دہشت گردی کا ناسور پچاس ہزار سے زائد زندگیاں نگل چکا ہے اور ابھی نجانے کتنے گھروں کے اور چراغ گل ہونا باقی ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے نتیجے میں پچھلے کچھ عرصے میں امن عامہ کے حالات کافی بہتر ہو گئے تھے اور دل خوش فہم کو امید ہو چلی تھی کہ شاید گلشن میں بہار کے دن آنے کو ہیں، لیکن سال 2016 کے آغاز میں ہی پہلے چارسدہ یونیورسٹی پر حملہ‘ پھر سکیورٹی اداروں پر کئی بڑے چھوٹے حملوں کے واقعات اور اب لاہور میں گلشن اقبال پارک میں دھماکے نے ملک بھر کی فضا کو ایک بار پھر سے سوگوار کر دیا ہے۔
یہ 27 مارچ کا واقعہ ہے جب لاہور میں اتوار چھٹی والے دن اپنے بچوں کی خوشی کیلئے سیر و تفریح کے غرض سے گلشن اقبال پارک آنیوالے بدنصیب خاندانوں کو کیا پتا تھا کہ موت کیسے انکے انتظار میں گھات لگائے بیٹھی ہے۔ گھروں سے ہنستے مسکراتے‘ آنکھوں میں معصوم سی شرارتیں لئے نکلنے والے یہ پیارے بچے کب جانتے تھے کہ قسمت انکے ساتھ کیا کھیل کھیلنے والی ہے۔ سفاکیت اور درندگی کیا رنگ دکھانے والی ہے؟ اس کا احساس تو تب ہوا‘ جب کسی شیطان کے حواری نے اپنے جسم پہ بندھی خودکش جیکٹ سے خود کو اڑا لیا اور وہ پارک جس میں ہر طرف قہقہے تھے‘ بچوں کی والدین سے معصوم ضدیں تھیں‘ وہاں جھولے جھولتے اٹھکیلیاں کرنے میں مصروف بچے، بڑے، بوڑھے مگن تھے کہ اچانک دھماکے کی آواز نے سارا منظر نامہ ہی بدل ڈالا قہقہوں کی جگہ اب آہ و بکا‘ رونے‘ چیخنے‘ سسکنے‘ کراہنے کی آوازیں تھی‘ بارود کی بدبو اور آگ و خون کا ڈھیر تھا۔ انسانیت شرما رہی تھی اور درندگی دور کھڑی کہیں مسکرا رہی تھی۔
ٹی وی پہ چلتے پروگراموں میں اچانک بریکنگ نیوز چلنی شروع ہو گئیں کہ لاہور دھماکے کی آواز سے گونج اٹھا ہے پھر آہستہ آہستہ جگہ کا تعین ہوا اور اسکے بعد دھماکے میں وفات پانے اور زخمی ہونیوالوں کے بارے میں اطلاعات آنی شروع ہوئیں جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی گئیں اور یوں 74 افراد جن میں بچے، بڑے، بوڑھے سب شامل تھے دہشتگردی کی نظر ہو گئے اور 300 سے زائد زخمی ہوئے۔ قانون نافذ کرنیوالے اداروں کے لو گ جائے واردات پہ پہنچ کر تحقیقات کرنے لگے اور حادثے کے چند گھنٹوں بعد ہی ناصرف خود کش حملہ آور کا نام سامنے آ گیا بلکہ اس کا شہر اور دیگر تفصیلات بھی سامنے آنے لگیں جو کچھ یوں تھیں۔ خودکش حملہ آور کا نام یوسف تھا وہ مظفر گڑھ کا رہائشی تھا اس کے والد ریڑھی لگاتے تھے اور چونکہ اس کی لاش کے ساتھ اس کا آئی ڈی کارڈ بھی پولیس کے ہاتھ لگ گیا چنانچہ پنجاب پولیس کی مستعدی دیکھئے کہ رات و رات اس لڑکے کے چچا اور چار بھائیوں کو بھی پکڑ لیا گیا‘ میڈیا پہ اسکی تصاویر آنے لگیں اسکے دوست احباب تک رپورٹرز پہنچنے کی کوششیں کرنے لگے۔ سوشل میڈیا پہ اس کی تصاویر ٹیگ اور شئیر کر کے لوگ گالیاں دینے لگے، جب بعد میں اگلے دن دیگر اداروں کے ساتھ مل کر تحقیقات ہوئیں تو معلوم ہوا کہ یہ شخص بے گناہ تھا جس کا اعلان خود پولیس کے اعلی حکام کی جانب سے کیا گیا۔ کیا اس نوجوان کی داڑھی ہونا اس کا قصور تھا یا اس کا قرآن پڑھانا اس کا جرم تھا یا پھر اس کی غربت نے اس کو مجرم بنا دیا تھا۔ پنجاب پولیس کی اس غفلت اور غیر ذمہ داری نے اس سے قبل دھماکوں میں کی جانے والی تحقیقات کو بھی مشکوک بنا دیا ہے حالانکہ انہیں اس بات کا احساس ہونا چاہئے تھا کہ خودکش حملہ آور اپنی شناخت اپنی جیبوں میں لیکر نہیں پھرا کرتے۔ یہ کام تو آج کل مغربی ممالک میں ہوتا ہے جب اپنے مقاصد کیلئے کسی دہشتگردی کے واقعہ کا ملبہ مسلمانوں پر ڈالنا ہوتا ہے تو انہیں جائے وقوع سے ضرور کوئی ایسی نشانی مل جاتی ہے جو ظاہر کرتی ہے کہ مسلمان دہشتگرد ہیں۔ اس تما م واقع میں ستم ظریفی دیکھئے کہ پولیس نے اس کے غریب گھر والوں سے دو ہزار روپے رشوت لے کر اسکی لاش اسکے ورثا کے حوالے کی۔ سانحہ لاہور میں پولیس کے بعد ایک اور بڑا کردار ہمیں ان صحافی حضرات‘ اینکر اور ٹی وی چینلز کا نظر آیا جو کہ اپنے مغربی آ قاؤں کو خوش کرنے کیلئے اس واقعہ کو زبردستی اقلیتی برادری سے منسلک کرکے اس کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کرنے لگے چونکہ اتوار کو جس دن دھماکہ ہوا اس دن ہمارے مسیحی بھائی اپنا ایسٹر کا تہوار منا رہے تھے لہذا اس تمام واقعہ کو زبردستی اقلیتی برادری پر حملہ قرار دئیے جانے کی کوششیں ہونے لگیں حالانکہ بعد میں جب دھماکے میں وفات پانے اور زخمی ہونیوالوں کی شناخت اور اعداد و شمار جاری کئے گئے تو اس میں زیادہ تر تعداد مسلمانوں کی ہی تھی۔ اس حالیہ بم دھماکے نے نہ صرف پنجاب حکومت کی ترقی کے سارے پول کھول کر رکھ دئیے ہیں بلکہ حکومت کی عوام کیلئے انکی کیا ترجیحات ہیں یہ بھی بالکل واضح کر دی ہیں۔ اتوار کی رات کو ہونیوالے اس سانحہ کے کئی گھنٹے گزر جانے تک ہمیں کوئی مرکزی و صوبائی حکومتی وزیر اور اعلی حکومتی عہدیدار نظر نہیں آئے تھے، رات گئے کہیں جا کے خادم اعلی صاحب کی ہمیں شکل د کھائی دی اور ستم ظریفی دیکھئے پورے پنجاب کا بجٹ لاہور پہ لگا لینے کے بعد بھی ہسپتالوں کی حالت یہ تھی کہ 200 ، 300 زخمیوں کو سنبھالنے کیلئے الگ بستر نہیں تھے اس لئے ہسپتال انتظامیہ کی جانب سے مجبورا ایک ایک بستر پہ دو دو مریضوں کو لٹایا گیا‘ خون کی بوتلوں والے سٹینڈ نہیں تھے زخمیوں کے لواحقین ان کو لگائی جانیوالی خون کی بوتلیں ہاتھوں میں لئے کھڑے تھے۔ وہ شہر جس کی سڑکوں پر دو سو ارب لگ جائیں اور وہاں دو سو مریض اچھے طریقے سے سنبھالے نہ جا سکیں اس کے خادم اعلی کی عوام سے محبت اور ان کی ترجیحات پر لوگ کیوں نہ سوال اٹھائیں؟ دوسری جانب اپنے موجودہ ملکی حالات کے تناظر میں سکولوں‘ پارک اور عوامی جگہوں کی سکیورٹی موثر بنانے کی بجائے ہمارے حکمران صرف اپنی حفاظت پر ہی توجہ مرکوز کئے رکھتے نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تیس‘ چالیس کلو وزنی بارودی مواد لے کر کوئی آپکے شہر کے وسط میں آکر دھماکہ کر دیتا ہے اور عوام کی جان و مال کے محافظ بے خبر رہتے ہیں۔ دنیا بھر میں تعلیم‘ صحت‘ امن عامہ جیسے بنیادی مسائل حل کرنے کے بعدہی حکومتیں سڑکوں‘ ٹرانسپورٹ اور شہروں کی خوبصورتیوں کی طرف متوجہ ہوتی ہیں لیکن ہمارے ہاں تو ہر چیز کا ڈھنگ ہی نرالا ہے۔ صدر‘ وزیراعظم صاحب اور خادم اعلی صاحب تعلیم‘ صحت، پینے کا صاف پانی، امن و عامہ اور دو وقت کو روٹی کیلئے ترستی عوام آپ سے میٹرو بسوں، بڑی کشادہ سڑکوں کا تقاضا نہیں کرتی بلکہ عزت سے زندہ رہنے کا حق مانگتی ہے۔ امن کو ترستے پاکستانی تمام حکومتی اور عسکری ارباب اختیار کو مغموم‘ سوالیہ نگاہوں سے دیکھتے سوال کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ آخر امن کی صبح اس پاک دھرتی پر کب طلوع ہو گی۔ خدارا اپنی ترجیحات بدلئے اور لوگوں کو انکے باعزت جینے کا حق دیجئے۔