سید علی گیلانی‘امت مسلمہ کے عظیم رہنما

ریاست جموں وکشمیر کی تاریخ حریت میں سید علی گیلانی کا نام ہمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گااس لیے کہ انہوں نے اول روز ہی سے بھارت کے استعماری عزائم کا ادراک کرتے ہوئے ہر محاذ پر آواز حق بلند کی‘قوم کو بیدار کرنے کے لیے شب و روز جدوجہد کی‘ بالخصوص نوجوانوں میں جذبہ جہاد اور شوق شہادت پیدا کرنے کے لیے اپنی گفتگو و کردار کو رول ماڈل کی حیثیت سے پیش کیا۔
اہل کشمیر کی تحریک آزادی بڑے حادثات سے دوچار ہوئی جن میں سب سے بڑاالمیہ تحریک آزادی کے ایک بڑے لیڈر اور ہیرو شیخ عبداللہ نے 1947ء میں بر صغیر کی تقسیم کے تاریخ ساز عمل کے موقع پر اپنے ذاتی رحجانات اور مصالح کی وجہ سے کشمیر کوبھارت کی گود میں ڈالنے کی سہولت کاری کر کے تاریخی جرم کا ارتکاب کیا۔بعد میں ان کے اپنے ہی دوست جواہر لعل نہرو کی طوطا چشمی کی وجہ سے وہ اقتدار سے محروم ہو کر قید کر دئیے گئے تو انہیں رائے شماری کا نعرہ یاد آگیااوربھارت کو ڈرانے یا لبھانے کے لیے مسئلہ کشمیر کو حل طلب مسئلہ قرار دیا۔اہل کشمیر اور پاکستان نے انہیں شیر کشمیر قرار دیا۔کشمیری انہیں خدائی اوتار سمجھ کر انکی اندھی تقلید کرتے رہے۔ایسے حالات میں شیخ عبداللہ کے سحر کو چیلنج کرتے ہوئے اسکے تضادات کو آشکارا کرنا اورقوم کو بھارتی استعمار اور انکے سہولت کاروں کی سازشوں سے آگاہ کرتے ہوئے ان کے ہتھکنڈوں کے توڑ کے لیے تیار کرنا جان جوکھوں کا کام تھاجوسید علی گیلانی اور ان کے رفقاء نے سرانجام دیا۔جماعت اسلامی کے اجتماعات ہوں‘عوامی جلسے ہوں یا اسمبلی فلور ہو ہر پلیٹ فارم پر انہوں نے آزادی و حریت کا نعرہ مستانہ بلند کیا‘ استعماری حربوں کے پردے چاک کیے اور نوجوانوں کو روح اقبا ل سے شناسا کرنے کے لیے قرآن‘ حدیث‘ اسلامی تاریخ اور کلام اقبال کے ذریعے عظیم الشان اور ہمہ گیر جہاد کے لیے تیار کیا۔ یہ اسی فکری انقلاب کا نتیجہ ہے کہ آج اقتدار پرست سیاسی رہنماہوں یا مسند نشین تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔بھارتی اقتدار کو کندھا دینے والے بڑے سے بڑے لیڈر کے جنازے سے زیادہ عام شہید کے جنازے میں ہزاروں اور لاکھوں لوگوں کی شرکت اوربرہان وانی جیسے عظیم کردار کو اپنا رول ماڈل قرار دینا ایک بہت بڑا نقلاب ہے جو سید علی گیلانی کی فکر‘ جرات اور استقامت نے مقبوضہ جموں وکشمیرمیں پیداکیا۔کسی مغلوب و غلام قوم کی پہلی منزل ذہنی غلامی سے آزادی ہواکرتی ہے جو اہل کشمیر بحمدللہ حاصل کر چکے ہیں۔بلا شبہ وہ حتمی آزادی کی منزل اپنی زندگی میں نہ دیکھ سکے لیکن یہ نوشتہ دیوار ہے۔ان کا برپاکردہ انقلاب اہل کشمیر کو آزادی کی منزل سے ضرور ہم کنار کرے گا۔ان شاء  اللہ۔
