اسلام آباد میں چاول برآمد کرنے والی کارپوریشن کی تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے صدرِ ممنون حسین نے کہا کہ’’قوم کرپٹ عناصر کے خلاف اُٹھ کھڑی ہو!‘‘۔ انہوں نے کہا کہ’’کرپشن کی وجہ سے معاشرے میں سُستی پیدا ہو گئی ہے‘‘۔ جناب ممنون حسین شاعر ہیں۔ افغانستان کے سابق صدر جناب حامد کرزئی نے ’’صدرِ سُخن وَر‘‘ کا خطاب دیِا تھا۔ علّامہ اقبال کی ایک نظم ’’شاعر‘‘ کے دو الگ الگ مِصرعوں کو اکٹھا پڑھا جائے تو یُوں ہوں گے۔ …؎
’’قوم گویا جِسم ہے، افراد ہیں اعضائے قوم
شاعرِ رنگیں نوا ہے، دِیدئہ بینائے قوم‘‘
’’صدرِ دِیدئہ وَر‘‘
صدرِ محترم بھی ’’دِیدۂ بینا‘‘ (بصیرت رکھنے والی آنکھ) رکھتے ہیں۔ یعنی ’’دِیدۂ وَر‘‘ بھی ہیں۔ یہ جنابِ صدر کی دِیدہ وری ہے کہ انہوں نے 63 سال سے مسائل زدہ قوم کو معاشرے کی سُستی دُور کرنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہونے کی تلقین کی ہے۔’’صدرِ دِیدہ وَر‘‘ فرماتے ہیں کہ’’جب بھی قوموں کی ترقی کی راہ ہموار ہونے لگتی ہے، آگے رکاوٹیں آنے لگتی ہیں۔ ہمیں اُن رکاوٹوں کو بے اثر بنانے کے لئے حِکمتِ عملی سے کام لینا ہو گا‘‘۔ یہ حِکمتِ عملی کیا ہے؟ فی اِلحال قوم کو نہیں بتایا گیا۔ شاید اِس لئے کہ اِس حِکمتِ عملی کی بھنک کرپٹ عناصر کو نہ پڑ جائے؟۔بقول وفاقی وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار قوم کے 60 فیصد لوگ غُربت کی لکِیر سے نیچے زِندگی بسر کررہے ہیں‘‘۔ وہ لکِیر کے فقیر نہیں لیکن عملی طور پر ’’ فقِیر‘‘ ہی ہیں۔’’قوم کے جو 40 فیصد لوگ غُربت کی لکِیر سے اُوپر زِندگی بسر کرتے ہیں وہ شاید مطمئن ہوں گے۔
غُربت کی لکِیر سے اُوپر 20 فی صد لوگ ’’امارات کی لکِیر‘‘ کے اُوپر رہتے ہیں۔ اُن کی یہی خواہش رہتی ہے کہ ’’60 فی صد بھوکے، ننگے اور بے گھروں کی قوم‘‘ اُٹھنے کے قابل ہی نہ رہے۔ اِس قوم ِ غریب ٗ غُرباء کو اُٹھانے اور جگانے کے لئے کیا حِکمتِ عملی ہوگی؟۔ اور کون ہے اِس دَور کا ’’حکیم اُلاُمت‘‘ لیلیٰ کا عاشق قیسؔ المعرُوف مجنُوں تو عامری قبیلے کے سردار کا بیٹا تھا۔ اُس نے تو لیلیٰ کے عِشق میں کھانا پینا چھوڑ دِیا تھا۔ مِرزا غالبؔ نے مجنُوں کی جسمانی کمزوری پر افسوس کا اظہار کرتے ہُوئے کہا تھا… ؎
’’صَد حَیف کہ مجنُوں کا قدم اُٹھ نہیں سکتا‘‘
60 فی صد مفلُوک اُلحال لوگوں پر تو اِتنی بھُوک مسلط کردی گئی ہے۔ وہ تو خُود کاہل اور سُست ہیں۔ وہ بھلا کیسے اُٹھیں گے؟ ہاں! جنابِ صدرِ سُخن وَر اگر ’’اُٹھو میری دُنیا کو جگا دو!‘‘ قِسم کی نظم لِکھ کر قوم کو جگا دیں تو پوری قوم انہیں دیدئہ وَر بھی تسلیم کرلے گی۔
’’Khadim-I-Aala School Of Thaught‘‘
پرانے زمانے میں بزرگ بچوں کو بیک وقت وارننگ اور نصیحت سے نوازتے ہُوئے کہا کرتے تھے… ؎
’’پڑھو گے، لِکھو گے، بنو گے نواب
جو کھیلو گے، کُودو گے، ہوگے خراب‘‘
مَیں جب تھوڑا سا پڑھ لِکھ گیا تو اپنے ایک بزرگ سے پوچھا کہ’’اِیسٹ انڈیا کمپنی نے جب ہندوستان پر قبضہ کر کے اپنے بعض وفاداروں کو’’نواب‘‘ بنایا تھا تو اُن میں کتنے لوگ پڑھے لِکھے تھے؟ میرے سوال کا اُس بزرگ کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور اب مَیں خود بزرگ ہوں تو اب میرے پاس بھی اس کا کوئی جواب نہیں ہے اور اب صُورت یہ ہے کہ ’’کھیلنے کودنے‘‘ والوں کی فلمی ہیروز سے زیادہ قدر ہوتی ہے۔ کامیاب کھلاڑیوں اور ’’کُود کڑ‘‘ لوگوں کے لئے عزت، دولت اور شہرت کے دروازے کھُل جاتے ہیں۔ پوری دُنیا کے لوگ اُن سے پوچھے بغیر اُن پر دائو لگاتے ہیں اور دولت کی دیوی ’’لکشمی‘‘ اُن کی بلائیں لینے لگتی ہے۔
