وائس چانسلرز تقرر اور چست گواہ

پنجاب میں 25 سرکاری یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز تعینات کرنے کیلئے سرچ کمیٹیوں نے امیدواروں کے انٹرویوز کے دو مراحل مکمل کر لئے ہیں۔ ان میں سپیشلائزڈ اور جنرل کیٹگری کی جامعات شامل ہیں۔ تیسرے مرحلے میں ویمن یونیورسٹیوں کے لئے امیدواروں کا انٹرویو کیا جائے گا۔ یہ آخری مرحلہ تین ستمبر سے شروع ہوگا۔ سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈاکٹر فرخ نوید نے اب تک اس معاملے میں چابک دستی دکھائی ہے۔ چونکہ ہر سرچ کمیٹی کے ایکس آفیشیو ممبر اور سیکرٹری ہیں اور وہ ایک وقت میں ایک ہی کمیٹی کیلئے دستیاب ہو سکتے ہیں۔ لہذا ہر سرچ کمیٹی کو اپنا اپنا کام مرحلہ وار کرنا پڑا۔ لگا تار انٹرویو، گفتگو کے رستم مانے جانے والے تیس تیس امیدواروں سے ایک دن میں گفتگو جان جوکھوں کا کام ہے۔ اس کیلئے سیکرٹری ایچ ای ڈی کو تھپکی ملنی چاہئے۔ وائس چانسلر اہم ترین پوسٹ سمجھی جاتی ہے۔ یونیورسٹی کی تقدیر کا چار سال کیلئے مالک ڈھونڈنا اتنا سادہ کام نہیں۔ وسیع اختیارات کے باعث وائس چانسلر کا عہدہ پرکشش بھی ہے اور حساس بھی۔ اس اہمیت کے باعث اس سیٹ پر سیاسی شخصیات کی سفارش خارج از امکان نہیں۔ جہاں سفارش کا دباؤ ہوگا وہاں متعلقہ سیکرٹری اور وزیر بھی انڈر پریشر ہوں گے۔ چونکہ ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کا کوئی وزیر نہیں لہذا  وزیر اعلیٰ ہی اس محکمہ کی وزیر بھی ہیں۔ وزیر اعلیٰ کو چھ ماہ کے اقتدار نے زیرک بنا دیا ہے۔ وہ معاملہ فہم ہو چکی ہیں۔ معاونت کیلئے تجربہ کار پرویز رشید، مریم اورنگزیب اور ساجد ظفر ڈال ان کے میمنہ میسرہ بنے رہتے ہیں۔ سرچ کمیٹی آخری مرحلے میں کام مکمل کرتی ہے تو ہر یونیورسٹی کیلئے تین تین ناموں کی سمریاں سیکرٹری ایچ ای ڈی اپنی نگرانی میں وزیر اعلیٰ تک پہنچائیں گے۔ سی ایم سیکریٹریٹ تک سمریوں کی " محفوظ" پہنچ کیلئے گمان ہے کہ روائتی روٹ اختیار نہ کیا جائے۔ مختلف دفاتر سے ہوکر وزیر اعلیٰ تک جانے والی سمری سے معلومات لیک ہو جاتی ہیں۔ اس لیکیج کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ سفارش کرنے والے 8 کلب کی دہلیز پر پورے شدو مد سے ماتھا ٹیک کرنے لگ جاتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز شریف نے عندیہ دیا ہے کہ وہ خود بھی امیدواروں کا انٹرویو کریں گی۔ یعنی ہر یونیورسٹی کی سمری میں شامل تین شخصیات سے۔ اس حساب سے 75 افراد سے گفتگو وقت تو لے گے۔ مگر اس مرحلے پر مدعی سست گواہ چست کے مصداق کچھ مفاد پرستوں نے افواہ سازی کی فیکٹریاں کھول لی ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائس چانسلرز کی فہرستیں بھی ڈال دی ہیں۔ ان چست گواہوں کا وائس چانسلرز کے ساتھ " ناجائز" تعلق ہوتا ہے۔ وی سیز کو اپنی چکنی چپڑی باتوں سے بہلا پسلا کر اور ایوان اقتدار تک اپنی رسائی کا ڈھونگ رچا کر یہ چست گواہ وائس چانسلرز سے ناجائز کام کرواتے ہیں۔ بھرتیوں میں، ٹھیکوں میں اور داخلوں میں فائدہ لیتے ہیں۔ وائس چانسلر بنیادی طور پر درس و تدریس میں رجھا ایک شریف النفس پروفیسر ہوتا ہے۔ یہ چست گواہ اسے شریف نہیں رہنے دیتے۔ اس عہدے کی چکا چوند نے کچھ ناقابل رشک واقعات بھی میڈیا کی جھولی میں ڈال دئے۔ قومی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق وائس چانسلرز تعیناتی کی خواہش رکھنے والے سینئر اساتذہ فراڈیوں کے ریڈار میں ا?ئے اور اپنی جمع پونجی لٹا بیٹھے۔ فراڈیوں نے لاہور کی ایک بڑی یونیورسٹی کے گیسٹ ہاؤس میں ڈیرے ڈالے، خود کو سیاسی اثروسوخ رکھنے والے اور بعض نے حساس ادارے کے افسروں کاروپ دھارا، امید دلائی، سلیکشن کے وعدے کئے اور "شریف" پروفیسروں سے لاکھوں روپے لوٹ کر چلتے بنے۔ لٹنے والے حیراں ہیں لب بستہ ہیں اور دل گیر ہیں۔ کسی کو بتانے کی بھی جرآت نہیں۔ بتائیں تو کیا بتائیں۔ کس منہ سے تیرا نام کوں دنیا کے سامنے۔ کچھ امیدوار جو اس وقت عارضی وائس چانسلرز بھی ہیں نے اپنے اختیارات کا استعمال کرکے اپنی لابنگ کی۔ ایک بڑی یونیورسٹی کے قائم مقام وائس چانسلر نے اکیڈمک ایسوسی ایشن کو استعمال کیا۔ بیانات دلائے۔ فیکلٹی کا اکٹھ رکھا۔ اساتذہ نے بین السطور پڑھ لیا اور اس مہم میں شامل نہ ہوئے۔ اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کو کھمبا نوچنا پڑا۔ ایک امیدوار جنہوں نے چھ ماہ قبل اپنی وی سی شپ کی چار سالہ مدت پوری کی ان کا بریف کیس بڑا مشہور ہے۔ جب بھی لاہور آتے افسروں اور لابنگ پر مامور کارندوں کی باچھیں کھل جاتیں۔ جانے ہر چکر میں اتنا گھی شکر کہاں سے لاتے تھے۔ ایک امیدوار نے تو طاقتور ملک کے سفارتکاروں کو بھی ہمنوا بنایا ہے۔ ابھی بھی وی سی ہیں مگر لاہور آنا چاہتے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی کے وی سی کیلئے گھمسان کا رن تھا۔ جال جو دیکھتا ہے وہ مچھیرا نہیں دیکھتا۔ ایک جال سی شخصیت اس کشمکش پر توبہ توبہ کرتی نظر آئی۔ کوئی بھلا مانس ایک مذہبی رہنما سے پوچھے کہ اب کی بار بھی پنجاب یونیورسٹی پہ ہی ان کی رال کیوں ٹپک رہی۔ حکومت پنجاب کی سفارش اور تجویز پر گورنر پنجاب نے وائس چانسلرز لگانے ہیں۔ اس کام میں وقت لگ جاتا ہے۔ اپنی خواہشات کو خبریں بنانے والے پترکاروں اور سست مدعیوں کے مقابلے میں مفاد پرستی کے ماہر چست گواہوں کو ٹھنڈی کر کے کھانی چاہئے۔ حکومت اور سسٹم پر اعتماد کئی بیماریوں کی شفا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...