ملک کے معاشی حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں اور اس دگر گوں صورتحال میں حکومت جس شدید مالی مشکلات سے دوچار ہے اس سے نمٹنے کے لیے اس کے پاس بد قسمتی سے نئے ٹیکس لگانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ اب تک کی صوتحال کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حکومت ایسے شعبہ جات میں ٹیکس لگاتی ہے جہاں اس کی دانست میں یقینی آمدنی ہوسکے۔بجلی، پیٹرول، اور اشیا خوردونوش وہ ذائع ہیں جن سے براہ راست ٹیکس وصول ہوتا ہے مگر ساتھ ساتھ عوام مہنگائی کی چکی میں پستے جاتے ہیں۔اسکے علاوہ بینکنگ کا شعبہ ایسا ہے جہاں حکومت کی خاص نظرِکرم ہے اور تمام انڈسٹریز میں سب سے زیادہ ٹیکس بینکنگ انڈسٹری سے حاصل ہوتا ہے۔اس حوالے سے حکومتی ٹریژری بلوں پر بینک زیادہ سے زیادہ منافع طلب کرتے ہیں تو یہ ایک بظاہر قابلِ عمل بات نظر آتی ہے اور یہ کوئی غیر معمولی بات بھی نہیں ہے۔لیکن ایسی صورتحال میں حکومت جوابا بینکوں کی آمدنی پر ٹیکسوں کی شرح بلند کردیتی ہے۔ موجودہ بجٹ بھی اس حوالے سے کچھ ایسا ہی ظاہر کرتا ہے۔یہ بات بلکل بجا ہے کہ کسی بھی کاروباری ادارے کا (بشمول بینک) زیادہ سے زیادہ جائز منافع کا حصول حق ہوتا ہے تاہم حکومت کا بھی یہ حق ہوتا ہے کہ وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرے اور موجودہ صورتحال میں حکومتی مفادات کا تحفظ ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کی صورت میں ہوتا ہے۔اور جب بینک حکومتی Debt سیکورٹیز میں بھاری سرمایہ کاری کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں اور اس کے بدلے میں یہ جانتے ہوئے کہ حکومت کیلئے مرکزی بینک سے قرضوں کی وصولی کے دروازے بند ہوگئے ہیں، زیادہ منافع چارج کرتے ہیں تو پھر حکومت بینکوں کو باور کراتی ہے کہ وہ ایسا کرتے ہوئے نجی شعبہ کی کریڈت کی طلب کو نظر انداز کررہے ہیں۔بعض اوقات حکومت کی طرف سے یاددہائی زیادہ ٹیکسوں کی صورت میں نظر آتی ہے جو بینکوں کی طرف سے Debt سیکیورٹیز میں کی گئی سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والی آمدن پر عائد کیئے جاتے ہیں جو نجی شعبہ کو زیادہ قرض فراہم نہیں کرتے۔موجودہ مالی سال کا بجٹ بھی حکومت اور بینکوں کے درمیان تعلقات کے اسی پہلو کو آشکار کرتا ہے۔حکومت نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے سال 2022-23 کیلئے بجٹ میں پہلے سے ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبی بینکنگ انڈسٹری پر ٹیکسوں میں اضافہ کردیا۔ گزشتہ مالی سال کے دوران بینکوں پر 35 فیصد پلس 4 فیصد سپر ٹیکس عائد کیا گیا جو مجموعی طور پر 39 فیصد ٹیکس بنتا ہے۔ موجودہ فنانس بل میں حکومت نے بینکوں پر 49 فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا۔بینکنگ انڈسٹری کے ذرائع نے واضح کیا ہے کہ حکومت 39 فیصد (35 فیصد ٹیکس ریٹ پلس 4 فیصد سپر ٹیکس) کو بیس ٹیکس سمجھتی ہے اس لئے اس نے 10 فیصد سپر ٹیکس عائد کیا ہے جو مجموعی طو رپر 49 فیصد بنتا ہے۔ انصاف یہ ہے کہ حکومت کو 35 فیصد پر گزشتہ سال کے بیس ٹیکس ریٹ کے طور غور کرنا چاہئے تھا اس کے بعد 10 فیصد سپر ٹیکس عائد کرتی تو یہ 49 فیصد کی بجائے 45 فیصد ہوجاتا ہے۔ چونکہ بینک پہلے ہی 4 فیصد کا سپر ٹیکس ادا کررہے ہیں جبکہ موجودہ فنانس بل میں اسے 45 فیصد بنانے کیلئے 6 فیصد مزید ٹیکس عائد کردیاگیا۔بینکگ انڈسٹری فطری طور پر اس حکومتی اقدام سے خوش نہیں ہے اور اس معاملے سے نمٹنے کے لیے انہوں نے حکومت سے رابطہ بھی کیا ہے کیونکہ انکو اس بات کا خدشہ ہے کہ ایسے غیر حقیقت پسندانہ اور یکطرفہ اقدامات سے نہ صرف ان کی آمدنی متاثر ہوگی بلکہ مجموعی طور پر پاکستان کی معیشت پہ بھی طویل المدت میں اس کے منفی اثرات ہونگے۔اب دیکھنا یہ ہے کیا حکومت اپنی پوزیشن تبدیل کرے گی یا نہیں۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے مگر صورتحال پھر بھی تسلی بخش نہیں ہے اور آئی ایم ایف سے قرض کی وصولی کے بعد بھی حکومت کو بہت اطمینان بخش صورتحال کا سامنا نہیں ہوگا اور ان کو مالی مشکلات کا سامنا رہے گا۔ ایسی صوتحال میں حکومت کو بینکنگ انڈسٹری کے بارے میں رعایت دینے کے بارے میں ضرور سوچنا ہوگا۔اگرچہ حکومت اپنی مجبوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے منطقی طور پر اس مسئلے سے نمٹ رہی ہے تاہم۔ مجموعی طور پر بینکنگ انڈسٹری پر عائد کردہ ٹیکس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے مختلف اختراعی اقدامات اختیار کرنے کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ حکومت کو بینکوں سے مزید قرضے کے حصول سے بچنے کیلئے مضبوط مالی نظم و نسق لانا ہوگا۔ تاہم یہ حکومت کے مفادمیں ہے کہ اگر بینک مزید کاروبار پیدا کرنے کیلئے فعال کردار جاری رکھیں جس سے حکومت کو زیادہ ٹیکس حاصل ہوگااس مرحلے پر بینکوں کو انتہائی سنگین چیلنج درپیش ہے کیونکہ ان سے مناسب اور ارزاں شرحوں پر مالی خدمات فراہم کرنے کی توقع کی جارہی ہے لیکن ٹیکسوں کے نفاذ کے حوالے سے نئے اقدامات ان مقاصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ تاہم سپر ٹیکس کے نفاذ کے ساتھ حکومت نے بینکوں کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ وہ اپنے مالی خدمات کے چارجز میں اضافہ کریں اور غیر منطقی ٹیکس اقدامات کا بوجھ بلآخر اس ملک کے غریب عوام کو ہی برداشت کرنا ہوگا۔چونکہ حکومت مختلف ٹیکس اقدامات کا جائزہ لے کر منی بجٹ لگا رہی ہے، یہ سمجھداری ہوگی اگر وزارت خزانہ اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرے اور کچھ دوسرے شعبوں کے بارے میں سوچے جو شاید عوام پر براہ راست بوجھ ڈالے بغیر حکومت کو ریوینو فراہم کریں کیونکہ اس مرحلے پر بینکوں پر بلند شرح ٹیکس لگانا انتہائی غیر مناسب ہوگا اور یقینا اس شعبے کو پیچھے دھکیلنے کا مترادف ہوگا جس سے معیشت، عوام اور اس شعبے پر طویل مدتی اور منفی اثرات مرتب ہونے کا قوی امکان ہے۔