وفاقی حکومت کی جانب سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی حمایت حاصل کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور ایک ہفتے میں مولانا فضل الرحمن سے دو بڑی ملاقاتیں ہوئی ہیں۔ اس سلسلے میں پہلی ملاقات گزشتہ ہفتے کے روز صدر مملکت آصف علی زرداری سے ہوئی تھی جس کے بعد اب وزیراعظم محمد شہباز شریف نے بھی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ وفاقی حکومت نے ملک کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مولانا فضل الرحمن سے مدد اور حمایت طلب کر لی ہے۔ ان ملاقاتوں کا مقصد مولانا فضل الرحمن کی ناراضی دور کرنا اور انھیں منانا ہے، صدر اور وزیراعظم نے یقین دلایا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے تحفظات دور کیے جائیں گے۔
ملاقات کے سلسلے میں شہباز شریف جمعہ کو مولانا فضل الرحمن کی رہائش پر گئے اور ان سے ملاقات کی۔ ملاقات میں ملک کی مجموعی و سیاسی صورتحال پر بات چیت کی گئی۔ اس موقع پر شہباز شریف نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن ایک جمہوری سوچ رکھنے والے زیرک سیاستدان ہیں۔ ملاقات کے دوران مولانا فضل الرحمن سے درخواست کی گئی کہ وہ ہمیشہ کی طرح جمہوری سیاسی سوچ کے ساتھ آگے چلیں۔ وزیراعظم نے کہا، انھیں یقین ہے کہ مولانا فضل الرحمن انتشاری ٹولے کی سیاست کو مسترد کریں گے۔ وفاقی حکومت پوری کوشش کرے گی کہ مولانا فضل الرحمن کے تحفظات دور ہوں۔
ادھر، وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ وزیراعظم کی مولانا فضل الرحمن سے ملاقات میں دو تہائی اکثریت کے معاملے پر بات نہیں ہوئی۔ ہماری مولانا سے سیاست اور معیشت پر بات ہوئی ہے اور ہماری ملاقاتیں جاری رہیں گی۔ مولانا سے احترام کا رشتہ ہے، ہمارا ان سے رابطہ رہتا ہے۔ مولانا سے ہمارا ایک فطری اتحاد ہے۔ اگر کوئی اپوزیشن بنچوں پر بیٹھا ہو تو تعلق ختم نہیں ہو جاتا۔ ہم نے مولانا سے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ بیٹھے اچھے لگتے ہیں۔ عطااللہ تارڑ نے مزید کہا کہ مجھے تو نمبر گیم بھی نہیں آتا کیونکہ اس پر کوئی بات ہی نہیں ہو رہی۔ تمام ججز کا احترام کرتے ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں کہ کوئی کسی کا راستہ روکنا چاہتا ہے۔ پی ٹی آئی میں قبضے کی جنگ چل رہی ہے۔ پی ٹی آئی شدید مشکلات کا شکار ہے۔ گزشتہ روز بھی پی ٹی آئی کا انقلاب آنا تھا شاید بارش کی وجہ سے نہیں آیا۔
دوسری جانب، پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما بیرسٹر گوہر نے کہا ہے کہ آزاد عدلیہ کے بارے میں ہمارا دو ٹوک موقف ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا، مجھے امید ہے کہ مولانا فضل الرحمن ہمارے ساتھ ہی رہیں گے، مولانا کے ساتھ پہلے دھوکا ہوچکا ہے، ہمارے تمام ارکان اسمبلی بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس مولانا فضل الرحمن کودینے کے لیے کچھ نہیں ہے، مولانا کے ساتھ میٹنگ میں سینیٹ کے حوالے سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی، یہ حکومت چند ماہ کی مہمان ہے، ہم نے ترمیم کوقومی اسمبلی میں چیلنج کیا ہوا ہے، ہماری پٹیشن کو نہیں سنا جارہا۔ بیرسٹرگوہر نے مزید کہا کہ نواز شریف، شہبازشریف نہیں چاہتے عدلیہ آزاد ہو، ہمارا دوٹوک موقف ہے عدلیہ میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، حکومت آئین میں ترمیم کرکے ججزکوٹرانسفرکرنے کا سوچ رہی تھی، ہمارے ارکان ہمارے ساتھ ہیں،ایک سیٹ کا فرق بھی بہت ہوتا ہے۔ کچھ لوگ تحریک انصاف اوراسٹیبلشمنٹ کولڑانا چاہتے ہیں، ہم سسٹم میں رہتے ہوئے جدوجہد کررہے ہیں، ہم چاہتے ہیں ہرصورت تلخی ختم ہونی چاہیے۔
مولانا فضل الرحمن سے حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف کے لوگ جس طرح مل رہے ہیں اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ اس وقت سیاسی رسہ کشی اپنے عروج پر ہے اور دونوں دھڑوں کی یہی خواہش ہے کہ وہ مقتدر حلقوں کو اپنے طاقتور ہونے کا یقین دلا سکیں۔ اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمن کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے اسی لیے ان سے ملاقاتیں کر کے انھیں اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مولانا خود بھی یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی قدر و قیمت کیا ہے، لہٰذا وہ بھی فریقین سے رابطے اور ملاقاتیں کر کے اپنی اہمیت کو مزید اجاگر کررہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ واضح ہو جائے گا کہ مولانا کس کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال رہے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مولانا اپنا وزن اسی کے پلڑے میں ڈالیں گے جو مقتدر حلقوں کے لیے زیادہ قابلِ قبول ہوگا۔
سیاسی جوڑ توڑ پاکستان میں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ ماضی میں شاید ہی کوئی ایسا وقت گزرا ہو جب پاکستان میں جوڑ توڑ کی سیاست مسلسل جاری نہ رہی ہو۔ یہاں ہر جماعت کی سیاسی قیادت بیک وقت اس کوشش میں رہتی ہے کہ وہ مقتدر حلقوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلا کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ سکے۔ اسی لیے یہاں جمہوری روایات مستحکم نہیں ہو پائیں اور موجودہ صورتحال میں ان کے مستحکم ہونے کے امکانات بھی دکھائی نہیں دیتے۔ اگر سیاسی قیادت مقتدر حلقوں کی بجائے ملک اور عوام کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے جمہوری اصولوں پر عمل کرے اور ملک اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے اقدامات کرے تو نہ صرف بہت سے مسائل فوری طور پر حل ہوسکتے ہیں بلکہ سیاسی قیادت کو عوام کی طرف سے ایسی حمایت بھی حاصل ہوسکتی ہے کہ وہ مستقبل میں مقتدر حلقوں کی دست نگر نہیں رہے گی۔