ظہیر قریشی آج پھر یاد آرہے ہیں، یاد کیا آرہے ہیں وہ میرے خیالوں اور تصورات میں زندہ و پائندہ بس رہے ہیں۔ ان کے پیکرِ جمیل اور عزمِ جلیل کے سارے ہی رنگ میرے تصور میں سمٹ کر کہکشاں بن گئے ہیں، میں اس جی دار انسان کی زندگی کے کس کس گوشے کو اپنی یادوں کے تاج محل میں سجائوں اور اس تاج محل کی روشن کرنوں کی کون کون سی ضیاء آپ کے سامنے بکھیروں، نُورو نکہت کا ایک بے کراں سمندر ان کی یادوں کو اپنے حصار میں لئے ہوئے ہے۔
ظہیر قریشی، فیصل آباد کے بطل جلیل جناب خلیق قریشی کا نقش ثانی… مجھے یاد آتا ہے ظہیر کچہری بازار کے دفتر ’’عوام‘‘ میں اپنے والد محترم کے کمرے کے ایک کونے میں گُم صُم کھڑے ہیں ان کی آنکھیں آنسوئوں سے تر ہیں۔ ان کے والد مجھے اور مصطفی صادق کو 1958ء میں یہ پیش کش کررہے ہیں کہ آپ روزنامہ ’’عوام‘‘ کی ادارتی اور انتظامی ذمہ داریاں آج ہی سنبھال لیں اور مجھے جو اعزازیہ دینا چاہیں دے دیا کریں۔ یہ ’’عوام‘‘ کی محبت میں ظہیر کی آنکھوں سے بہنے والے آنسو تھے جنہیں دیکھ کر ہم نے یہ مشفقانہ پیشکش ہزار شکریوں کے ساتھ خلیق صاحب کو لوٹادی اور ’’عوام‘‘ خلیق صاحب کی ادارت میں اس وقت تک شائع ہوتا رہا جب تک ان کا دل ان کے جسم کا ساتھ دیتا رہا، جناب حکیم سلطان احمد دائودی روایت کرتے ہیں کہ وہ خلیق صاحب کی عیادت کے لئے ان کی خدمت میں حاضر تھے اور ان کو حوصلہ دینے کے لئے یہ کہہ رہے تھے کہ خلیق صاحب آپ دل کیوں چھوڑ رہے ہیں، خلیق صاحب بسترِ مرگ پر بھی اپنی مخصوص بشاشت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ میں دل کو نہیں چھوڑ رہا وہ مجھے چھوڑ رہا ہے اور پھر دل نے خلیق صاحب کا ساتھ چھوڑ دیا اور ’’عوام‘‘ کی ادارت کی ذمہ داری ظہیر کے شانوں پر آن پڑی۔ ظہیر ’’عوام‘‘ کا ہی وارث نہ ٹھہرا، خلیق صاحب کی ساری خوبیاں ظہیر کے پیکر خاکی میں آبسیں۔ ’’عوام‘‘ کی ادارت سنبھالنے پر ظہیر لاہور میں روزنامہ ’’وفاق‘‘ کے دفتر میں آئے۔ جب حال احوال پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میرے والد کی ایک کوٹھی میری والدہ کو مل گئی ہے، پریس میرے ایک بھائی کے حصے میں آگیا ہے اور فلاں چیز فلاں بھائی کو مل گئی ہے اور مجھے انہوں نے اخبار دے دیا ہے اور میرے ساتھ کچھ ایسا معاملہ ہوا ہے جیسے کشمیر تو ہندوستان کے پاس ہے لیکن کشمیری پاکستان کے پاس اس طرح تمام اہم اثاثے تو دوسرے وارثوں کے پاس چلے گئے ہیں اور اخبار مجھے دے دیا گیا ہے، یہ اخبار کی ادارت و ملکیت کی ذمہ داریوں کے اس بوجھ اور بار کا احساس تھا جو ہلکے پھلکے انداز میں ظہیر کی زبان سے ادا ہورہا تھا۔ یہ بھی شاید اسی دن کی بات ہے جب میں نے ظہیر کو کھانے کی دعوت دی تو اس نے ایک تھیلا کھولا اس میں سے ٹفن کا ایک ڈبہ نکالا اور یہ کہہ کر بسم اللہ پڑھ کر کھانا شروع کردیا پھر کہنے لگا کہ میں چند روز قبل ایک اخبار کے ایڈیٹر کے ہاں گیا تھا جو میرے والد کے دوست تھے اور میں نے بے تکلفی کی خاطر یہ عرض کیا کہ میں ناشتہ آپ کے ساتھ ہی کروں گا۔ مگر ایڈیٹر صاحب نے یہ فقرہ کہہ کر بات ختم کردی کہ میں تو ناشتہ کرتا ہی نہیں۔ ظہیر کا کہنا تھا کہ میں نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ اپنے والد کے کسی دوست کے ہاں کھانا نہیں کھائوں گا اور اپنا کھانا ساتھ لے کر جائوں گا۔ یہ تھے ابتدائے صحافت میں ظہیر کے تیور جو آئندہ سفر میں غیرت و خودداری کے سنگ میل نصب کرنے پر کمر بستہ تھا۔