سید علی گیلانی اہل کشمیر کے ہی رہنما نہ تھے بلکہ وہ پاکستانی سیاست دانوں سے زیادہ نظریہ پاکستان پر یقین رکھنے والے‘ اس کے پرچارک اور اس کے محافظ تھے۔ان کی حیات میں جب بھی ان سے فون پر بات ہوئی وہ اپنے مصائب کا رونا رونے کے بجائے پاکستان کے حالات پر فکر مند رہتے تھے۔ پاکستانی حکمرانوں کی دہشت گردی کے نام پر امریکی جنگ میں شرکت کی وجہ سے ملک جب خانہ جنگی کا شکار ہوا تو گیلانی صاحب نے سخت اضطراب کا اظہار کیا۔جنرل پرویز مشرف جو آغاز میں ان کا بہت احترام کرتے تھے گیلانی صاحب کی توجہات اور گرفت کی وجہ سے ان سے ناراض ہو گئے۔بعد میں چار نکاتی فارمولے پر بھی انہوں نے برملا اختلاف کیا جس کے نتیجے میں سازش کر کے حریت کانفرنس کو تقسیم کیاگیا‘ گیلانی صاحب کا سرکاری ذرائع ابلاغ میں بائیکاٹ کر دیاگیا۔ان ساری کیفیات کے باوجود گیلانی صاحب نے رد عمل میں نہ کوئی بیان دیا اور نہ کوئی پالیسی ہی بنائی بلکہ سرینگر کے لاکھوں کے جلسے میں پاکستان کو امت مسلمہ کا قلعہ قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا عظیم عطیہ قرار دیا اور مشہور نعرہ لگایا کہ ’’ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا ہے۔‘‘ 
آج وقت کے مقتدر جنرل مشرف کو تاریخ اور عامتہ الناس کس نظر سے دیکھتے ہیں اور گیلانی صاحب کا کیا مقام ہے؟ ہر فرد تقابل و تجزیہ کر سکتا ہے‘ امت کے حقیقی ہیرو لوگوں کے دلوں میں زندہ اور محترم رہتے ہیں۔حال ہی میں سوشل میڈیا پر ان کے نام سے ایک جعلی تحریر پھیلائی گئی کہ گیلانی صاحب نے کسی اور نظریے کی بات کی ہے جو قطعاً خلاف حقیقت ہے۔اس تحریر میں بے ربط جملے اور منتشر الفاظ ہی خود جعل سازی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔گیلانی صاحب کا دل پوری امت کے لیے دھڑکتاتھا۔وہ فلسطین کا مسئلہ ہویا عراق و افغانستان میں دہشت گردی کی جنگ کے نام پر مسلمانوں پر مظالم ہوں‘ اراکان کے مسلمانوں پر برمی حکومت کے مظالم ہوں یا بھارتی استعمار کی طرف سے بھارتی مسلمانوں کا قتل عام‘مصرو بنگلہ دیش میں اسلامی تحریک کے خلاف ریاستی دہشت گردی ہو یا ناموس رسالتؐ اور یورپ میں توہین قرآن کے واقعات ہر موقع پر گیلانی صاحب امت مسلمہ کے ایک عظیم قائد اور ترجمان کی حیثیت سے سامنے آئے اور مسلم جذبات کی ترجمانی کی۔اسلام کی ہی آفاقی فکر مطلوب ہے جو مرد مومن میں ہونا چاہیے جس کا کمال اہتمام گیلانی صاحب کی شخصیت کا طرہ تھا۔
سید علی گیلانی صاحب کے ساتھ چار دہائیوں پر محیط ذاتی تعلق کی بنیاد پر میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ پر توکل رکھنے والے اللہ کے ایسے ولی تھے جسے کوئی جبر و لالچ اپنے موقف سے سرمو منحرف نہ کر سکا۔ملاقاتوں اور مشاورت میں بھی اور مواصلاتی روابط کے موقع پر بھی ہمیشہ انہیں پر امید پایا۔وہ قطعاً حالات کے جبر سے نہ کبھی مایوس ہوئے نہ مایوسی پھیلائی بلکہ ہمیشہ امید کا چراغ فروزاں رکھا۔کسی قوم کے لیڈر کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ نامساعد حالات میں حق و صداقت کی راہ پر مستقیم رہے اور عزم وہمت کے دئیے جلاتا رہے۔سید علی گیلانی ان خوبیوں کا سراپا تھے۔گیلانی صاحب علامہ صاحب کے اس شعر کی مجسم تصویر تھے  
نگاہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز 
یہی ہے رخت سفر میرکارواں کے لیے
اللہ تعالیٰ انہیں شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز فرمائے اور ان کے مجاہدانہ اوصاف کی تقلید کرنے کی توفیق عطا فرمائے اورجلد کشمیر کو آزادی کی نعمت سے ہم کنار کرے۔ آمین

ای پیپر دی نیشن