’’بس چْپ کر دڑ وٹ جا’’

   وہ لوگ کبھی منزل پر نہیں پہنچ سکتے جو راستے میں ملنے والے لوگوں کی باتوں میں آکر اپنے ارادے بدل لیتے ہیں اور حوصلہ چھوڑ دیتے ہیں منزل ہمیشہ ان لوگوں کو ہی ملتی ہے جو اپنے دل میں ٹھان لیتے ہیں کہ ہم ایک دن منزل پر پہنچ کر رہیں گے تو پھر اس میں خواہ کوئی ہنر کا سیکھنا ہو زبان کا سیکھنا ہو یا کوئی بھی میدان جیتنا ہو بالاآخر وہ لوگ کامیاب ہو ہی جاتے ہیں حتیٰ کہ کچھ بھی ہو مگر جو اس انگریز کی طرح ہمت ہار جاتے ہیں جو کبھی پاکستان میں پنجابی سیکھنے کی غرض سے آیا تھا اور اس نے پنجابی سیکھنے کے بغیر ہی واپس جانے کا فیصلہ کیوں کیا یہ آپ کو کالم پڑھنے کے بعد پتہ چلے گا۔

  ہوا کچھ اس طرح سے کہ اس انگریز کو پنجابی سیکھنے کا بہت شوق تھا کسی نے اسے بتایا کہ چک نمبر 136 کے قدیم بزرگ بابا بخشی پنجابی کی بہترین تعلیم دیتے ہیں ان کے پاس چلے جاؤ انگریز نے بس پر سوار ہو کر 136 چک کی راہ لی بس نے اسے جس جگہ اتارا چک وہاں سے ایک گھنٹے کی پیدل مسافت پر تھا انگریز بس سے اتر کر چک نمبر 136 کی طرف پیدل چل پڑا ابھی تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ اس نے دیکھا کہ ایک شخص چارپائی کا بان بنا رہا تھا انگریز نے پوچھا oh man تم یہ کیا کرتا۔؟ اس آدمی نے جواب دیا گورا صاحب میں وان "وٹ" رہا ہوں انگریز نے حساب لگایا کہ ٹوئسٹ کرنا کو پنجابی میں "وٹ" کہتے ہیں.
انگریز اس شخص کو چھوڑ کر آگے چلا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک دکاندار اداس بیٹھا ہے انگریز نے اس سے پوچھا تم اداس کیوں بیٹھا۔؟
دکاندار بولا جناب سویر دا کج وی نئیں "وٹیا" انگریز سوچ میں پڑ گیا کہ پنجابی میں پیسے کمانے کو "وٹ" کہتے ہیں۔
خیر انگریز کچھ اور آگے چلا تو ایک شخص کو دیکھا جو پریشانی کے عالم میں آسمان کی طرف دیکھ رہا تھا. انگریز نے پوچھا کیا ہوا۔؟
وہ شخص بولا ہوا بند اے تے بڑا "وٹ" لگیا اے انگریز سوچنے لگا کہ پنجابی میں مرطوب موسم کو بھی "وٹ کہتے ہیں۔
انگریز اسے چھوڑ کر آگے چلا سامنے چودھری کا بیٹا کلف لگے کپڑے پہنے چلا آ رہا تھا انگریز اس سے گلے ملنے کے لئے آگے بڑھا تو وہ لڑکا بولا ذرا آرام نال کپڑیاں نوں "وٹ" ناں پا دینا انگریز سر پر ہاتھ پھیرنے لگا کہ شکنوں کو بھی "وٹ" ہی کہا جاتا ہے.
کچھ آگے جا کر انگریز کو ایک شخص پریشانی کے عالم میں لوٹا پکڑے کھیتوں کی طرف بھاگتا ہوا نظر آیا
انگریز نے اس سے کہا ذرا بات تو سنو وہ شخص بولا واپس آ کے سنداں ڈڈھ اچ بڑے زور دا "وٹ" پھریا اے انگریز کو پسینہ آنے لگا یعنی پنجابی میں پیٹ میں گڑ بڑ ہو تو اسے "وٹ " کہتے ہیں۔
تھوڑا آگے جانے پر انگریز کو ایک بزرگ حقہ پکڑے سامنے سے آتا دکھائی دیا۔ قریب آنے پر انگریز نے پوچھا136چک کتنی دور ہے۔؟
وہ بولا "وٹو وٹ" ٹری جاؤ، زیادہ دور نئیں اے یہ سن کر انگریز کو غش آتے آتے بچا کہ پنجابی میں راستہ بھی "وٹ" کہلاتا ہے۔
کچھ اور آگے گیا تو کیا دیکھا کہ دو آدمی آپس میں بری طرح لڑ رہے ہیں یہ گورا لڑائی چھڑانے کے لئے آگے بڑھا تو ان میں سے ایک بولا جناب تسی وچ نہ آؤ میں اج ایدھے سارے "وٹ" کڈ دیاں گا۔ انگریز پریشان ہو گیا کہ کسی کی طبیعت صاف کرنا بھی "وٹ نکالنا" ہوتا ہے انگریز نے لڑائی بند کرانے کی غرض سے دوسرے آدمی کو سمجھانے کی کوشش کی تو وہ بولا او جان دیو بادشاہوں مینوں تے آپ ایدھے تے بڑا "وٹ" اے۔ انگریز ششدر رہ گیا کہ غصہ کو بھی پنجابی میں "وٹ" کہا جاتا ہے۔ قریب ایک آدمی کھڑا لڑائی دیکھ رہا تھا وہ بولا جناب تسی اینوں لڑن دیو ایدھے نال پنگا لیا تے تہانوں وی "وٹ" کے چپیڑ کڈ مارے گا. انگریز ہکا بکا ہو کر اس آدمی کا منہ دیکھنے لگا۔
انگریز آگے چل دیا تھوڑی دور گیا تو کیا دیکھا کہ ایک شخص گم سم بیٹھا ہے۔
انگریز نے پوچھا یہ آدمی کس سوچ میں ڈوبا ہے؟
جواب ملا یہ بڑا میسنا ہے یہ دڑ "وٹ" کے بیٹھا ہے. انگریز سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا کچھ دیر بعد طبیعت کچھ بحال ہوئی تو اس نے یہ کہتے ہوئے واپسی کی راہ لی کہ
What  comprehensive language, I can never learn it in my short life.
یعنی پنجابی زبان کتنی جامعہ زبان ہے میں اسے اپنی مختصر سی زندگی میں کبھی نہیں سیکھ سکتا

ای پیپر دی نیشن