الیکشن 2018ء کے آفٹر شاکس

 2018ء میں منعقد ہونے والے عام انتخابات کے بعد سدھایا ہوا ہما، پنکھ پھیلائے سیدھا عمران خان کے کندھے پر جا بیٹھا. اپوزیشن کا کہنا تھا کہ پولنگ اسٹیشنوں پر آر ٹی ایس کا بیٹھنا اور ہما کا عمران خان کے کندھے پر بیٹھنا دراصل ایک ہی سلسلے کی دو کڑیاں تھیں. ویسے بھی پاکستانی قوم کو انتخابی مشق اور حکومت سازی کا عمل شروع ہونے سے پہلے ہی ہوا کے رْخ سے ہی آئندہ حکومت کی تشکیل اور اس کی عمر کا اندازہ ہو جاتا ہے. 

جس صورت حال میں عمران خان پاکستان کے بائیسویں وزیراعظم کی حیثیت سے برسرِ اقتدار آئے تھے، اْس سے خوش فہمیاں پیدا ہوئیں کہ وہ بطور وزیراعظم ملک و قوم کے لئے کچھ اچھا کر گزریں گے کیونکہ صادق اور امین ہونے کی سند اْن کے ہاتھوں میں تھی، دافع بلیات کے نقش بازوؤں پر بندھے ہوئے تھے، اڑان ہوا کے دوش پر تھی، اعتماد کا گراف بلند ترین سطح پر تھا، قلم و تلوار و گفتار و للکار سے انہیں کلی طور پر لیس کیا ہوا تھا. سیاسی میدان یکساں ہموار کرکے اْن کے حوالے کیا گیا تھا. اْن کا دعویٰ بھی یہی تھا کہ وہ نوے دن کے اندر اندر کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے، کشکول ٹوڑ دیا جائے گا اور بے رحم احتساب کے ذریعے لوٹی ہوئی دولت واپس وطن لائی جائے گی. ملکی معیشت مضبوط بنیادوں پر استوار ہو گی. وزیراعظم ہاؤس یونیورسٹی میں بدل جائے گا اور گورنر ہاؤسز پارکوں کا روپ دھار لیں گے. بیروزگار لوگوں کو ایک کروڑ نوکریاں اور بے گھر لوگوں کو پچاس لاکھ گھر ملیں گے وغیرہ وغیرہ… اور ہاں دس ارب درخت لگانے کیاعلان کو تو اتنی عالمی پذیرائی نصیب ہوئی کہ اقوام متحدہ اور ورلڈ اکنامک فورم نے نہ صرف اِس منصوبے کو سراہا بلکہ جنوبی افریقہ، بنگلہ دیش اور سعودی عرب نے اس طرح کے منصوبے اپنے ممالک میں بھی شروع کرنے کے اعلانات کئے۔ 
بلا شبہ شروعات بہتر رہیں. خارجہ محاذ پر امریکہ، سعودی عرب ایران، ملائشیا اور ترکی کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشیاں پیدا ہوئیں. اسلامی دنیا کے اکٹھ پر توجہ دی گئی. کرونا کی وبا کے خلاف تشکیل کردہ پالیسی کو ایک عالم نے سراہا. صحت کارڈ کو لوگ ابھی بھی نہیں بھولے. سوشل میڈیا پر اجارہ حاصل رہا. کرپشن کے مقدمات میں اپوزیشن کے سرکردہ شخصیات کو جیلوں میں ڈالا گیا حکومت اور فوج کا ایک پیج پر ہونا وزیراعظم کو روزانہ کی بنیاد پر قوم کو بتانا پڑتا تھا. بجٹ منظور کرانا یا قانون سازی کے لئے ممبران پورے کرنا ان کی دردسری نہیں تھا. کووڈ-19 کے باوجود صنعتی شعبے میں قدرے بہتری رہی. 
فرح گوگی ایند کو کی کرپشن کے قصے عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنائے جانے کے بعد بہت تیزی سے زبان زد عام و خاص ہوئے. میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے بزدار کو ہٹانے کی تجویز سے روگردانی پر بھی عمران خان کی روایتی نیک نامی کو گزند پہنچا. توشہ خانہ سے تحائف، خاص طور پر سعودی گھڑی کے سکینڈل نے عمران خان کی اجلی شہرت کو گہنا دیا. القادر یونیورسٹی کے مبینہ سکینڈل پر عمران خان کے کٹڑ حامیوں کو بھی بیک فٹ پر جانا پڑا. خانگی معاملات بھی گھر کی دہلیز سے باہر نکل کر عدالتوں تک پہنچ گئے. اِس پر اہلِ دانش کے سامنے مختصراً یہی کہا جا سکتا ہے، "کاش عمران خان نے جمائما کو طلاق نہ دی ہوتی!!" 