چند ماہ میں ہی فیصل آباد سے خبریں آنے لگیں کہ ’’عوام‘‘ اُفقِ صحافت پر جگنو کی طرح چمکنے لگا ہے، گُم کردہ راہ لوگوں کے لئے قیادت و رہنمائی کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ ظہیر گلی گلی، محلے محلے، مارکیٹ مارکیٹ اور بازار بازار پھر کر ’’عوام‘‘ کے مداحین کا تنکا تنکا جمع کرکے ایک نیا آشیانہ بنانے میں کامیابی کی منزلیں طے کررہا ہے۔ انہی لمحوں میں ’’عوام‘‘ کی لوح پر نبی اکرمؐ کی یہ حدیث، ’’بدبخت ہے وہ شخص جس کے شر کی وجہ سے لوگ اس کی عزت کریں‘‘ جُھومر کی طرح چمکنے لگی اور شاید یہ قبولیت کی کوئی ساعت تھی کہ ظہیر کی صحافت اس حدیث کی عملی تصویر بن گئی۔ اس نے ھادیٔ دو جہاں کے جس قول کو مشعل راہ بنایا تھا اس کی ساری زندگی اس کی تفسیر اور تعبیر ہی نہیں ظہیر کی تقدیر بھی بن گئی۔
میں نا انصافی کا مرتکب ہوں گا اگر اس حقیقت کا اظہار نہ کروں کہ ظہیر کی ادارت میں شائع ہونے والا روزنامہ ’’عوام‘‘ ایک نیا روزنامہ ’’عوام‘‘ تھا اور اس کا مدیر و ناشر بھی ایک نیا ظہیر قریشی تھا اور یہ ثمر تھا گلستانِ خلیق میں بہو بن کر آنے والی رفیعہ کے متقی و پرہیز گار اور درویش صفت والد اور میرے بزرگ میاں فضل احمد کی نیم شبی کی عبادتوں اور دعائوں کا۔ ظہیر کو ادب، ثقافت اور صحافت تو اپنے والد خلیق قریشی سے ورثہ میں ملی لیکن اس میں حد ادب، ثقاہت اور شرافت، رفیعہ کا جہیز بن کر ظاہر ہوئی اور یہ ایمان افزاء منظر بھی میں نے دیکھا، کراچی ایئرپورٹ کے اکانومی کائونٹر پر ظہیر قریشی اپنی اہلیہ کے ساتھ فیصل آباد جانے کے لئے بورڈنگ کارڈ حاصل کررہا تھا اور انسانوں کے اس ہجوم میں دونوں میاں بیوی مجھے نُور کا پیکر محسوس ہورہے تھے، خلیق قریشی کا خُلق اور میاں فضل احمد کی نسبت سے اللہ کا فضل ان پر سایہ فگن تھا۔ وہ عمرہ کی سعادت ادا کرکے کراچی پہنچے تھے۔
ایک منظر اور… الائیڈ ہسپتال کا انتہائی نگہداشت کے مریضوں کے لئے وقف ایک کمرہ، جہاں مریض کی عیادت کے لئے جانے والوں کو بھی حفاظتی اور احتیاطی نقاب چہرے پر اوڑھنا ہوتا ہے ہم ظہیر کے کمرے میں دبے پائوں داخل ہوتے ہیں تاکہ ہماری آہٹ ظہیر کے آرام میں خلل نہ ڈالے مگر یہ کیا… ظہیر جس کے زخمی پائوں اور ہاتھ دھجیوں کی صورت میں پلاسٹک میں لپٹے ہوئے ہیں چہرے پر مسکراہٹ بکھیرے وہ ہماری خیر و عافیت پوچھ رہا ہے اور ہم اس کی نازک حالت دیکھ کر کچھ بولنے سے قاصر… اس کے آگ میں جھلس کر شدید زخمی ہونے کے بعد مکمل صحت یابی تک کے مراحل ظہیر نے جس حوصلہ اور ہمت سے طے کئے یہ اسی کا کام تھا۔ سچ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی شخصیت کو ہمت و حوصلہ، دیانت و امانت، جرأت و بے باکی، راست فکری اور راست بازی کے جن اجزائے ترکیبی سے ترتیب دیا تھا ان سے وہ کندن بن گیا تھا۔
