لو جی! جج اور جرنلسٹ ہی بالآخر قوم کے معیار پر پورا اترے اور مرکز میں ایک سابق جج کو نگران وزیراعظم مقرر کر دیا گیا اور پنجاب میں وزیراعلیٰ کے لئے اپوزیشن اور حکومت کے متفقہ امیدوار ممتاز صحافی نجم سیٹھی کو مقرر کر لیا گیا۔ صحافی حلقوں کے لئے یہ اعزاز یقیناً ہو گا کہ کسی صحافی کو وزیر اعلیٰ اور وہ بھی نگران وزیراعلیٰ بنایا گیا ہے۔ صحافت سے تو اگرچہ حنیف رامے مرحوم کا بھی تعلق تھا مگر وہ باقاعدہ سیاستدان بھی تھے لیکن نجم سیٹھی تو اول آخر صحافی ہیں۔ ان کے تجزئیے کسی حد تک غیر جانبدار ہوتے ہیں۔ بعض احباب کا خیال ہے کہ نجم سیٹھی کو صدر آصف زرداری کا خصوصی اعتماد حاصل ہے اور سیٹھی صاحب زرداری کے قریبی دوستوں میں بھی شمار ہوتے ہیں اور یوں مرکز اور پنجاب دونوں میں آصف زرداری کی پسندیدہ شخصیات نگران اقتدار سنبھال چکی ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو مسلم لیگ نون نگران حکومتوں میں مشاورت کے باوجود صدر زرداری سے سیاسی طور پر مات کھا گئی ہے۔ حالانکہ نجم سیٹھی اگر مسلم لیگ نون کو قابل قبول ہوتے ہیں تو اس میں بھی ”حکمت“ ہو سکتی ہے۔ حاجی غلام احمد بلور کا بیان بھی چھپ چکا ہے کہ مسلم لیگ نون پنجاب میں اپنی پسند کا وزیر اعلیٰ مقرر کرنے پر بضد تھی۔ اب اس حوالے سے تو قیاس یہی ہے کہ نجم سیٹھی مسلم لیگ نون کی گڈ بکس میں تھے تبھی تو خصوصی کمیٹی کے مسلم لیگی اراکین نے نجم سیٹھی کے نام پر ”قبول ہے“ کی آواز لگائی ہے۔ نجم سیٹھی ناپ تول کر بات کرنے کے عادی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ ہر حال میں شفاف الیکشن کے لئے ممد و معاون ثابت ہوں گے۔ اگر وہ اپنے فرائض خوش اسلوبی سے ادا نہ کر سکے تو گھر لوٹ جائیں گے۔
نجم سیٹھی پرویز مشرف کے دور میں بننے والی نگران حکومت میں بھی وزیر رہے ہیں۔ اپنی وزارت کے دوران انہوں نے بہت کام کیا مگر محدود وقت میں آخر وہ کتنی فائلیں نمٹا سکتے تھے۔ اب وزیر اعلیٰ کے طور پر بھی انہیں بہت کچھ کرنا پڑے گا۔ انہوں نے اپنی مختصر سی 4 رکنی کابینہ تشکیل دی ہے۔ یہ بھی نجم سیٹھی کے لئے ایک کریڈٹ کی بات ہے کہ کابینہ میں صاف ستھرے کردار کے حامل لوگ شامل کئے گئے ہیں۔ الیکشن کے انعقاد میں تو وہ اپنے حصے کا کام کریں گے لیکن بہت سے عام آدمی کے مسائل اور رکے ہوئے کئی کام میرٹ کی سطح پر ہونے کی امید بھی کی جا سکتی کہ آخر صحافی سیاستدان سے زیادہ عوام کی بات کرتا ہے اور سیاستدان تو عوام کو صرف خواب دکھاتے ہیں محض نعرے لگاتے ہیں جبکہ صحافی معاشرتی ناہمواریوں کے حوالے سے حکومتوں کو آئینہ دکھاتے ہیں اب ایک صحافی خود اس نشست پر بھلے محدود وقت کے لئے آیا ہے تو کم از کم پہلے سے کچھ تو بہتری دکھائی دینی چاہئے۔ چیف الیکشن کمشنر فخرو بھائی اور نگران وزیراعظم کی عمر رسیدگی پر بھی بہت سے تبصرے ہو رہے ہیں مگر عمر سے تجربہ بھی آتا ہے۔ امید کرنی چاہئے کہ ضمنی انتخابات کی روایات کو دوہرایا نہیں جائے گا۔ سب جانتے ہیں کہ ضمنی الیکشن میں اسلحہ عام دکھائی دیا، فائرنگ کے واقعات کے ساتھ دھونس دھاندلی کی شکایات بھی منظر عام پر آئیں حالانکہ چیف الیکشن کمشنر فخرالدین ہی تھے مگر توقع ہے کہ 11 مئی کے انتخابات میں یہ سب کچھ نہیں ہو گا اور اس سے قبل ہی نادہندگان، چور لٹیروں اور بدمعاشوں کو الیکشن سے دور کر دیا جائے گا اور اس سلسلے میں کسی سے بھی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ ویسے کیا ہی اچھا ہوتا کہ نجم سیٹھی جیسے قد کاٹھ کے کسی صحافی کو ہی نگران وزیراعظم بھی بنا دیا جاتا۔ متوازن تجزیوں کے حوالے سے دیکھا جائے تو جناب مجیب الرحمن شامی بھی ہمیشہ کھری بات کرتے ہیں اور انہیں بھی غیر جانبدار صحافی اور دانشور قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہم ذاتی طور پر صحافیوں کو غیر جانبدار رہنے کے حق میں ہیں۔ صحافیوں کو ہمیشہ عوام کو حق سچ کے ساتھ دکھائی دینا چاہئے اور سیاستدانوں کی کاسہ لیسی کرتے نظر نہیں آنا چاہئے مگر کیا کیا جائے صحافی اینکر پرسن اور کالم نگار بھی انسان ہیں۔ اب تو عام قاری کو سب علم ہے کہ کون سا کالم نگار کس پارٹی کی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ دھڑے بندیاں اگر ختم ہو جائیں تو ملک میں ایک تگڑی صحافت جنم لے سکتی ہے اور ایسا غیر جانبدار اور آزاد میڈیا بھی قوم کے لئے نعمت سے کم نہیں ہوتا مگر کیا کیا جائے کوئی بھی گھوڑا گھاس سے دوستی کرنے پر ہرگز تیار نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