قرآن مقدس اور احادیث مبارکہ کے مطالعے کی روشنی میں اعمال کی مقبولیت کی کچھ علامات واضح ہوتی ہیں۔(۱)اعمال باقاعدہ نیّت کرکے انجام دیے گئے ہوں ۔ان کے پیچھے کرنے والے کاشعور ، نیّت اور ارادہ موجود ہو محض اتفاق سے یا بے سوچے سمجھے سرزدنہ ہوگئے ہوں ۔(۲)اعمال کی انجام دہی کرتے ہوئے کوئی ذاتی غرض ، نفسانی خواہش شامل حال نہ ہو ۔ بلکہ تمام اعمال اللہ رب العزت کی رضا ء کے لیے انجام دیے گئے ہوں اور ان کے پیچھے اللہ کے حکم کی اطاعت کا جذبہء صادقہ کارفرما ہو ۔ بندہ یہ شعور رکھتا ہو کہ یہ اللہ کا حکم ہے اوراس کا بندہ ہونے کی حیثیت سے میرا فرض ہے کہ میں اس کو تسلیم کروں اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کروں تاکہ وہ مجھ سے راضی ہوجائے،اور میرا شمار اس کے فرماں بردار بندوں میں ہونے لگے (۳) ان اعمال میں ریاکاری اور دکھاوے کا عمل دخل نہ ہو ۔ جو عمل مخلوق میں اپنے آپ کو پاک باز ،عابد ،زاہد یاسخی کی حیثیت سے مشہور ہونے کے لیے کیاجائے وہ نیکی کے زمرے سے خارج ہو جاتا ہے بلکہ خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں یہ عمل دنیاو آخرت میں خسارے کا باعث نہ بن جائے ۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات میں بندوں کو اپنے دل میں خلوص اور خیر خواہی پیدا کرنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ اگر دل میں خلوص پیدا ہوجائے تو نیّت بھی درست ہوجاتی ہے ،عمل بھی اللہ کے لیے خالص ہوجاتاہے اور ریاکاری کا امکان بھی ختم ہوجاتاہے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ روایت فرماتے ہیں حضوراکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : الدین النصیحۃدین تو بس خیر خواہی کانام ہے ۔ حدیث پاک کے مبارک الفاظ میں الدین اورالنصیحۃ، دونوں کو معرفہ ( اسم خاص) ذکر کیاگیاہے ۔ مبتداء اور خبر دونوں معرفہ ہوں تو عربی اسلوب کلام کے مطابق اس میں ’’ حصرـــ‘ ‘کا معنی پایا جاتا ہے ۔ یعنی اچھی طرح سمجھ لو کہ دین توصرف خلوص اور نصیحت کانام ہے ۔ اگر کسی کے دل میں اخلاص نہیں ہے ، دوسروں کے لیے خلوص و محبت نہیں ہے ۔ وہ اوروں کا بھلا نہیں چاہتا ، اسے مخلوق کی خیر خواہی سے کوئی سروکار نہیں ہے تو وہ لاکھ خود کو دین دار سمجھے اور خود کو بڑا پرہیز گار گردانے وہ دین کی روح سے ناآشناہے۔النصیحۃ (نصح ، ینصح ، نصوحاً ) کا لغوی معنی ہے سوزن (سوئی) کے ساتھ سیناپھٹی ہوئی چیز کو جوڑنااورملانا ۔ نصیحت کرنے والا اپنی حکمت اور سوزنِ تدبیر سے چاک دامن کو رفو کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ذہنی انتشار کے خاتمے کی تدبیر کرتا ہے۔اس لیے اسے ناصح کہتے ہیں ۔ نصیحت اورخیرخواہی ہر مسلمان کا فرض منصبی ہے ۔
شرابِ روح پرور ہے محبت نوعِ انساں کی
سکھایا اس نے مجکو مست بے جام وسبورہنا
محبت ہی سے پائی ہے شفا بیمار قوموں نے
کیا ہے اپنے بختِ خفتہ کو بیدار قوموں نے