چابی والا ملک

 آ ج کل گاڑیاں، قیمتی موبائل اور لیپ ٹاپ سبھی کے پاس ھیں جس کے پاس گاڑی ہے اسے یہ تینوں نعمتوں کی سہولت حاصل ہے، جس کے پاس گاڑی نہیں ہو اسکے پاس بھی موبائل اور لیپ ٹاپ موجود ہے اگر طالب علم ہے اور اسے سرکاری لیپ ٹاپ نہیں بھی ملا، تب بھی اسکے لٹنے کے لیے قیمتی موبائل ہی کافی ہے لوٹ مار کا بازار گرم ہے دور جدید میں یہ تینوں ضروریات زندگی ہیں آ سائش یا نمود و نمائش کے ہتھیار ہرگز نہیں، ملک ترقی پذیر ہے وسائل قدرت کی عطا میں تو ان گنت ہیں لیکن حکمرانوں نے اپنے قابلیت اور ناقص منصوبہ بندی سے انہیں عوام سے دور رکھا ہے جنوبی پنجاب ہو کہ بلوچستان ہمیشہ سے ان کا قصہ محرومی،، سپر ہٹ،، ہے آ بادی کے لحاظ سے سب کو قومی وسائل سے حصہ بھی بقدر جثہ ملتا ہے لیکن ،،گڈ گورننس کا فقدان اور،، چیک اینڈ بیلنس،، کا کوئی نام و نشان نہیں، ایسے میں مسائل میں اضافہ اور وسائل کی کمی ایک حقیقت ہے، ہمارے ہاں باصلاحیت لوگوں کی پذیرائی کی بجائے ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے دور دراز اور کم ترقی یافتہ علاقوں سے بھی ہر شعبہ زندگی کے لیے کار آ مد افراد کی کھیپ وافر مقدار میں ملتی ہے لیکن سرداری اور قبائلی نظام نے اپنی افرادی قوت کو اپنے روایتی انداز میں ناکارہ اور بیکار بنا رکھا ہے اپنے بچے ایچیسن کالج، نتھیا گلی، گھوڑا گلی، ایبٹ آ باد کے اعلی تعلیمی اداروں میں پڑھنے کے بعد بیرون ملک بھیج دیتے ہیں اور غریبوں کے بچوں کو آ گے بڑھنے نہیں دیتے ،میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا ،،حضور وجوہات اور حل بتائیں جو داستان آ پ سنا رہے ہیں اس سے سب واقف ہیں۔ 
 بولیں میرے دادا کہا کرتے تھے،، مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان دراصل ’’چابی والا ملک‘‘ ہے، ہم اور ہمارے بڑوں نے قربانیاں دے کر قائد اعظم کی قیادت میں یہ خطہ ارض حاصل کیا لیکن آ گ اور خون کی ندیاں پار کر کے آ نے والوں میں جو مفاد پرست تھے انہوں نے اپنی چالاکی اور مکاری سے اچھی، بری، نئی پرانی،، چابیاں،، آ باد کاری کمیشن آفس میں جمع کرا کے بلڈنگز، حویلیاں اور جائیدادیں الاٹ کرا لیں،کچھ مقامی لوگوں نے تالے توڑ کرھتیا لیں، باقی ہمارے جیسے شریف لوگ کیمپوں میں سجدہ شکر ادا کرتے آ زادی کے ترانے گاتے رہ گئے ،یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے میں ہندوؤں اور سکھوں کی جائیدادیں کہیں زیادہ تھیں جس جس کا داؤ لگا اس نے’’چابی‘‘ چلا لی اور اب بھی ملک چابی والوں کے ہاتھوں میں ہے، مڈل کلاس اور غریب ابھی بھی حالت جنگ میں ہے اپنی بقا کی لڑائی حق و صداقت کے اصولوں پر لڑ رہے ہیں لیکن چابی والے مادر پدر آ زاد ،جائز ناجائز کو اپنا حق جانتے ہیں اپنے ٹارگٹ ،دھونس، دھاندلی سے بھی حاصل کرتے ہیں اور جہاں سودے بازی کی ضرورت پڑتی ہے وہ بھی کر گزرتے ہیں لیکن جو لوگ ذاتیات سے بالاتر ہو کر ملک و ملت کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں ان کی راہ میں یہی’’چابی والے‘‘ رکاوٹ بن جاتے ہیں اگر دوسری جانب بڑے سرداروں اور جاگیرداروں کی تلاشی لی جائے تو وہ تقسیم ہند سے قبل ہی فرنگیوں کی،، کاسہ لیسی،، کر کے من مرضی کی جاگیریں حاصل کر چکے تھے ان دو وجوہات کی بنا پر طبقاتی کشمکش میں اضافہ ہوا ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑنے کی خواہش کا خاتمہ کرنے اور محروم طبقے کی ترقی کا خواب دکھا کر بھٹو صاحب نے 22 خاندانوں کی لڑائی لڑی لیکن بات انگنت خاندانوں تک پہنچ گئی اس سوچ اور ماحول کو آ مروں نے اپنے حق میں استعمال کیا، صدر ضیاء الحق نے جہاد افغانستان کا راستہ دکھا کر خوشحالی اور جنت کی نوید دی ،رد عمل میں کلاشنکوف کلچر اور ہیروئین مقدر بنا، دہشت گردی ہمارے ذمے پڑ گئی پھر پرویز مشرف نے جمہوریت کا راستہ روک کر ’’سب سے پہلے پاکستان،، کا نعرہ لگایا ان کی چابی بھی جس جس کو لگی اس کے وارے نیارے ہو گئے بات نہیں بنی تو لنگڑی لولی جمہوریت کا خواب پورا کرنے کے لیے منصوبہ بندی کی گئی اور،، ٹیگ،، اسلامی جمہوری مملکت کے گلے میں ریاست مدینہ کا ڈال دیا گیاگل حمید تو چلے گئے لیکن ظہیر الاسلام، پاشا، راحیل شریف اور باجوہ کے حوالے ہماری قسمت کی چابی کر گئے اور جنرل ریٹائرڈ فیض حمید نے چابی والے کھلونے کے ذریعے مملکت کے ساتھ ایسا کھلواڑ کیا جسے کبھی بلایا نہیں جا سکے گا۔ لیکن اس سارے کھیل کھلواڑ میں عالمی لٹیروں نے ڈالرز کی ’’ریل پیل،، سے مملکت کے دونوں بازوں کے۔ پی۔ کے اور بلوچستان کو توڑ پھوڑ کر پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا چند موقع پرستوں اور مفاد کے غلاموں کے ذریعے منصوبہ بندی کی گئی لیکن سیاسی اور عسکری قیادت نے تمام چابی والے کھلونوں کی سرکوبی کر کے چابی اپنے محفوظ ہاتھوں میں رکھنے کا فیصلہ کر لیا اب اس فیصلے پر کب اور کس حد تک کامیابی سے عمل در آ مد کیا جا سکے گا یہ تو آ نے والا وقت ہی بتائے گا لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ بلوچستان میں بھی’’ جنرل ڈائر،، کا فارمولا آ ج بھی چل رہا ہے سرداروں جاگیرداروں اور قبائل کے جتھہ داروں کو مختلف لوگ اپنے اپنے مفاد میں خرید و فروخت کے ذریعے قابو کر کے انکے علاقوں کے غریبوں کو مختلف بہانوں اور سبز باغ دکھا کر ریاست کے خلاف استعمال کرنے میں مصروف آ ج بھی ہیں 70 سال سے یہی فارمولا چل رہا ہے، ماضی میں اکبر بگٹی ایک آ مر کا شکار ہوئے لیکن حقیقت ہے کہ بلوچستان میں جب بھی سیاست کو سیاسی انداز میں آ گے بڑھایا گیا تو اکبر بگٹی ہی نہیں، بزنجو، مینگل ،رئیسانی اور تمام بڑے سرداروں نے اپنی خدمات غیر مشروط طور پر ریاست کے حوالے پیش کر کے اپنے آ پ کو قومی دھارے میں لا کر مملکت کی خدمت کرنے کی کوشش کی آ ج بھی محرومی کا راگ اپنی جگہ، حقیقت حال یہی ہے کہ بلوچستان میں حقیقی سیاسی رہنماؤں کی پزیرائی بے حد ضروری ہے۔
 ہمیں جان لینا چاہیے کہ یہ ایک بڑا اسلامی ملک ہی نہیں ایک ایسی بڑی ایٹمی طاقت ہے جو ہر بڑے چیلنج سے نمٹ سکتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اب چابی کا کھیل ختم کیا جائے کیونکہ یہ ’’چابی والا ملک،، ہرگز نہیں یہاں با صلاحیت لوگوں کی کمی نہیں اور انہوں نے ہر میدان میں ہر چیلنج کو قبول کر کے دنیا کو حیران کیا ہے اور آ ئندہ بھی حیران کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہے۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

ہم باز نہیں آتے!!

حرف ناتمام…زاہد نویدzahidnaveed@hotmail.com یادش بخیر …یہ زمانہ 1960 کا جس کے حوالے سے آج بات ہوگی۔ یہ دور ایوب خاں کے زوال اور بھٹو ...