لائل پور شہر دراصل پاکستان کے صوبہ پنجاب کا قدیم شہر ہے ، لائل پور کا نام 1896 ء سے لے کر 1979 ء تک جھنگ کی تحصیل کے طور پرڈویژنل صدر مقام بننے تک لائل پور ہی تھا ، ،جو کہ 1979 ء میں سعودی فرمانروا مرحوم شاہ فیصل کے نام سے منسوب کر دیا گیا تھا، فیصل آباد صنعتی شہر ہونے کے ناطے ٹیکسٹائل کا حب بھی کہلاتا ہے ، جو کہ کراچی اور لاہور کے بعد پاکستان کا تیسرا بڑا شہر ہے ،لائل پور شہر بنیادی طور پر انگریز سرکار کے دور میں کینال کالونی کے طور پر آباد کیا گیا تھا ، اس شہر میں زراعت ، کاشت کاری ، کپاس کی اچھی پیداوار نے اسے مستقبل کی ٹیکسٹائل سٹی اور مانچسٹر آف پاکستان بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا، انگلستان کے حاکم وقت نے لائل پور کی بنیاد کیپٹن پو پہم ینگ کی واساطت سے اپنی زیر نگرانی میں شہر کا نقشہ بر طانیہ کے جھنڈے یونین فلیگ کی طرز پر بنوایا تھا ، دیکھنے میں لائل پور شہر کا ڈیزائن ایک مکعب کی شکل میںنظر آتا ہے ،جو کہ آٹھ بازاروں کے جھرمٹ میں گھنٹہ گھر لائل پور کی پہچان ہے۔
گھنٹہ گھر سے ملحقہ آراضی پر بستیاں آباد ہوئیں ، 1920 ء میںآبادی کے اضافے کے ساتھ ایک نئی رہائشی آبادی کا قیام عمل میں آیا، جہاں اس وقت گورنمنٹ کالج ہے ، بیشتر علاقوں میں وقت گزرنے کے ساتھ ان علاقوں میں پرانے اور تاریخی مکانات کے نشانات بھی ختم ہوتے جا رہے ہیں پرانی عمارتوں کو گر اکر نئی عمارتیں اور مکانات تعمیر کر دئے گئے ہیں ، ان میں ایسی عمارتیں بھی ہیں جن کی کھڑکیاں اور چبوترے تو پرانے ہیں لیکن دیواروں کو سیمنٹ پلاسٹر کر کے نئی زمانے کی شکل میں ڈھال دیا گیا ہے، کشادہ اور بڑے گھروں کی جگہ اب چھوٹی چھوٹی دکانوں اور چھوٹے مکانات نے لے لی ہیں ، گھنٹہ گھر کے آٹھ بازاروں میں ایک کالونی گوبندپورہ کے نام سے قائم ہے ، نہال سنگھ اور گوبند سنگھ کا ایک بڑا مکان تھا ، یہ مکان اب بھی موجود ہے لیکن کئی حصوں میں بٹا ہوا ہے ، اس مکان کے بیرونی حصے کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اسے اس کی اصل حالت میں محفوظ کیا ہوگا لیکن اندر سے مخدوش حالت اس تاریخی مکان کی داستان بیان کر تی ہے ۔
تقسیم سے قبل لائل پورکے دو تاریخی اسکول سنت رام اسکول اور خالصہ تھے جن کو گر کر اسلامیہ پوسٹ گریجویٹ کالج فار ویمن کا ایڈمن بلاک بنا دیا گیا ۔
برطانوی راج کے دوران 19 ویں صدی کے آغاز میں بسنے والا شہر لائل پور ایک صدی سے زائد پرانا نہیں لیکن تاریخی حوالے سے ایک مختصر عرصے میں اس کی بہت سی تاریخی عمارتیں صفحہء ہستی سے مٹ چکی ہیں ،یہاں تک کہ گھنٹہ گھر کے پتھر بھی خستہ ہو کر ریت کی شکل میں ہوا میں تحلیل ہو رہے ہیں، قیام پاکستان کے بعد سے لائل پور موجودہ فیصل آباد کی تاریخی عمارتیں حکومتوں اورمتعلقہ محکموںکی غفلت اور توجہ نہ دینے کے باعث رفتہ رفتہ صفحہء ہستی سے مٹتی چلی جا رہی ہیں ، متعلقہ محکموں اور سول سوسائٹی کی توجہ عدم توجہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم بحیثیت پاکستانی قوم اپنے تاریخی ورثے کو اہمیت نہیں دیتے ، فیصل آباد کی تاریخی عمارتیں نجی مالکان کو الاٹ کر دی گئیں جس کی وجہ سے یہ عمارتیں اپنا اصل وجود بر قرار نہ رکھ سکیں ، فائونڈری ، زرعی آلات ، کیمیکلز ، آٹو موبائلز اور دیگر صنعتوں کی ترقی اور قیام کی وجہ سے شہر کا کلچر بھی تبدیل ہو گیا ہے۔
گذشتہ ہفتے فیصل آباد میں انٹر نیشنل لائلپورہسٹری کانفرنس کا نعقاد ہوا ، جس میں مقررین نے فیصل آباد کی تاریخ اور ثقافتی ورثے کے تحفظ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ریجنل ہسٹری کی اہمیت کو اجاگر کرنے میں کانفرنس کے انعقاد کو سراہا ، کانفرنس میں ملکی اور عالمی سطح کے مقررین ، دانشوروں اور محققین نے اپنے خیا لات کا اظہار کیا ،کانفرنس کے پہلے سیشن میں لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز کے ڈاکٹر علی عثمان قاسمی، یونیورسٹی آف ہیڈن برگ جرمنی کی ڈاکٹر فلپ زیمش اور سینٹر فار سائوتھ ایشین اینڈ ہمالین سٹڈیز فرانس کی ڈاکٹر اینی کاسٹنگ نے ریجنل ہسٹری کی اہمیت کو واضح کیا ، جب کہ پہلے سیشن کی صدارت آغا خان کلچر سروسز کی ریسرچ کنسلٹنٹ ڈاکٹر کنول خالد نے کی ۔
کانفرنس میں ڈی مونٹ فورٹ یونیورسٹی برطانیہ کی ڈاکٹر پبپا وردی نے اپنا مقالہ پڑھا ، مینالوج سکول اتھرٹن کیلی فورنیا کے من ویس سنگھ ، فرانسیسی فلم ساز و محقق ڈاکٹر پائیر ر ایلن کی نصرت فتح علی خان کی زندگی پر بنائی گئی ڈاکومنٹری کی سکریننگ بھی ہوئی ، دو روز ہ جاری رہنے کے بعد اختتام پذیر ہونے والی انٹر نیشنل لائل پور ہسٹری کانفرنس میں انکشاف کیا گیا کہ ’’ لائل پور ‘‘ کا نام تبدیل کرانے کے لئے سعودی فنڈنگ بھی ہوئی تھی ۔
دنیا بھر میں ہر معاشرہ اپنی جدا گانہ روایات ، تہذیب و تمدن اور ثقافت کا حامل ہوتا ہے ، کسی بھی قوم یا ملک کی تہذیب و ثقافت اس کی تاریخ کی ترجمان ہوتی ہے ، پاکستان ورثہ اور ثقافت خطے بلکہ دنیا کی قدیم ترین تہذیب کاوارث ہے ، افسوس کہ ملک کے تاریخی ورثہ کو اہمیت ہی نہیں دی جارہی ، جب کہ ملک کے کئی تاریخی اور قدیم عمارات کی دیکھ بھال کے لئے ہر سال غیر ملکی ادارے معقول رقم مہیا کرتے ہیں ، لیکن عام تاثر یہ ہے کہ ملنے والی غیر ملکی رقم متعلقہ افسران اور اہلکاروں کے مابین خورد برد کے باعث مکمل طور پر تاریخی اور قدیم عمارتوں کی دیکھ بھال کے لئے استعمال نہیں ہو تیں، کسی بھی معاشرہ کا اپنی مخصوص روایات تہذیب وتمدن اور ثقافت اس کی پہچان ہوتی ہے ، حیف کہ ہم اپنی پہچان کھو رہے ہیں ۔
٭…٭…٭