چولستان میں پانی کی قلت دور کرنے کیلئے بھارت سے پانی خریدا جائے گا:وفاقی وزیر میاں ریاض حسین پیرزادہ۔
پہلے ہمارے ایک صدر نے پاکستان کے 3دریا بھارت کو فروخت کرکے جو شرمناک حرکت کی اور آج تک ہم اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ اب ہمارے یہ حکمران اس ذلت میں اپنا حصہ ڈالنے کیلئے ایسی ہی درفنطنیاں چھوڑنے پر آگئے ہیں۔ اب کوئی ان کو سمجھائے کہ بادشاہو! بجائے اس کے کہ ہم پانی ذخائر بنا کر آبی وسائل بڑھا کر اپنی آبی مشکلات کو کم کرنے کی کوشش کریں۔ کالا باغ اور دیگر ڈیم بنائیں تاکہ چولستان اور تھر سے بھوک اور پیاس کا خاتمہ ہو اور پورے ملک کو پانی اور بجلی کے بحران سے نجات ملے۔ ہم تیل، گیس اور بجلی کی طرح اب غیر ممالک سے پانی خریدنے کے چکروں میں پڑ گئے ہیں۔اس سے تو مسئلہ حل نہ ہوگا کہ ہم اپنے دشمن سے ہی جس نے ہمارا پانی روک رکھا ہے۔ اپنا ہی پانی اب قیمتاً حاصل کرنے کیلئے سوچ رہے ہیں۔ اس سے تو بہتر ہے کہ ہم سندھ طاس معاہدے پر نظر ثانی کی یااسے منسوخ کرنے کی بات کریں۔اقبال نے کیا خوب کہا تھا…؎
پانی پانی کرگئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تو جھکا جب غیر کے آگے تو تن تیرا نہ من
اس سے تو کہیں بہتر ہے کہ ہم سمندر سے تھر تک اور چولستان تک کھارا پانی صاف کرنے کے فلٹر پلانٹس لگا کر ایک ہی بار اربوں روپے خرچ کرکے کام شروع کردیں‘اسکے بعد مولا کرم کریگا اور ان علاقوں میں بھی خوشحالی اور ہریالی رقص کریگی کیونکہ سمندر کبھی خالی نہیںہوتے اور ہم با غیرت قوم کی طرح سراٹھا کر چل سکیں گے ورنہ بے شرموں کی طرح آلو، ٹماٹر،پیاز اور بجلی تو ہم اپنے دشمن سے خرید ہی رہے ہیں۔
٭…٭…٭…٭
چلی کے آمر نیوشے اور مشرف کے کیس میں مماثلت۔
مشرف بھی مقدر کے کیا دھنی ہیں حاکم اس وقت بنے جب آسمان اور زمین کے درمیان معلق تھے۔ حکومت سنبھالی تو اپنے آپ کو کمانڈو کے طور پر متعارف کرایا سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ لگایا۔ مفاد پرست سیاستدانوں کو ایسا رجھایا کہ ان میں چند ایک آج بھی مشرف پر صدقے واری ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مجاہد بننے کا شوق چرایا تو کرگل کی چوٹیوں سے فوج واپس بلا کر اپنے نام پر بٹہ لگایا۔ وہ تقریر میں مکا دکھا کر اپنی قوت کا اظہار کرنے والا ایسا پہلوان نکلا کہ امریکہ بہادر کے ایک فون پر مٹی کا مادھو بن کر ڈھے گیا اور پورے ملک کو آتش و بارود کا ڈھیر بنا گیا اور اس بدامنی کا نام ترقی رکھ دیا بقول جگر…؎
اسی کا نام ہے اگر ترقی تو اس ترقی سے باز آئے
کہ خون مخلوق سے خدا کی زمین ہے لالہ زار اب بھی