ایک عمران خان ہی نہیں جو بھی کھیل کے میدان میں کھیلے اور کُودے اڈی مار کے دھرتی ہلاتے رہے اور آئندہ بھی ہلاتے رہیں گے۔ دورِ حاضر کے بزرگوں نے پڑھائی لِکھائی اور کھیل کود میں توازن پیدا کر لیا ہے اور وہ بچوں خاص طور پر لڑکوں اور جوانوں کو وارننگ اور نصیحت کے بجائے مشورہ دیتے ہیں کہ ’’بیٹاجی!تم خود سمجھدار ہو، پڑھائی لکھائی اور کھیلنے کودنے کے لئے خود وقت مقرر کر لو!‘‘ سابق وزیرِاعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الہیٰ لڑکوں/لڑکیوں کے کھیلنے کودنے کے خلاف نہیں تھے لیکن انہوں نے اپنے دَور میں ’’پڑھا لِکھا پنجاب‘‘ کا نعرہ دیا تھا لیکن چودھری صاحب ایک معاملے میں خادمِ اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کی دوست ملک عوامی جمہوریہ چین کے نوجوانوں کو اپنا شاگرد بنانے کی کوشش نہیں کی۔ یہ طُرۂ امتیاز خادمِ اعلیٰ کے سر ہے۔
لاہور میں سکولز ریفارمز روڈ میپ کے نئے مرحلے پر ’’پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب‘‘ پروگرام کے آغاز کا اعلان کرتے ہُوئے کہا کہ2018ء تک ہر بچہ سکول جائے گا‘‘۔ یہ اچھی بات ہے۔ بہت سے لوگ پڑھ لکھ کر بھی آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اور اصلی ڈگریاں بھی حاصل کر لیتے ہیں لیکن پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں کے امیدواروں کے لئے اصلی ڈگری لینا ضروری نہیں ہوتا، کئی سال تک جعلی ڈگریوں سے بھی کام چلایا گیا۔ عدالتوں نے بعض کو سزائیں دے کر نا اہل بھی قرار دیا لیکن اُن کی ضمانتیں ہو گئیں اور ہمارے یہاں کسی ملزم کی ضمانت کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اُس کا مقدّمہ ’’کھوہ کھاتے‘‘ چلا گیا۔ خادمِ اعلیٰ کہ اہلِ پنجاب کے لئے اور چین کے شاگرد پیشہ لوگوں کے لئے بھی کچھ نہ کچھ کرنے کا جنون ہے۔ خادمِ اعلیٰ کے مزاج کے کسی شاعر نے کہا تھا کہ… ؎
’’خاموش نہ بیٹھے گا محشر میں جنُوں میرا
یا اپنا گریباں چاک یا دامنِ یزداں چاک‘‘
وزیرِاعظم نواز شریف نے 9 مئی 2014ء کو بہاولپور میں وزیرِاعظم نواز شریف نے سولر پاور پراجیکٹ کا سنگِ بنیاد رکھا اور تقریب سے خطاب کرتے ہُوئے کہا کہ ’’مجھ سے پہلے شہباز شریف صاحب تقریر کر چکے ہیں۔ اِن کی تقریر اُس وقت تک ختم نہیں ہوتی جب تک یہ دو چار چیزیں نہ توڑ دیں لیکن آج اِن کی جوشیلی تقریر کے دوران نہ کوئی"Mike" ٹوٹا اور نہ کوئی میز‘‘۔ اِس پر تقریب کے حاظرین دیر تک ہنستے رہے، مختلف نیوز چینلوں پر خادمِ اعلیٰ کو بھی کھلکھلا کر ہنستے ہوئے دکھایا گیا۔
’’پڑھو پنجاب بڑھو پنجاب‘‘ کا اعلان کرتے ہُوئے اپنا اور مشغلہ بھی بتایا۔ فرماتے ہیں ’’مَیں بڑے کام کے لئے چھلانگ لگا دیتا ہُوں۔ پھر اللہ کی مدد سے وہ کام ہو جاتا ہے‘‘۔ علامہ اقبال بہت پہلے خادمِ اعلیٰ کی رہنمائی کے لئے فرما گئے تھے… ؎
’’بے خطر کُود پڑا آتشِ نمرود میں عِشق
عقل ہے مَحوِ تماشائے لبِ بام ابھی‘‘
آگ میں کُودنا یا آگ میں چھلانگ لگانا ایک ہی بات ہے۔ میری دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑے کاموں کی تکمیل کے لئے خادم اعلیٰ کی مدد کرتے رہیں۔ مَیں نے اپنے ایک کالم میں عوامی جمہوریہ چین میں خادمِ اعلیٰ کے شاگردوں کا ذکر کیا تھا جنہیں اہلِ چین ’’شہباز شریف کے شاگرد‘‘ کہتے ہیں۔ شاعرِ سیاست نے خادمِ اعلیٰ کا ’’فلسفہ چھلانگ‘‘ کا پیغام اُن چینی شاگردوں کو بھجواتے ہُوئے کہا ہے کہ… ؎
’’ شاگرد پیشہ چین میں رہتا ہے چونگ چانگ
اعلانِ حق ہے خادمِ اعلیٰ کا مثل بانگ
اُستاد کی طرح تو بڑے کام کر عزیز!
مَیں نے چھلانگ ماری ہے تُو بھی لگا چھلانگ‘‘
مجھے یقین ہے کہ خادمِ اعلیٰ کا ’’سکول آف تھاٹ‘‘ سب سکولوں پر غالب آ جائے گا۔