطل کیا تو سوشل میڈیا پر ٹرینڈ چلائے گئے، آپ کے موکل نے جلسہ میں کہا کہ عدالت رات کو 12 بجے کیوں کھلی؟، عدالت کسی کو جوابدہ نہیں، یہ عدالت ہر کسی کے لیے کھلی رہتی ہے، یہ عدالت رات کو کھلی کہ 12 اکتوبر 1999 کا واقعہ نہیں ہوگا، بڑے اچھے الفاظ میں انہوں نے گلہ کیا، انہی الفاظ میں جو کہ بنتا نہیں تھا خاتوں جج سے گلہ کرتے، ججز اور کورٹ، جوڈیشری پر جتنی تنقید کرنی ہے کریں، اس عدالت نے آرڈیننس کالعدم قرار دیا، اگر آج وہ ہوتا تو گرفتاریاں بھی ہوتیں ضمانت بھی نہ ہوتی، سیاسی لیڈرز کے اس وقت کے بیانات آپ دیکھ لیں، یہ عدالت کیوں بارہ بجے کھلی؟ سوال اٹھانا آپ کا حق ہے، لیکن یہ عدالت کمزور کے لیے بھی اور چھٹی کے روز بھی 24 گھنٹے کھلی رہی ہے، اس عدالت کے کسی جج کو کوئی اثرانداز نہیں کر سکتا، ماتحت عدلیہ کے ججز کوئی اور نہیں ہیں کہ اسکے بارے میں جو مرضی کہیں‘ اس عدالت نے صرف قانون پر جانا ہے اور آئین پر عمل درآمد کرنا ہے، اس ملک میں کوئی بھی سیاسی رہنما آئین کی سپرمیسی پر کام نہیں کرتے، اس کورٹ کے لیے سب سے اہم ماتحت عدلیہ ہے، طلال چوہدری، نہال ہاشمی اور دانیال عزیز کیسز کے سپریم کورٹ کے حوالے ہمارے سامنے ہے،کسی سیاسی جماعت کے خلاف کوئی فیصلہ دے تو سوشل میڈیا پر ٹرینڈ شروع ہوجاتے ہیں، میری اور ایک قابل احترام جج کی تصویر تھی، اس جج کو سیاسی جماعت کا رہنما بنادیا، اس کورٹ نے کبھی بھی پرواہ نہیں کی کہ اس کورٹ کے بارے میں کیا کہا جا رہا ہے، مجھے ایک فلیٹ کا مالک بھی بنا دیا گیا، ہمارے ادارے نے بھی بہت غلطیاں کی ہیں جن پر تنقید کو ویلکم کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر ججز کی تصویریں لگا کر الزامات لگائے جاتے ہیں، سیاسی جماعتیں اپنے فالوورز کو منع نہیں کرتی، آپ نے جواب میں کہا ہے مگر حقیقت میں احساس ہی نہیں، یہ عمران خان جیسے رہنما کا جواب نہیں ہے، آپ نے جو جواب جمع کرایا وہ عمران خان جیسے لیڈر کے رتبہ کے مطابق نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ توہین عدالت کو ہم غلط استعمال نہیں ہونے دیں گے، حامد خان ایڈووکیٹ نے کہاکہ میں نوٹس کے دائرہ اختیار، قابل سماعت ہونے پر دلائل دوں گا، ہم نے جواب میں صرف اپنی ایک پوزیشن کو واضح کیا، عمران خان کا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا کہ وہ جوڈیشل افسر کے بارے میں یہ کہیں، چیف جسٹس نے کہاکہ تمام عدالتی کارروائی کو شفاف رکھیں گے، توہین عدالت کیسز پر سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل لازم ہے، اس عدالت کا صرف کنسرن یہ ہے کہ عدلیہ کی آزادی ہے، عدالت نے عمران خان کے وکیل کو سپریم کورٹ کے تین فیصلے پڑھنے کی ہدایت کی، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ نے جو بھی لکھ کر دینا ہے سوچ سمجھ کر لکھیں، آپ اس معاملے کی سنگینی کا بھی اندازہ لگائیں، جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہاکہ توہین عدالت کی کارروائی آج ختم ہو سکتی تھی مگر اس جواب کی وجہ سے ایسا نہیں ہوا، آپ کو جواب داخل کرانے کا ایک اور موقع دیا گیا ہے، آپ اس پر سوچیں۔ چیف جسٹس نے کہا اس ملک میں تبدیلی تب آئے گی جب تمام ادارے اپنا کام آئین کے مطابق کریں، عدالت نے عمران خان کو7 روز میں دوبارہ جواب جمع کرانے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کو معلوم ہے کہ مطیع اللہ جان یہاں کھڑے ہیں اور ان کے ساتھ کیا ہوا تھا؟، چیف جسٹس نے وفاق کے نمائندہ سے کہاکہ آپ بھی بغاوت اور غداری کے کیسز پر نظرثانی کریں، آپ ہمیں الزام دیتے ہیں کہ پاکستان کی عدلیہ 130 ویں نمبر پر ہے، ہم نے ایک کیس میں فواد چودھری کو بتایا کہ وہ نمبر عدلیہ کا نہیں، ایگزیکٹو کا تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہی وقت ہے کہ سب لوگوں کو ملکر پاکستان کیلئے ایک روڈمیپ بنانا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کئی آرڈر پاس کیے ٹارچر کے مسائل کے حوالہ سے، ہم اس پر آرڈر جاری کریں گے، پولیس آرڈر کو نافذ کرنے کا حکم دیا اور وفاقی حکومت نے اس میں resist کیا، چیف جسٹس نے کہا کہ آپ جو پیکا آرڈیننس لائے تھے وہ کالعدم نہ ہوتا تو آدھا پاکستان اندر ہوتا، آپ نے جو بھی عدالت کو بتانا ہے سوچ سمجھ کر کریں، یہ عدالت واضح کرتی ہے کہ اس کا فیئر ٹرائل کریں گے، اس ملک میں تبدیلی تب آئے گی جب ادارے آئین اور قانون کے مطابق کام کرینگے، اس دارے سے متعلق کیس ہے تو پاکستان بار کونسل کو اس میں شامل کرتے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے ایسا نام دیں جس پر دونوں سائڈ کو مسئلہ نہ ہو، اٹارنی جنرل نے کہاکہ ایسا کوئی شخص آپ کو نہیں ملے گا، اٹارنی جنرل نے مخدوم علی خان کا نام عدالتی معاونت کیلئے دیا، عدالت نے مذکورہ بالا اقدامات کے ساتھ سماعت 8 ستمبر تک کیلئے ملتوی کردی۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...