وزیر اعظم کے مشیر، رزاق داود کی طرف سے چین/ سی پیک پر اور وزیر خارجہ، شاہ محمود قریشی کے سعودی عرب کے بارے میں متنازع بیان نے اِن دونوں دوست ملکوں کے ساتھ برسہا برس سے استوار گہرے تعلقات پر منفی اثرات مرتب کئے. ایک ٹیلیفون کال نہ ہونے پر امریکہ سے تعلقات میں بھی سرد مہری آئی. اْدھر مودی قیامت کی چال چل کر کشمیر ہڑپ کرنے میں کامیاب ہو گیا. یوں داخلی اور خارجی سطح پر ملک کو ان کی ناتجربہ کاری کے نتائج بھی بھگتنا پڑے. وہ اپنے لئے نت نئے مسائل پیدا کرنے کی بے پناہ صلاحیت رکھتے تھے. 
احتساب کا نعرہ بھی سیاست کی بھینٹ خوب چڑھا. اپوزیشن اور میڈیا نے اِس کا خوب مذاق اڑایا جبکہ دنیا نے اِس سے بھرپور لطف اٹھایا. نیب کا کوئی ایک کیس بھی منطقی انجام تک نہ پہنچ سکا۔ چینی، گندم، ادویات، گیس کے اربوں روپے کے سکینڈلز ہوا ہو گئے. پاکستانی روپے کی قدر میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی، مہنگائی اور قرضوں کے حجم میں ہوشربا اضافہ ہوا. تین بار وزیر خزانہ بدلا گیا۔ آئی ایم ایف کے پاس بھی حاضر ہونا پڑا. کلمہ حق کہنے کی پاداش میں بہت سے صحافیوں کو ملازمتوں سے فارغ کرکے اپنے منظورِ نظر لوگوں کو نوازا گیا. کئی صحافی اغوا ہو کر تشدد کا نشانہ بھی بنے. پارلیمنٹ کو ایک ریٹائرڈ افسر چلاتا رہا. ایک صفحے پر ہونے کا خوش کن دعویٰ بھی ایک اعلیٰ افسر کے تبادلے کی وجہ سے اپنے انجام کو پہنچ گیا. 
دبنگ، دلیر اور برتر ہونے کی سوچ انہیں ہر سوراخ میں انگلیاں ٹھونسنے پر اکساتی رہی. قاضی فائز عیسٰی کے خلاف ریفرنس بنایا گیا. چیئرمین الیکشن کمیشن کو ڈرانا دھمکانہ حکومتی پالیسی کا ایک حصہ سمجھا گیا. جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے خلاف ریفرنس بنا کر نوکری سے برخاست کروا دیا گیا. پریس پر اعلانیہ اور غیر اعلانیہ قدغنیں لگائی گئیں. اہم سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کے نام بگاڑے گئے. رانا ثناء￿  اللہ کے خلاف ہیروئین کا جھوٹا مقدمہ قائم کیا گیا. گجرات کے چوہدریوں کو چور اور ڈاکو کے خطابات بھی دیے گئے اور وقت پڑنے پر ان کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ تھالی میں رکھ کر پیش کی گئی. تحریک عدم اعتماد کو غیر آئینی طریقے سے نپٹایا گیا. موجودہ آرمی چیف کی تقرری میں رخنہ اندازی کی لا حاصل کوشش کی گئی. اپنے ہی موقف پر بار بار یو ٹرن لئے گئے. اپنے مربی کو کہ جس کی وجہ سے وہ بھان متی کے کنبے کے ساتھ برسرِ اقتدار آئے تھے، میر جعفر، جانور اور نجانے کیا کیا تحقیر آمیز ناموں سے پکارا گیا. جب بات درجہ بدرجہ بڑھتے بڑھتے 9 مئی کے سانحہ تک پہنچ گئی تو پی ٹی آئی کے پرندوں کی ایک کثیر تعداد اپنے گھونسلوں میں لوٹ گئی. حالیہ جنرل فیض حمید کی گرفتاری نے ماحول کو مزید تلخ کر دیا ہے.  
 
ایک کسان نے دوسرے کسان سے پوچھا، "تم نے اپنی بیمار بھینس کو کیا دیا تھا؟" جواب آیا، "تارپین کا تیل". اْس نے اپنی بھینس کو تارپین کا تیل پلایا تو وہ مر گئی. وہ دوسرے کسان کے پاس گیا اور شدتِ غم سے بتایا، "میری بھینس تو مر گئی." دوسرے نے جواب دیا، "میری بھی مر گئی تھی". پی ٹی آئی خاطر جمع رکھے، کسی پاکستانی کے لئے کسی بھی حکومت کا دفاع کرنا اِس لئے بھی ممکن نہیں کیونکہ ہر حکومت اپنے ساتھ اپنی بیمار بھینس لے کر آتی ہے اور ساتھ تارپین کا تیل بھی. 

ای پیپر دی نیشن