کشمیری حریت رہنما سیدعلی گیلانی کا شمار تحریک آزادی کشمیر کے ان نمایاں رہنماو¿ں میں کیا جاسکتا ہے جنھوں نے اپنی حریت فکر سے تحریک آزادی کشمیر کو نئی جلا بخشی ، یکم ستمبر 2021 کو انتقال کرجانے والی سید علی گیلانی آخری وقت تک پاکستان کے ساتھ اپنا رشتہ وفا نبھاتے رہے ، حقیقت یہ ہے مودی سرکار 92 سالہ سید علی گیلانی کی حریت فکر سے اس قدر خوف زدہ تھی کہ انھیں بیمار ہونے کے باوجود آخری سانس تک نظر بند رکھا، انتہاپسند ہندو جماعت کے خوف کا عالم یہ رہا کہ حریت رہنما کی وصیت کے باوجود شہدا کے قبرستان میں تدفین نہ ہونے دی گی ، ناانصافی یہاں تک ہوئی کہ بزرگ حریت رہنما کے چاہنے والوں کو ان کے جنازے میں شرکت کی اجازت نہ ملی ، واقفان حال کے بعقول نماز جنازہ کے موقعہ پر مقبوضہ وادی کی کٹھ پتلی انتظامیہ نے کرفیو لگا کر ایسی صورت حال پیدا کردی کہ مقبوضہ وادی کے باسی اپنے مسلمہ قائد کو آخری سلام پیش کرنے کے لیے نہ آسکیں ، سید علی گیلانی نے اپنی زندگی کے آخری 12 سال بھی اسیری میں گزارے ، بھارتی ظلم وستم کا اندازہ یوں بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف حریت رہنما علیل تھے تو دوسری جانب اسیر ، قریب ترین لوگوں کے مطابق سید علی گیلانی کی زندگی کے آخری ایام انتہائی تکلیف دہ رہے، مثلا نئی دہلی سرکار نے انھیں طبی سہولیات فراہم کرنے سے انکار کردیا تھا، گویا کہا جاسکتا ہے کہ مودی سرکار عملا سید علی گیلانی کے قتل کی مرتکب ہوئی، بزرگ حریت رہنما مقبوضہ کشمیر سے متعلق اپنے دوٹوک موقف کے باعث طویل عرصہ تک قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں ، اسیری کے دوران سید علی گیلانی نے تصیف و تالیف کا کام جاری رکھا ، اسی عرصے میں انھوں نے دوجلدوں پر مشتمل روداد قفس بھی لکھ ڈالی ، سیاسی وسماجی موضوعات پر بھی حریت رہنما نے سینکڑوں کتابچہ اور مضامین لکھے ، سید علی گیلانی مولانا مودودی کو اپنا اتالیق قرار دیتے تھےمگر علامہ اقبال کی شاعری سے بھی انھیں بے انتہا شغف تھا ، سید علی گیلانی ان کشمیری رہنماوں میں سے تھے جنھوں نے بھارت کا جبر تو برداشت کیا مگر اپنے موقف سے ایک انچ بھی پچھے نہ ہٹے ، سید علی گیلانی کو تحریک آزادی کشمیر کا فکر معمار قرار دیا جاسکتا ہے ، 1953 سے 2004 تک وہ جماعت اسلامی کے ممبر رہے، اس دوران ان کا شمار جماعت کے نمایاں ترین رہنماوں میں میں کیا جاتا تھا ، 2004 میں انھوں نے جماعت اسلامی کو چھوڈ کر تحریک حریت کی بنیاد رکھی جو آگے چل کر آل پارٹیز حریت کانفرنس کی نمایاں ترین تنظیم ثابت ہوئی،سید علی گیلانی جون 2020 تک حریت کانفرنس کے چیرمین رہے مگر بعدازاں اس فورم سے الگ ہوگے ،سید علی گیلانی جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر 1972، ا1977 اور1987 میں قانون سازی اسمبلی کے ممبرمنتخب ہوئے، وہ مسلح جدوجہد کے حامی تھے انھیں کشمیرمیں ملسح تحریک آزادی کا بانی کہا جاتا ہے ، مقبوضہ کشمیر کے کٹھ پتلی وزیر اعلی عمر عبداللہ سید علی گیلانی پر یہ الزام عائد کرتے رہے کہ وہ کشمیری نوجوانوں کو مسلح جدوجہد کی ترغیب دیتے ہیں، سید علی گیلانی کا کمال یہ بھی تھا کہ وہ ان تمام گمنام مجاہدین کو تحریک آزادی کشمیر کا ہیرو قرار دیتے جو بھارتی فورسز سے مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر جاتے ، ایسے کئی گمنام شہدا کے لیے سید علی گیلانی نے مقبوضہ کمشیر میں کامیاب ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے کروائے جو عملا کشمیری حریت پسندوں کے جذبہ شہادت کو جلا بخشتے رہے ، سید علی گیلانی کو یہ اعزاز بھی ملا کہ مسلم ممالک تنظیم کی او آئی سی نے 2015 میں انھیں نیویارک آکر کشمیر کا مقدمہ پیش کرنے کی درخواست کی ، 2016 میں برہان وانی کی شہادت کے بعد سید علی گیلانی نے اقوام متحدہ کو خط لکھا جس میں مقبوضہ کمشیر میں جاری صورت حال پر ٹھوس کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ، بھارتی سرکار نے سید علی گیلانی کا پاسپورٹ 1981 میں یہ کہہ کر ضبط کرلیا کہ وہ ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں،2007 میں کنسر کے باعث سید علی گیلانی زیادہ علیل ہوگے ، ڈاکڑز نے انھیں لندن یا امریکہ علاج کی تجویز دی مگر امریکن سفارتخانے کی جانب سے ویزہ درخواست مسترد ہونے کی صورت میں انھوں نے ممبئی کے ہسپتال سےہی علاج کروایا ، صدر پاکستان ڈاکڑ عارف علوی نے 2020 میں سید علی گیلانی کو تحریک آزادی کشمیر میں ناقابل فراموش کردار اداکرنے پرنشان امتیار سے نوازا ،دراصل سید علی گیلانی ایسی حریت فکر کے حامل تھے جس میں چونکہ چنانچہ یا اگر مگر کو کوئی عمل دخل حاصل نہ تھا، علی گیلانی دل وجان سے یقین رکھتے تھے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر پر قابض ہے اور وادی کشمیر کا واحد حل پاکستان سے الحاق ہے ، سید علی گیلانی کا سر جھکانے اور ان کا اپنے مقصد حیات سے رخ موڈنے کےلیے بھارت نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر وہ ناکام رہا ، علی گیلانی نہ صرف خود تحریک آزادی کشمیر کے کامیاب ہونے پر یقین کامل رکھتے تھے بلکہ ان کشمیری نوجوانوں کی بھی منزل کی جانب بھرپور رہنمائی کرتے جو بھارت کے جبر واستعداد کے خلاف سینہ سپر ہیں، یوں آسان الفاظ میں سید علی گیلانی حریت پسندوں کے لیے نہ صرف منزل کی نشاندہی کرتے بلکہ اس پر پہنچنے کے لیے راستہ کا تعین بھی کردیتے ، سید علی گیلانی کے ان الفاظ کی مقبوضہ کشمیر کی وادی میں آج بھی گونج باقی ہے کہ " ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے "۔یوں بزرگ حریت رہنما عمر بھر مقبوضہ کشمیر کی سرزمین پر اعلانیہ پاکستانی ہونے اور پاکستان کو اپنا وطن قرار دینے کی بے مثال جرات کا مظاہرہ کرتے رہے ۔