آج سید علی گیلانی کی تیسری برسی ہے

تحریک آزادی کشمیر کے رہنما بابائے حریت سید علی شاہ گیلانی مرحوم کی آج تیسری برسی ہے۔ حکومت پاکستان نے ممتاز کشمیری رہنما سید علی گیلانی کی تیسری برسی پر انہیں شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ہے۔ دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے پریس بریفنگ میں کہا کہ شدید اور بے پناہ مشکلات کے باوجود کشمیری عوام کے حق خودارادیت کے لیے سید علی گیلانی کا غیر متزلزل عزم بے مثال تھا۔وہ کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدوجہد کی سچی آواز تھے۔ ہم انصاف اور آزادی کے لیے سید علی گیلانی کی زندگی بھر کی جدوجہد کو زبردست خراج تحسین اور ان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ترجمان نے کہا کہ ہم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق تنازعہ جموں و کشمیر کے منصفانہ اور پرامن حل کے لیے اپنے کشمیری بھائیوں اور بہنوں کی سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کے اپنے عزم کا اعادہ بھی کرتے ہیں۔
سید علی گیلانی مجھے رہ رہ کر یاد آرہے ہیں،وہ آج بھی کشمیری عوام اور اہل پاکستان کے دلوں میں زندہ ہیں، سید علی گیلانی کا یہ نعرہ’’ہم پاکستانی ہیں اورپاکستان ہمارا ہے‘‘ آج بھی کشمیر کے چپے چپے پر گونجتا ہے، وہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے حامی تھی، ان کی زندگی کا زیادہ حصہ جدوجہد آزادی کشمیر کیلئے گزرا۔ انہوں نے اپنی زندگی کا بڑاحصہ بھارتی جیلوں میں گزارا، سید علی گیلانی حق اور انصاف کے راستے پر ڈٹے رہے، اپنے اصولی موقف سے دست بردار نہ ہونے اور جہد مسلسل و مزاحمت کا استعارہ تھے۔بقول اقبالؒ:
نگہ بلند،سخن دل نواز،جاں پرسوز 
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے 
سید علی گیلانی نے اپنی پور ی زندگی جدوجہد آزادی کے لئے وقف کییرکھی۔قابض بھارتی حکام کی طرف سے ظلم وستم کے باوجود مسئلہ کشمیر پر اپنے اصولی موقف پرقائم رہے، کبھی اپنے اصولوں پرسمجھوتہ نہ کیا۔92سال کی پوری زندگی میںاس مرد قلندر کے پایہ استقامت میں کوئی لغزش نہ آئی اور’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘، ان کی جدو جہد اور زندگی کا مقصدبنا رہا۔
 سید علی گیلانی نے قیام پاکستان کے دو سال بعد 1950سے اپنی عملی سیاست کا آغا ز کیا اور انہیں 1962میں پہلی مرتبہ نظربند کیا گیا۔ وہ جماعت اسلامی کے چوٹی کے رہنمائوں میں سے تھے جنہوں نے متعدد بار جماعت کے امیر اور سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ انہوںنے تحریک آزادی میں سرگرام کردار ادا کرنے کیلئے 2003میںاپنی جماعت تحریک حریت جموں و کشمیر کی بنیاد رکھی۔ وہ متعدد بار کشمیرکی قانون ساز اسمبلی کے ممبر بھی رہے۔تاہم کشمیری نوجوانوں کی طرف سے مسلح جدوجہد کاآغا زہوا تو انہوںنے 1990میں اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیا۔وہ سات دہائیوں تک عملی سیاست میں اہم کردار ادا کرتے رہے۔ انہوں نے بھارتی تسلط سے کشمیر کی آزادی کیلئے انتھک جدوجہد کی اور مقبوضہ کشمیر اور بھارت کی جیلوں میں کم سے کم 20برس تک نظربند رہے۔ سیدعلی گیلانی پاکستان کے زبردست حامی تھے اور انہوں نے بھارتی تسلط سے کشمیر کی آزادی کیلئے اپنی زندگی وقف کر رکھی تھی۔ اگرچہ انہیں بہت سی مشکلات کاسامنا کرنا پڑا۔ تاہم انہوںنے کشمیر کاز کے اپنے عزم میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔
 وہ کہا کرتے تھے کہ جموں و کشمیر پر بھارت کا تسلط سراسر بلا جواز اور غیر قانونی ہے اور کشمیری عوام کواپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دینے کیلئے رائے شماری کرائی جانی چاہیے۔ سید علی گیلانی کا پاسپورٹ 1981میں بھارت مخالف سرگرمیوں کے الزام میں ضبط کرلیا گیا تھا۔ 2006میں انہیں فریضہ حج کی ادائیگی کی اجازت دی گئی تاہم ان کے بیرون جانے پر مسلسل پابندی عائد تھی۔ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کی مداخلت پر حکام نے سید علی گیلانی کا پاسپورٹ ان کے بیٹے کو واپس کر دیا۔ 2007میں کینسر کے مرض کی تشخیص کے بعد ان کی حالت خراب ہوگئی اورانہیں سرجری کا مشورہ دیا گیا تھا۔ وہ برطانیہ یا امریکہ جانا چاہتے تاہم ان کی ویزا درخواست امریکی حکومت نے مسترد کر دی اور وہ سرجری کے لیے ممبئی چلے گئے۔6 مارچ 2014 کو سید علی گیلانی سینے میں شدید انفیکشن کے باعث بیمار ہو گئے، کچھ دن بعد سرینگر میں اپنی رہائش گاہ پر واپس آئے۔
 وہ 2010 سے مسلسل گھر میں نظر بند تھے۔ مئی 2015میں انہوںنے سعودی عرب میں اپنی بیٹی سے ملنے کے لیے پاسپورٹ کے اجرا کی درخواست دی۔ بھارتی حکومت نے اسے تکنیکی وجوہات کی بنا پر رد کر دیا۔گزشتہ ایک دہائی سے مسلسل گھر میں نظربندی کی وجہ سے ان کی صحت بری طرح متاثر ہوئی اور بہت سی طبی پیچیدگیاں پیدا ہو گئیں۔سید علی گیلانی نے مقبوضہ علاقے میں بھارتی تسلط کی مخالفت کرنے پر کئی سال مختلف بھارتی جیلوں میں گزارے۔ انہیں قید کے دوران جسمانی اور ذہنی اذیتیں دی گئی۔پاکستان نے گزشتہ سال سید علی گیلانی کو کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حصول کیلئے ان کی جدوجہد کے اعتراف میں ملک کا سب سے بڑا سول اعزاز نشان پاکستان سے نوازا تھا۔
 بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی یکم ستمبر 2021ء کوسری نگر میں انتقال کر گئے۔آپ وہ رہنما تھے جن سے زندگی بھر بھارت خوف زدہ رہا بلکہ ان کی موت کے بھی بھارتی حکمران ان سے خائف رہے اور کئی دن تک ان کی قبر پر پہرہ لگائے رکھا۔اس لیے کہ وہ زندگی بھردل یزداں میں کانٹے کی طرح کھٹکتے رہے۔ جموں و کشمیر کے لوگ اور اہل پاکستان انہیں اور ان کی خدمات کو کبھی فراموش نہیں کرسکیں گے۔فیض صاحب نے کہا تھا:
مرے چارہ گر کو نوید ہو، صف دشمناں کو خبر کرو
جو وہ قرض رکھتے تھے جان پر وہ حساب آج چکا دیا
جو رکے تو کوہ گراں تھے ہم جو چلے تو جاں سے گزر گئے
رہ یار ہم نے قدم قدم تجھے یادگار بنا دیا
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن