قلم دوستی‘ وطن دوستی

یہ احساس روح پرور اور مسحور کن ہے کہ تبدیلی کی ہوائیں چل نکلی ہیں۔ تاریک راستوں سے نکل کر روشن منزلوں کی جانب سفر شروع ہو چکا ہے۔ احساس تحفظ نے خوف اور ڈر کے ایک طویل سیاہ باب کا سینہ چاک کرتے ہوئے ہر لمحہ فکر میں گھری قوم کو ایک واضح پیغام منتقل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے کہ حکومتی، انتظامی اور عسکری اداروں میں پوری سنجیدگی سے ایک نیا ترقی پسند روشن خیال جہاں آباد کرنے کی سعی کا آغاز ہو چکا۔ میں اپنے تئیں 23 مارچ 2015ء کے دن کو سات سالوں سے منجمد سوچ کی روانی سے تشبیہ دیتی ہوں۔ اس روز پریڈ کا انعقاد فتح کی دف کے مصداق ہے۔ عسکری قیادت نے تمامتر مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر 21 توپوں اور 31 توپوں کی سلامی سے قومی یکجہتی کا امرت رس احساس قوم کے وجود میں منتقل کیا۔ اگرچہ قومی سطح پر سلامتی کے ان گنت مسائل کے باوجود 23 مارچ کو پریڈ پورے طمطراق و قومی شان سے منانے کا اعلان اچانک اعلانیے کی بجائے ایک مکمل حکمت عملی کی نشاندھی کرتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ طویل اندرونی جنگ نے ہماری عسکری قیادت کی سوچ کے دھارے پر ایک سوالیہ نشان لگا رکھا تھا۔
 اس سوالیہ نشان سے یکسر انکار بھی ممکن نہیں لیکن اس ادارے کا رجعت پسند پنڈال سے نکل کر قومی ترقی پسند نقطہ نظر کو اپنانے کا عندیہ دینا بذات خود قابل تعریف ہے۔ ویسے قوم تو ہزاروں جانیں گنوانے اور روز و شب آگ کے دھانے پر بیٹھی اپنے پیاروں کی جدائیوں کے نوحے پڑھتے پڑھتے اس مقام تک آن ہی پہنچی ہے کہ اب اس کے پاس مزید کچھ گنوانے کے لئے بچا بھی نہیں۔ ایسے میں امن و آشتی کے لئے فوج کے ساتھ وزارت داخلہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی حالیہ کارکردگی کو قوم نے اپنا فخر بنانے میں رتی برابر دیر نہیں کی۔ یہ قیاس نہیں حقیقت ہے کہ اگر ان اداروں میں حقیقی ذہنی و شعوری ہم آہنگی اور مؤثر حکمت علمی نہ ہوتی تو 23 مارچ کو ایک پرامن زندگی کی علامت کے طور پر منانا ممکن نہ ہوتا۔ میری طرح لاکھوں ماؤں کو اس دن کے جوش و خروش نے ایک طویل رتجگے سے نجات دلائی۔ یہ احساس کتنا فرحت بخش ہے کہ اب ہمارے بچے محفوظ ہیں، لیکن اس احساس کو دیرپا بنانے اور مستقل بنیادوں پر قائم رکھنے کے لئے ہمیں اپنے حفاظتی اداروں یعنی پولیس کو تعلیمی اعتبار سے بحرانی کیفیات سے نکلتے ہوئے سیاسی نوازشوں کی بجائے ترقی یافتہ تربیتی مراحل میں داخل کرنا ہو گا۔ پولیس میں بھرتی کے طریقہ کار اور تربیت و اصلاح حکومتی ترجیحات میں شامل کرنا ہی دور رس انصاف و امن کی ضمانت ہے۔
جب کبھی واشگاف، والہانہ قومیت اور پاکستانی تشخص کی بات ہوتی ہے میرے سامنے کمانڈ سدرن کمانڈر ناصر جنجوعہ کا پر مصمم پیکر آجاتا ہے۔ اس بہادر سپوت سے گزرے برس کے آخری ایام میں پشاور آرمی سکول کے بچوں کے حوالے سے ہونے والی تقریب میں ملاقات ہوئی۔ کوئٹہ میں جس طرح انہوں نے ان دہشت گرد قوتوں جو افراد کے زمرے سے نکل کر ایوانوں کی صورت اختیار کر چکی ہیں، ایسے للکارا کہ روح کی گہرائیوں تک لفظوں کی گونج سچائی بنکر اترتی چلی گئی۔ کوئٹہ جہاں میرا بچپن ہی نہیں لڑکپن بھی گزرا، برسوں بعد وہاں جا کر احساس ہوا تھا کہ لاتعلقی کی ہوائیں صرف پتوں کو ہی خزاں زدہ نہیں کرتیں بلکہ بیگانگی پتھروں کا رنگ بھی نفرت آمیز کر دیتی ہے۔ اب کے بار جو ناصر جنجوعہ کے نعرے میں بلوچستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد کی کھنک سنی تو یقینی ہو گیا کہ 1971ء کے بعد سے تہہ در تہہ علاقائی مفادات کی جمی گرد کو چھاڑنے کی مثبت شعوری کوشش کی گئی ہے۔ بلوچستان کے بارے میں ملک کے دوسرے صوبوں کے شہریوں کو ایک تعلیمی پسماندہ، ناخواندگی کا تصور منتقل ہوا ہے حالانکہ یہ کلی طور پر بلوچستان کی صحیح تصویر نہیں۔ اس جگہ سے منسوب شدت پسندی اور جنگجو میلانات بھی آدھا سچ ہے۔ شاید اسی لئے کمانڈ سدرن کمانڈر ناصر جنجوعہ نے صوبے کی انتظامیہ سے مل کر صوبے کی خوش رنگ صورت میڈیا کے سامنے رکھی۔ سپورٹس فیسٹیول کے حوالے سے کوئٹہ کے قریب ہنہ جھیل کے چاندی پانیوں میں لڑکیوں کی کشتی رانی ناقابل بیان طمانیت کا سبب بنی۔ بلوچستان میں مارچ کے مہینے میں قومی یکجہتی کو تعلیم سے جوڑنے کی واحد مثال ’’سلام ٹیچر‘‘ کا اہتمام تھا۔ ’’سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی‘‘ میں بیگم ناصر جنجوعہ کا موجود ہونا دراصل اس اٹل سچائی کا اقرار تھا کہ قلم دوستی دراصل وطن دوستی ہے۔ استاد کی کسی بھی معاشرے میں مثبت و مسلمہ حقیقت سے انکار ممکن نہیں کیونکہ یہ استاد ہی ہیں جو نسلوں کے مستقبل سنوارتے اور انہیں آج کا ادراک بخشتے ہیں۔
 اب ہمیں اپنے اندر سے ہی صداقت، شرافت اور شجاعت کی داستانیں تلاشنا ہونگی۔ ورنہ ہماری نصابی تاریخ تو آج تک یلغاریوں اور دہلی کو تاراج کرنے والوں کو ہیرو بنائے بیٹھی ہے۔ اس کے بعد جو ہمارے نصیب میں آیا سب کے سامنے ہے کہ جعلی کلیموں کے عوض جاگیریں حاصل کرنے والوں نے آزاد ملک میں نئے آقاؤں اور نئے غلاموں کی اختراع ڈالی۔ ترقی یافتہ روشن خیال معاشرے اپنے لئے پھندا خیال کرنے والوں نے پہلا بیر علم سے رکھا اور عوام کے لئے حصول تعلیم کو کٹھن بنا دیا بلکہ اسی پر بس نہیں کی، تعلیمی نصاب میں انسانوں کے درمیان فاصلے بغض اور منافرت کی دیواروں پر مذہب کا چولا ڈالنا بھی نہ بھولے۔ قیام پاکستان ہی سے شروع نفرت و بیگانگی، بے حسی و حقارت اور شدت پسندی کے رجحانات کو 80 کی دھائی کے بعد ایسی جلا ملی کہ وہ تناور درخت بن گیا جس کی زہرآلودہ شاخوں نے یکجہتی کی رگوں سے خون نچورنا شروع کیا۔
 اب اگر ہمارے حکومتی انتظامی اور خاص طور پر عسکری اداروں نے جو تطہیری آپریشن شروع کئے ہیں تو یاد رکھئے درخت کی شاخیں کاٹنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا جب تک اس منافرت کے درخت کو جڑ سے نہ اکھاڑ پھینکا جائے۔ یہ جز وقتی علاج کو کل وقتی صحت مند جسم بنانے کیلئے ا ور اس کو ہمیشگی کی صورت دینے کے لئے سرکاری غیر سرکاری تعلیمی اداروں کے نصاب کی سمتیں درست کرنا اشد ضروری ہے۔ صد افسوس مسائل کے گورکھ دھندوں میں پڑ کر حقیقی بنیادوں پر امور و مسائل پر دھیان کو جزوی حیثیت حاصل ہے۔
 المختصر 23 مارچ کو خوشی کا لمحہ اور فسق و فجور مچانے والوں کے لئے ایک پیغام بنا دینے والی قوتیں جو اس ریاست پاکستان کی آزادی کی ضامن ہیں اگر انہیں اپنے ملک میں سکون اور آزاد فضا کو قائم رکھنا ہے تو منافرت کے درخت کی شاخیں کاٹ کر مطمئن ہو بیٹھنے کی بجائے جڑوں تک پھیلے عفریت کو کاٹنا ہو گا۔
٭…٭…٭

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...