ظہیر کی ایک تصویر اور لاہور میں ایک بزرگ شخص ’’عوام‘‘ کے لئے اشتہارات کے حصول کا کام کرتے تھے۔ کام تو ان کا واجبی تھا مگر نہ جانے کس جذبہ سے ظہیر انہیں پانچ سوروپے ماہانہ دئیے جارہے تھے، یہ صاحب چند سال پہلے دماغ کی شریان پھٹنے سے انتقال کرگئے، میں نے ظہیر کو فون کر کے درخواست کی کہ وہ یہ وظیفہ مرحوم کے بیٹے کے لئے جاری رکھیں، اس کے کام میں کچھ معاونت میں بھی کردیا کروں گا۔ ظہیر نے بڑی خوش دلی سے یہ حامی بھرلی اور نہایت باقاعدگی سے طویل عرصہ تک یہ مالی ایثار کرتے رہے حتیٰ کہ اس نوجوان نے ایم بی اے کرلیا اور از خود یہ مالی امداد لینا ترک کردیا۔ ظہیر نے اس عرصہ میں اس نوجوان سے کبھی یہ تک نہ پوچھا کہ کیا وہ پانچ سوروپے ماہانہ کے اشتہارات بھی مہیا کرتا ہے یا نہیں اور نہ ہی کبھی مجھے پر اس بات کا کوئی احسان جتایا، مجھے اس نوجوان سے ہی معلوم ہوتا رہا کہ اس کے کنبہ کو یہ وظیفہ بدستور مل رہا ہے۔ (جاری)
ظہیر نے فیصل آباد کی صحافت کی عزت و وقار میں گراں قدر اضافہ کیا اور ’’عوام‘‘ کو صحیح معنوں میں ایک مقامی اخبار بنا کر اس نے ’’عوام‘‘ کو علاقائی صحافت کے لئے ایک ماڈل پیپر کی شکل دے دی۔ پورے ملک میں اس سے پہلے ’’عوام‘‘ کی طرز کا کوئی علاقائی اخبار موجود نہیں تھا جس طرح مولانا عبدالماجد دریا آبادی کی ادارت میں نکلنے والے چھوٹے آٹھ صفحات کا ’’سچ‘‘، ’’صدق‘‘ اور ’’صدق جدید‘‘ بڑے وقیع اخبار سمجھے جاتے تھے اسی طرح ظہیر نے ’’عوام‘‘ کی صورت میں ایک مثالی علاقائی اخبار کا ورثہ قومی صحافت کی جھولی میں ڈال دیا تھا۔ جس سے صحافیوں کی آئندہ نسلیں بھی استفادہ کرتی رہیں گی میں تو اسے علاقائی صحافت کا محسن سمجھتا ہوں جس نے مقامی اخبار کے حقیقی تصور کے خاکے میں رنگ بھرا اور کئی جدتیں اختیار کیں۔ مجھ جیسے لوگ جنہوں نے ان کے والد سے صحافت کا ابتدائی درس لیا، اس میدان میں ظہیر کو اپنا رہبر و رہنما ماننے لگے۔
ظہیر قریشی نے صحافت میں مہینوں اور سالوں کاسفر دنوں اور ہفتوںمیں طے کیا اور اس کا اخبار فیصل آباد کے عوام کی آواز بن گیا اس نے ساری دنیا سے قطع تعلق کرلیا وہ اور اس کا اخبار فیصل آباد کے ہوکر رہ گئے، اس نے اخباری تنظیموں اے پی این ایس اور سی پی این ای کی رکنیت کا اعزار تو برقرار رکھا لیکن وہ عملی طور پر ان سے بے تعلق ہوگیا، آخری دو برسوں میں میری درخواست پروہ کراچی اور لاہور میں منعقد ہونے والے اجلاسوں میں ضرور شریک ہوا اور میرا مان بڑھانے کا ذریعہ بنا ورنہ وہ کسی اور کے کہنے پر اس کے لئے راضی نہ ہوا تھا۔
وہ سی پی این ای کے ایک اجلاس میں شریک تھا، میں نے ارکان سے اپیل کی کہ وہ اپنا چندہ ادا کردیں، ظہیر اپنی نشست سے اٹھا اور اس نے صدرِ اجلاس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جمیل اطہر بار بار ارکان سے چندہ دینے کی اپیل کررہے ہیں ان سے کہیں کہ وہ لفظ چندہ استعمال نہ کریں اس کا کوئی اور موزوں متبادل لفظ استعمال کریں… میں نے ظہیر کی تجویز مان لی اور یہ لفظ پھر استعمال نہ کیا لیکن آج میں ظہیر سے اس کی روح کے ذریعے یہ ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ:
’’اے میرے چندا! تُو نے دنیا چھوڑنے میں اتنی جلدی کیوں کی اور رفیعہ اور ثبات کو اس آزمائش میں کیوں ڈال دیا کہ وہ تیری قائم کردہ اعلیٰ صحافتی صفات اور عظیم انسانی اوصاف کا پرچم تمہاری ہی طرح بے جگری سے تھامے رکھیں، مجھے یقین ہے کہ تم نے باری تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر پہلی دعا ثبات کے لئے ثابت قدمی کی ہی کی ہوگی اور ثبات اللہ ہی کے فضل سے خلیق و فضل و ظہیر کی روایات کا نگہبان اور پاسدار بنے گا‘‘۔ یادوں کی اس کہکشاں کا کون کون سا درخشاں پہلو آپ کے سامنے رکھوں۔ چلتے چلتے ظہیر کی ایک اور تصویر آپ کو دکھادوں ایک بڑے اخباری گروپ کے سربراہ نے یہ خواہش ظاہر کی کہ میں ظہیر کو اس بات پر آمادہ کروں کہ ’’عوام‘‘ کا ڈیکلریشن انہیں دے دے اور خود کسی اور نام سے اخبار نکال لے میں نے انہیں یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ظہیر صرف ’’عوام‘‘ کا ناشر اور مدیر و مالک ہی نہیں یہ اس کی متاع عزیز ہے، وہ ’’عوام‘‘ کا عاشق ہے اور ’’عوام‘‘ سے اپنی وابستگی ہرگز ہرگز ختم نہیں کرے گا لیکن اصرار جاری رہا اور پیہم اصرار سے مجبور ہوکر میں نے ایک روز ظہیر کو فون کرہی دیا لیکن یہ کہنے کے لئے کہ… آپ کے لئے یہ پیغام ہے فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے، مشورہ میرا یہ ہے کہ اپنے والد کی میراث… ’’عوام‘‘ کی حفاظت کرنا اس کا سودا نہ کرنا… ظہیر نے کہا، ’’جمیل صاحب! اچھا کیا آپ نے مجھے یہ پیغام پہنچانے کے ساتھ یہ مشورہ بھی دے دیا اگر آپ مجھے ’’عوام‘‘ کا نام فروخت کرنے کے لئے کہتے تو یہ آپ سے میری آخری گفتگو ہوتی۔ یہ ’’عوام‘‘ سے عشق کا ایک ادنیٰ اظہار تھا حقیقت میں وہ ’’عوام‘‘ کا عاشق تھا، ’’عوام‘‘ اس کا محبوب تھا اور فیصل آباد کے عوام بھی اس کے معشوق اور محبوب تھے جن کی ترجمانی کا حق اس نے اس شان سے ادا کیا کہ سارا فیصل آباد اپنے اس سچے عاشق کو نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لئے گلستان کالونی کی گرائونڈ میں اُمڈ آیا۔ سچ ہے کہ عاشقوں کے جنازے دھوم سے ہی اٹھتے ہیں۔ ظہیر کا ایک اور وصف اس کا اللہ پر توکل تھا یہ توکل بلڈنگ میں اس کا دفتر واقع ہونے کی کرامت تھی یا شیخ المشائخ حضرت اختر سدیدیؒ کا فیضانِ نظر لیکن یہ وصف ظہیر کی آن بھی تھا اور شان بھی۔
آخر میں بارگاہ ایزدی میں ظہیر قریشی اور احمد ثبات کی دعائوں اور مرشد حضرت اختر سدیدی جن کے فیض سے ظہیر صحافی کے ساتھ ساتھ صوفی بھی بن چکا تھا، کی خشوع و خضوع سے ایک دعا کے چند اقتباس… آئیے دست دعا اٹھائیں۔
یا رب رحیم حاسدوں کی نظر بد سے بچا
اے مولا تو جانتا ہے کہ یہ کسی سے حسد نہیں کرتے
اے تمام جہانوں کے خالق اور مالک تو ہی عزت اور ذلت دینے والا ہے
ہماری مدد فرما کہ ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں
اے باری تعالیٰ !
احمد ثبات کو اپنے حبیب کے صدقے یقین محکم اور عمل پیہم کی دولت سے مالامال رکھنا
لازوال جذبۂ خدمتِ انسانیت سے سرشار رکھنا
سکون قلبی عطا کرنا اور کمینوں کی دوستی سے محفوظ رکھنا
وقار سے زندہ رہنے کے اسباب مہیا فرمانا… آمین ثم آمین۔