اقوام متحدہ کے انسانی امور سے متعلقہ ادارے ’اوچا‘ کی قائم مقام سربراہ جوائس مسویا نے انسانی حقوق اور انسانی اقدار کے دعویدار ممالک اور اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ کے معاملے پر آپ کی انسانیت اب کہاں چلی گئی؟ آزادی، انسانی احترام، برابری، انسانی جان، توقیر اور انسانی حقوق کا ڈھول بجانے والے کہاں کھو گئے؟ غزہ کے شہری بھوکے اور پیاسے ہیں، بیمار اور لاچار ہیں لیکن حالات یہ ہیں کہ ہم اس وقت وہاں 24 گھنٹوں سے زیادہ کی خوراک اور دیگر امدادی سامان کی فراہمی کا منصوبہ بنانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کی انتہا ہو چکی ہے۔ اسرائیلی جارحیت کو 10 ماہ ہو چکے ہیں۔ اس دوران 40 ہزار سے زائد فلسطینیوں کو شہید کیا جا چکا ہے۔ زخمی ہونے والے اس سے دو گنا جبکہ بے گھر ہونے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ فلسطینی بچے، خواتین، بوڑھے اور مریض اپنے گھروں تو کیا پناہ گاہوں حتیٰ کہ ہسپتالوں اور سکولوں تک میں بھی محفوظ نہیں ہیں۔ ادھر، اسرائیل کی سینہ زوری ہے کہ اقوام متحدہ کی جنگ بندی کی قراردادوں پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس سفاکیت اور بربریت میں امریکا جیسے ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اوچا کی سربراہ کی طرف سے جو کچھ کہا گیا ہے وہ اسرائیلی مظالم کے خلاف کردار ادا نہ کرنے والے اداروں اور قوتوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ جوائس مسویا جس ادارے کی قائم مقام سربراہ ہیں اس کا یو این او کی فیصلہ سازی میں تو کوئی کردار نہیں ہے لیکن ان کی طرف سے اقوام متحدہ کو بھی آئینہ دکھایا گیا اور ذمہ داری یاد کروائی گئی ہے اور عالمی طاقتوں کا ضمیر بھی جھنجوڑا گیا ہے۔ ادھر، یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزف بوریل کا کہنا ہے کہ ہمیں غزہ کے لوگوں کی جتنی مدد کرنی چاہیے تھی ہم وہ نہیں کر پائے۔ اسرائیلی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے جوزف بوریل نے غزہ کے لوگوں کی خاطر خواہ مدد نہ کرنے پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ غزہ پر ہم نے بہترین رد عمل نہیں دیا۔ بوریل بھی اس سلسلے میں اپنی بے بسی کا ہی اظہار کر رہے ہیں۔ جہاں تک محض بیانات کی شکل میں آنے والے رد عمل کا تعلق ہے تو مسلم ممالک کی طرف سے بھی شدید رد عمل سامنے آتا رہا ہے۔ بیان بازی ایک دوسرے سے بڑھ کے کی جاتی رہی ہے۔ اگر بیانات ہی سے مسائل حل ہونے ہوتے تو فلسطین اور کشمیر کے مسائل کب کے حل ہو گئے ہوتے۔ اسرائیل کو نکیل صرف عملی اقدامات ہی سے ڈالی جا سکتی ہے۔ اس کے لیے اولین کردار مسلم ممالک کا ہے۔ مسلم ممالک کی نمائندہ تنظیم او ائی سی کو متحرک کر کے ہی اسرائیل کو سبق سکھایا جا سکتا ہے۔ دوسری صورت میں انسانی المیہ جو بدترین صورت اختیار کر چکا ہے وہ مزید ہولناک ہوتا چلا جائے گا۔ کیا عالمی طاقتیں خصوصی طور پر او ائی سی آخری فلسطینی کے اسرائیلی سفاکیت اور بربریت کا نشانہ بننے کا انتظار کررہی ہیں؟