حسینہ واجد کو ایئرلفٹ مل گئی‘) شہباز کو وہ بھی نہیں ملے گی‘ حافظ نعیم۔
ملک بھر میں تاجروں کی کامیاب ہڑتال کو سچ مچ جماعت اسلامی والوں نے اپنی کامیاب ہڑتال سمجھ کر ہائی جیک کرلیا ہے اور ہر جگہ جماعت والے یہی ثابت کررہے ہیں کہ یہ ہماری اپیل پر کامیاب ہڑتال تھی جبکہ تاجر برادری ہڑتال کا سہرا اپنے سر کے علاوہ کسی اورکے سر سجانا نہیں چاہتی۔ اب کہیں دو ملائوں میں مرغی حرام نہ ہو جائے۔ اب اسکے بعد دیکھ لیں جماعت کے موجودہ امیر حافظ نعیم کا لہجہ بھی بدل گیا ہے۔ وہ اب براہ راست حکومت کو للکار رہے ہیں۔ انکی اب خواہش یہ ہے کہ کوئی ایسا معجزہ ہو جائے کہ بنگلہ دیش کی طرح پاکستان میں بھی آناً فاناً لوگ سڑکوں پر نکل آئیں اور یہاں بھی حکومت کا دھڑن تختہ ہو جائے۔ یہ خواہش کب سے انکے دل میں مچل رہی ہے‘ اب تو باقاعدہ چٹکیاں لینے لگی ہے اور زبان بھی انکی خواہش کی ترجمانی کرنے لگی ہے۔ اب وہ کہہ رہے ہیں یا شہبازشریف کو دھمکا رہے ہیں کہ بنگلہ دیش میں تو وہاں کی وزیراعظم حسینہ واجد کو ایئرلفٹ مل گئی‘ شہبازشریف کو تو یہ سہولت بھی میسر نہیں ہوگی۔ یعنی انہیں بچانے کوئی نہیں آئیگا۔ اب کیا وزیراعظم امیر جماعت اسلامی کی اس دھمکی کے بعد ایئرلفٹ یا سی لفٹ ورنہ روڈ لفٹ لینے کے طریقے تلاش کرنا شروع ہو جائیں تاکہ بوقت ضرورت انہیں ہیلی کاپٹر‘ بحری جہاز یا کسی کنٹینر میں راہ فرار اختیار کی سہولت میسر ہو سکے۔ حالانکہ فی الحال اپوزیشن جماعتوں کا ایسا کوئی بھی چمتکاری منصوبہ یا خواب پورا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ باقی کل کیا ہوگا‘ اس کا علم خدا کو ہی ہے۔ ورنہ کئی جماعتیں تو بڑے میاں کے ملک سے فرار ہونے اور وزیراعظم پر جان لیوا حملوں کی پیشین گوئیوں کو خوب اچھال رہے ہیں جو نامعلوم کون سے نجومیوں نے کرکے اپوزیشن والوں کا دل پشوری کرنے کی کوشش کی ہے۔ شاید حافظ نعیم صاحب ایسی ہی خوش کن افسانوی باتوں کے زیراثر حکومت کے جانے کا کہہ رہے ہیں مگر کیا اسکے بعد انکے یا کسی اور کے کچھ ہاتھ آئیگا یا وہ یوں ہی خالی ہاتھ رہ جائیں گے۔
٭…٭…٭
روپوش رہنما ڈریں نہیں‘ باہر نکلیں‘ گرفتاریاں دیں‘ بانی پی ٹی آئی۔
بانی پی ٹی آئی نے قید کے دوران بالآخر سخت فیصلے کرنے کی تھان لی ہے اور گھبرا گھبرا کر چلنے والے سہمے ہوئے اپنی پارٹی کے چھپے ہوئے رہنمائوں کو اپنے ٹھکانوں سے باہر نکل کر عوام کے سامنے آنے کا حکم دیدیا ہے۔ مگر کیا گرفتاری کے ڈر سے یہ روپوش لیڈر اب اپنے بلوں سے باہر آکر مردانہ وار گرفتاریاں دینگے۔ یہ ایک کافی مہنگا اور دل گردے والا سودا ہے۔ پہلے کی بات اور تھی‘ حالات اس نہج پر نہیں پہنچے تھے‘ اب تو ’’جس کو ہو جان و دل عزیز‘ تیری گلی وہ جائے کیوں‘‘۔ جو لوگ پہلے ہی بند گلی میں پھنسے ہیں‘ کیا وہ سامنے آنے کی جرأت یا حماقت کر پائیں گے یا نہیں۔ ویسے حکم تو مرشد کا ہے‘ اس پہ دل و جان سے عمل کرنا پڑتا ہے۔ کارکن تو نکلتے ہی ہیں۔‘ اب لیڈروں کی باری ہے۔ بانی نے بھی کہا ہے کہ اب ڈرنے کا وقت نہیں‘ (شاید یہ مرنے کا ہے‘ کہنا بھول گئے) ویسے بھی سیاست میں جو ڈر گیا‘ وہ مر گیا۔ اب وہ بے چارے سہولت کار بھی رگڑے میں نہ آجائیں جنہوں نے انہیں پناہ دی تھی۔ چلو اس طرح جو الزام لگاتے تھے کہ یہ سورما افغانستان میں جا چھپے ہیں۔ انکے سامنے آنے سے انکے غبارے سے بھی ہوا نکل جائیگی۔ جو جہاں ہے باہر آجائے گا۔ عجیب بات ہے‘ بانی کہتے تھے میں نہیں بلاتا یا کہتا‘ رہنما اور کارکن عوام کے ساتھ ازخود میرے لئے باہر نکلتے ہیں اس لئے میں انکے توڑ پھوڑ سے بری الذمہ ہوں۔ اب روپوش رہنما بھی سامنے آکر مخالفین سے دو دو ہاتھ کرنے کی تیاری کریں یہی انکے مرشد کا حکم ہے جس کی حکم عدولی ممکن نہیں۔ ان کا ہر حکم حرف آخر سمجھا جاتا ہے جو نہ سمجھے وہ راندۂ درگاہ قرار پاتا ہے۔ انہوں نے اپنی قید کی حالت بھی بیان کرکے جذبات کو مہمیز تو لگا دی ہے۔ لگتا ہے انہیں فیض صاحب کی شاعری سے دلچسپی نہیں ورنہ کہہ سکتے تھے:
مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں
جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے
٭…٭…٭
بانی پی ٹی آئی کا آکسفورڈ چانسلر بننے کی راہ میں رکاوٹیں آگئیں۔
تقدیر کے فیصلوں پر کسی کا اختیار کہاں؟ ہم سوچتے کیا ہیں اور کاتب تقدیر نے لکھا کیا ہوتا ہے۔ معلوم نہیں اڈیالہ جیل میں قید کپتان نے کسی سے مشورہ لینے کا فیصلہ کیا۔ اب یہ کوئی پاکستانی جامعہ تو نہیں کہ جسے چاہیں وائس چانسلر لگا دیں۔ وہاں بہترین دماغ اور اعلیٰ تعلیمی شخصیات کو میرٹ پر چنا جاتا ہے۔ صرف کھیل کی بنیاد پر وزیراعظم یا چانسلر بنانے کا خواب کوئی نہیں دیکھتا۔ ویسے بھی سیاسی آدمی کیلئے یہ کام اور بھی مشکل ہوتا ہے کیونکہ ہزاروں دوست اور ہزاروں دشمن اردگرد موجود ہوتے ہیں۔ سو اب بھی وہی ہوا۔ لندن میں آکسفورڈ یونیورسٹی والوں کو کپتان کیخلاف بڑی تعداد میں شکایات آرہی ہیں۔ انہیں طالبان و دہشت گردوں کا ہمدرد بتایا جا رہا ہے۔ خواتین کے لباس کے حوالے سے تنقید کو اچھالا جا رہا ہے۔ برطانوی اخبار نے انہیں ’’ڈس گریس وزیراعظم‘‘ لکھا ہے۔ ان کیخلاف عدالت میں پٹیشن بھی دائر کر دی گئی ہے اور تو اور آکسفورڈ کے باہر ان کیخلاف مظاہرہ بھی ہوا ہے جس میں پاکستانی بھی شامل تھے۔ اب یہ بیرون ملک احتجاج اور سیاسی شخصیات کی توہین کے طریقے کو خود پی ٹی آئی نے فروغ دیا ہے۔ اس لئے اب برداشت کرنا ہوگا۔ لگتا ہے کہ کپتان کیلئے یہ عہدہ جو اگرچہ صرف ایک علامتی عہدہ ہے مگر پھر بھی اب یہ ان کیلئے ایک خواب پریشان بن رہا ہے۔ دیکھتے ہیں‘ برطانیہ میں موجود ان کا بااثر سابقہ سسرالی خاندان گولڈ سمتھ والے اس سلسلے میں انکی کیا مدد کر سکتا ہے۔ انکے بیٹے اور سابقہ اہلیہ بھی وہاں مقیم ہیں‘ خدا جانے سیاسی پنڈت اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔ ویسے بھی آج کل ان کا کاروبار مندے کا شکار ہے۔ حالانکہ اس وقت رونق بازار کیلئے ضروری ہے کہ گرمی بازار کا ماحول بنایا جائے۔ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں کیلئے یہ اچھا مقابلہ ثابت ہوگا اور دونوں کی مہارت کا پتہ چلے گا۔
٭…٭…٭
کم قیمت بجلی یا سولر سسٹم‘ جو بھی میسر ہو‘ عوام کو مہیا کرکے سہولت دیں۔
اب چاہے سولر لگائیں یا بجلی کے ریٹ میں کمی لائیں‘ عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑیگا ورنہ اگر دمادم مست قلندر والا ماحول پیدا ہو گیا تو یہ نجی بجلی گھر جو عوام کا خون چوس چوس کر پھلتے پھولتے جا رہے ہیں‘ رہیں گے نہ ان کو بچانے والے۔ اور سب ’’ٹھاٹھ پڑا رہ جائیگا‘ جب لاد چلے گا پنجارا‘‘ والا منظر سب کے سامنے ہوگا۔ اگر کوئی صوبہ کسی بھی عنوان سے بجلی بلوں میں رعایت دے رہا ہے تو دوسرے صوبوں میں بھی اگر گنجائش نکلتی ہے تو وہ بھی ویسا ہی کریں۔ صرف اس لئے مخالفت نہیں کی جانی چاہیے کہ دوسرے ہمارے مخالف ہیں۔ عوام کو ریلیف دینا سب کی ذمہ داری ہے‘ ویسے بھی سولر سسٹم سے جہاں کام چلتا ہے‘ وہ بھی دیں۔ جو افورڈ نہیں کر سکتے‘ انہیں قسطوں پر دیں۔ اس طرح بھی بجلی کی کھپت کم ہونے سے اسکی رسد بہتر ہوگی اور اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جب بجلی کے نرخ بھی مناسب ہونگے تو لوگ استعمال میں بھی اضافہ کر دیں گے۔ یوں حساب برابر ہی رہے گا۔ اگر ہمارے بیدار مغز حکمرانوں نے کالاباغ سمیت کئی ڈیم بنائے ہوتے تو بجلی کا مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا۔ نہ سیلابی پانی اتنی تباہی لاتا۔ یہ ممکن نہیں تھا تو ہوا اور سورج کی توانائی سے دنیا بھر میں بجلی پیدا ہوتی ہے‘ اسی سسٹم کو کام میں لایا جاتا تو بھی آج ہماری یہ حالت نہ ہوتی کہ لوگ تنگ آمد بجنگ آمد پر آچکے ہیں اور حکومتوں پر لرزا طاری ہے۔ اس طرح ندی نالوں پر بھی ٹربائن لگا کر بجلی پیدا کی جارہی ہے دنیا بھر میں ہم کیوں نہیں کرتے۔ اسکے بھی بے شمار مواقع ہیں۔ اس لئے آئی پی پیز کا پیٹ اور تجوریاں بھرنے کی بجائے عوام کا پیٹ اور جیب بھرنے پر توجہ دی جائے جنہوں نے ووٹ بھی دینا ہوتا ہے۔
٭…٭…٭
اتوار‘ 25 صفر المظفر1446ھ ‘ یکم ستمبر 2024ء
Sep 01, 2024