تحریک آزادی کشمیر میں ممتاز بزرگ رہنما سید علی گیلانی کی خدمات
جی این بھٹ
تحریک حریت کا ایک قدآور رہنما ، تحریک آزادی کشمیر کی ایک توانا آواز، جس سے دل باطل لرز جاتا تھا۔ ایک طویل بھرپور سیاسی و تحریکی زندگی بسر کر کے نظربندی کی حالت میں جب اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے تو بھی ان کی ہیبت کا یہ عالم تھا کہ ان کی موت کی خبر چھپائی گئی اور صرف ان کے گھر والے قریبی رشتہ داروں کو ان کے آبائی قبرستان حیدر پورہ میں ان کی قبر کھودنے اور ان کی تدفین کی اجازت دی گئی۔ یہ سب رات کے اندھیرے میں کیا گیا تاکہ کسی کو ان کی وفات کا علم نہ ہو۔ صبح سخت حفاظتی انتظام میں کرفیو جیسی حالت کی وجہ سے عوام کو ان کی قبر پر جانے کے سارے راستے بند کیے گئے۔
ان تمام اقدامات کے باوجود ہزاروں کشمیریوں نے جگہ جگہ مختلف شہروں میں ان کی یاد میں تعزیتی مجالس منعقد کیں اور ان کے لیے فاتحہ خوانی کی۔ سید علی گیلانی کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت رہی۔ انہوں نے بطور امیر جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر میں اپنی جماعت کو ایک مخصوص طبقہ سے نکال کر عوام میں روشناس کرایا۔ اسی لیے جب انہوں نے دو مرتبہ مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی کے الیکشن میں حصہ لیا تو عوام نے انہیں کامیاب کرا کے مقبوضہ کشمیر کی اسمبلی میں جگہ دلائی۔ بطور سیاستدان انہوں نے کشمیر کی اسمبلی کے اندر اور باہر اپنی تقاریر سے جہاں بھارتی غاصب حکمرانوں کو للکار وہاں عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے بھرپور احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔ پھر جب 1990ء میں تحریک آزادی کی مسلح جدوجہد کا آغاز ہوا تو حزب المجاہدین کی سرپرستی کا حق ادا کر دیا اور سینکڑوں کشمیریوں کو حزب المجاہدین کا مسلح مجاہد بنا کر امیر المجاہدین کا خطاب پایا۔ وہ حق کی بات کہنے اور اس پر ڈٹ جانے کی وجہ سے نوجوانوں میں ہی نہیں بوڑھوں میں بھی مقبول تھے۔ہزاروں کشمیری ان کی ایک آواز پر جہاں وہ کہتے جہاں وہ جاتے جمع ہو جاتے۔
حریت کے اس سفر میں آزادی کی اس راہ پر چلتے ہوئے انہیں کئی مرتبہ قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا مگر حریت کے اس لافانی سفر میںان کے پائے استقلال میںکبھی لغزش نہ آئی۔ جیل قید اور اذیتیں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں۔ انہوں نے بھارتی پولیس اور فوج کے بڑے بڑے مظالم خندہ پیشانی سے برداشت کیے۔
سید علی گیلانی حریت کانفرنس کے بانی ارکان میں شامل تھے۔ سچ کہیں تو ان کی ایما پر ہی کشمیر کی آزادی کے لیے کوشاں مسلح و غیر مسلح تنظیموں نے مل بیٹھ کر ایک مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل پایا جس کا نام ’’حریت کانفرنس‘‘ رکھا گیا۔ اس میں تمام مذہبی و دیگر مسلح جماعتوں نے مل کر بھارت کے ناک میں دم کئے رکھا۔ کچھ عرصہ بعد یہ تنظیم باہمی اختلافات کی وجہ سے دو حصوں بلکہ تین حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ ایک حصہ گیلانی گروپ، دوسرا میرواعظ اور تیسرا یٰسین ملک گروپ کہلایا تاہم کچھ عرصہ بعد یہ تینوں گروپ اپنی اپنی شناخت قائم رکھتے ہوئے متحدہ پلیٹ فارم تشکیل دے کر سیاسی میدان میں بھارت کے خلاف جدوجہد میں مصروف ہو گئے۔ حزب المجاہدین جماعت اسلامی کی عسکری شاخ ہے۔ سید علی گیلانی اس کے ناصرف مربی ، پشت بان بلکہ غیر مرئی سپریم کمانڈر بھی تھے۔
گیلانی صاحب کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے کی عملی تصویر تھے۔ وہ کھلم کھلا اس ساری زندگی اس نعرے کی ترویج کرتے رہے۔ پاکستان سے ان کی محبت اور کمٹمنٹ لازوال اور بے مثال رہی۔ وہ حقیقت میں مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے سب سے بڑے حامی اور داعی تھے۔ باوجود اس کے کہ وہ 2 مرتبہ کشمیر اسمبلی کے رکن رہے۔ انہوں نے اپنی پاکستان سے محبت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا۔ جماعت اسلامی کا دوسرا نام ہی سید علی گیلانی تھا ۔ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کی امارت سے علیحدگی کے بعد بھی وہ حریت کانفرنس میں گیلانی گروپ کی قیادت کرتے رہے۔ جماعت اسلامی جو کشمیر میں بھی ایک منظم جماعت ہے وہ بھی ان کی موجودگی میں اپنی شناخت نہ بنا سکی اور لوگ گیلانی صاحب کو ہی جماعت اسلامی مانتے اور تسلیم کرتے تھے۔ حالانکہ ان کے بعد گزشتہ کئی برسوں سے مولانا غلام احمد بٹ جماعت اسلامی کے امیر بن چکے ہیں۔
پاکستان میں بھی حریت کانفرنس کے سب سے بڑے اور محترم رہنما کی حیثیت سے علی گیلانی کو خصوصی حیثیت دی جاتی تھی۔ وہ خود کبھی پاکستان نہ آئے مگر پاکستانی حکمران انہیں ہمیشہ پکے سچے محب وطن پاکستانی کا درجہ دیتے تھے۔ نوائے وقت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ 1990ء سے لے کر آج تک وہ جہاد کشمیر کا حریت کانفرنس کا پاسبان اور حدی خواں رہا ہے۔ اس سے قبل بھی جب کبھی کشمیر میں آزادی کی کوئی تحریک چلی خواہ موئے مبارک کی چوری کا افسوسناک واقعہ ہو یا اندرا عبداللہ ایکارڈ کے خلاف احتجاج، جب جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں کوئی غیر قانونی حرکت کی جس سے مسئلہ کشمیر پر زک پڑتی تھی یا کشمیریوں کے حقوق کو نقصان پہنچتا تھا۔ نوائے وقت کے صفحات علم اور جناب مجید نظامی (ستارہ امتیاز)کا قلم اس کے خلاف تلوار بن کر بلند ہوتا رہا۔ سچ یہ ہے کہ گزشتہ 72 برسوں سے نوائے وقت اور نظامی برادران نے مسئلہ کشمیر کو پاکستان کا اپنا مسئلہ سمجھ کر اپنی آواز بلند کی۔ جناب مجید نظامی (ستارہ امتیاز) تو کشمیر کی تحریک آزادی کو تکمیل پاکستان کی جنگ کہہ کر ہمیشہ اس کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے تھے۔ وہ ساری زندگی کشمیر بزور شمشیر کی تلقین کرتے رہے۔ تمام جہادی تنظیموں کے ساتھ ان کے رابطے رہے۔ سب جہادی تنظیمیں خواہ وہ خود مختار کشمیر کی حامی ہوں یا الحاق پاکستان کی وہ مجاہد صحافت کے قریب تھیں۔ باوجود اس کے کہ معمار نوائے وقت کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے پر ایمان کی حد تک یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے تمام کشمیری تنظیموں اور جماعتوں کو نہایت خندہ پیشانی سے ہمیشہ گلے سے لگایا ان کی سرپرستی کی اور انہیں اپنے اخبار کے صفحات میں جگہ دی۔ وہ صرف اور صرف ان کشمیری جماعتوں اور شخصیات سے اختلاف رکھتے تھے اور متنفر تھے جو بھارت نواز تھے اور بھارت کی غلامی میں خوش ہو کر کشمیریوں کے لیے وبال بن کر ان کی زندگی اور آزادی کے دشمن بنے ہوئے تھے۔
سید علی گیلانی اور مجاہد صحافت مجید نظامی (ستارہ امتیاز) میں جو ذہنی و قلبی ہم آہنگی تھی اس کی بنیادی وجہ بھی الحاق پاکستان پر مکمل اور پختہ یقین تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نوائے وقت نے ہمیشہ ان کی خبروں کو صفحہ اول پر جگہ دی۔ زندگی کے آخری ایام میں بھی یہ مجاہد جس کی زندگی کا بیشتر حصہ خارزار سیاست اور کشمیر کی آزادی کی تحریک چلاتے گزری اور اس سلسلے میں وہ کئی سال اسیر زنداں رہے ۔ کئی برس گھر میں نظر بند۔ آخری ایام میں بھی انہیں کئی برس نظر بندی میں بسر کرنا پڑے۔ بڑھتی عمر اور صحت کی خرابی لازم و ملزوم ہیں۔ آخری تین برس گیلانی صاحب صاحب فراش رہے۔ ان کی بات چیت، میل جول ، تقریباً موقف رہی۔ علالت کی وجہ سے صرف ان کے اہلِ خانہ ہی ان سے مل پاتے۔ اگست 2019ء کو جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو مکمل طور پر ہڑپ کرنے کا اعلان کیا اس کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا اعلان کیا تو یہ خبر ضعیف و بیمار علی گیلانی تک بھی کسی نہ کسی شکل میں پہنچی ہو گی۔ جس نے ان کی خراب ہوتی صحت پر مزید گہرا اثر ڈالا۔ اس خبر نے اس بزرگ رہنما کو جو پہلے ہی ہوش و حواس سے بیگانہ ہو رہے تھے حقیقت میں صدمے سے نڈھال کر کے رکھ دیا۔ ان کے دل پر اس وقت کیا گزری ہو گی یہ وہی جانتے ہیں یا پھر ان کا خدا۔ اسی حالت میں یکم ستمبر 2021ء کو تحریک آزادی کشمیر کا یہ کوہ گراں بوجھل دل اور قوم کے غم کے ساتھ دنیائے فانی سے منہ موڑ کر بارگاہ الٰہی میں پیش ہو گیا۔ بھارت کی غاصب حکومت نے راتوں رات صرف ان کے چند رشتہ داروں کو ان کے تدفین کی اجازت دی جنہوں نے ٹارچوں کی روشنی میں قبر کھود کر کشمیر کے اس عظیم فرزند کو مادر وطن کی گود میں سپردخاک کر دیا ۔
’’خدا رحمت کنند ایں عاشقان پاک طینت را‘‘