والا معاملہ 8 برس عوام کے ساتھ درپیش رہا۔ خدا خدا کرکے اس کاغذی پہلوان اور نمائشی کمانڈو سے جان چھوٹی اور اس راگ و رنگ اور فنون لطیفہ کے عاشق نے لندن جا کر بسیرا کیا۔ اچھے بھلے آزادی کے دن بسر کر رہے تھے۔ جب جی چاہتا محفل موسیقی سجاتے۔ غیر ملکی یونیورسٹیوں میں لیکچر دیتے اور معقول معاوضہ پاتے۔ گھر میں پالتو کتوں سے دل بہلاتے اور فارغ اوقات میں والدہ کی خدمت کرتے۔ مگر نصیب میں چین کم ہی لکھا تھا اس لئے بیٹھے بٹھائے پھر بے نظیر اور نواز شریف بننے کے شوق میں واپس وطن آگئے اور اس کے بعد سے آج تک نہ خود آرام سے بیٹھے ہیں نا حکومت کو چین لینے دے رہے ہیں۔ بنی گالہ چک شہزاد کا وسیع و عریض فارم ہاؤس بھی ان کے لئے تنگ ہو چکا ہے۔ جیل جانے کے تصور سے وہ لرزاں و پریشاں ہیں۔ چنانچہ دل کے وارڈ میں جائے پناہ ڈھونڈی ہے۔ اب دیکھنا ہے وہ اندر ہی رہتے ہیں یا باہر نکلتے ہیں ۔ پاک بھارت میچ کی طرح ان کے باہر جانے یا نہ جانے پر کروڑوں روپے کی شرطیں لگ گئیں ہیں۔ خود بھی بیمار ہیں والدہ کی حالت بھی درست نہیں اب دیکھنا ہے کہ یہ درد سری قسم کا سابق آمر کب عوام کے حواس سے اترتا ہے۔ جس نے پوری قوم کو ٹینشن میں ڈال رکھا ہے۔
٭…٭…٭…٭
سنار کہہ چکا ہے کہ ہار بے نظیر کی ملکیت نہیں تھا جیولری کی واپسی کیلئے زرداری نے سوئس حکام کو خط نہیں لکھا۔ ترجمان پیپلز پارٹی
معلوم نہیں اگر کوئی چیر اپنی ہے نہیں تو اسکے ہونے یا ہونے پر اتنا شور شرابا کیوں اٹھ رہا ہے۔ کہنے کو تو کوئی اگر سرے محل سے بھی انکار کردے تو کیا سرے محل غائب ہوجائے گا۔یہاں تو عجب صورتحال ہے جن کا مال ہے وہ بھی پریشان ہیں اور جن کا نہیں وہ اس سے بھی زیادہ پریشان۔ آخر کون ایسا سیاستدان ہے سرمایہ دار یا جاگیر دار ہے جسکا غیر ممالک میں سرمایہ نہ ہو، لاکرز نہ ہو جائیداد ۔ اس حما م میں میں تو سب ننگے ہیں۔ پھر شرمانا یا گھبرانا کاہے کو۔
ہاں البتہ پریشانی اس وقت ہوتی ہے جب ان پردہ داروں کے لاکرز، اثاثے اور بنک اکائونٹس کا پول کھلتا ہے۔ پھر ان کی حالت دیدنی ہوتی ہے اور سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ دامن بچاتے ہیں تو دستار پھسلتی ہے۔اب چاہے ہار ہویا محل زرعی فارم ہویا قیمتی اراضی یا فارن اکائونٹس یہ سب ہمارے حکمرانوں کی ذاتی محنت یا کمائی سے خریدے ہوتے تو عوام کی کیا مجال ہے کہ وہ حساب دوستاں کرتے یہ سب شور محشر اٹھتا ہی اس لئے ہے کہ یہ عوام کے خون پسینے کی کمائی ہے جو پاکستانی کے قومی خزانے سے لوٹ کر چرا کر غیر ملکی بنکوں میں جمع کرائی گئی ہے۔اگر یہ مسروقہ مال کوئی حکومت برآمد کرالے تو پاکستان کے سارے دلدّر دور ہوسکتے ہیں اور ہر مقروض پاکستانی کی گردن سے قرض کا طوق اتر سکتا ہے۔
مگر ہمارا طبقہ اشرافیہ بھلا ایسا کیوں ہونے دے گا۔ انہیں اگر عوام سے محبت ہوتی تو وہ اس رقم سے عوام کے دکھ درد دور نہ کرتے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں نہ بہا دیتے۔ انہیں صرف اپنی خوشحالی سے غرض ہے۔ سعودی عرب کے ڈیڑھ ارب ڈالر کی طرح ہمارے بے ضمیر سیاستدان اور غیر ملکی اکائونٹس ہولڈر بھی اپنا سرمایہ اپنے ملک میں لے آئیں تو چند ماہ میں ملک کی تقدیر بدل سکتی ہے اور ایک طاقتور خوشحال پاکستان اور پاکستانی اقوام عالم میں سر اٹھا کر چل سکتی ہے۔