وفاقی حکومت نے پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں ایک روپیہ فی لٹر اضافہ کر دیا جبکہ دیگر مصنوعات کی قیمتیں برقرار رکھی گئی ہیں۔
ایک روپیہ فی لٹر اضافہ کو معمولی سمجھا جارہا ہے۔ مہینے میں دو دفعہ معمولی اضافے سے دو تین ماہ میں اچھا خاصا اضافہ بن چکا ہے۔ اس پر بھی ہر مرتبہ وزیر خزانہ قوم پر وزیراعظم کا احسان باور کراتے ہیں۔ حسبِ سابق پھر کہا ہے کہ تجویز تو تین روپے 28 پیسے اضافے کی تھی مگر صرف ایک روپیہ پر ہی حکومت نے اکتفا کیا۔ اس سے حکومت کو تین ارب روپے کا نقصان ہو گا۔ وزیر خزانہ کا نفع و نقصان کا اپنا پیمانہ ہو گا۔ قوم کو بتایا گیا ہے کہ پہلے مہینے بعد اب مہینے میں دو مرتبہ قیمتوں کا تعین عالمی سطح پر اتار چڑھاﺅ کے پیش نظر کیا جاتا ہے جبکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں کمی کا رحجان ہے اسی لئے بھارت نے پونے چار روپے فی لٹر کمی کی ہے۔ حکومت کم از کم غلط بیانی تو نہ کرے جس کو موجودہ جدید دور میں چھپانا ممکن نہیں۔ حکومتی پارٹی بھی انتخابی مہم کا آغاز کر چکی ہے۔ لوڈشیڈنگ بڑھ گئی۔ تیل کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے۔ یہ حکومت پر عوام کی خفگی کا سبب بن سکتا ہے۔
عمران خان آرمی چیف ملاقات
آرمی چیف جنرل باجوہ سے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک گھنٹہ ملاقات کی۔ اس دوران جہانگیر ترین بھی موجود تھے۔
آئی ایس پی آر کی طرف سے کہا گیا ہے کہ تحریک انصاف کے قائدین نے جنرل باجوہ کو ترقی پر مبارک باد دی۔
قومی و سماجی تقریبات کے دوران ایسی ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ خصوصی ملاقات وہ بھی ان حالات میں جب تحریک انصاف مسلم لیگ ن کی حکومت گرانے اور وزیراعظم نواز شریف کے محاسبے کےلئے سرگرداں ہے‘ حکومت اور فوج کے مابین غلط فہمی کو جنم دے سکتی ہے جبکہ دہشت گردوں کیخلاف جنگ میں عسکری اور سیاسی قیادت کے مابین کوئی غلط فہمی دہشت گردی کے خلاف کاوشوں پر اثر انداز ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہاں معمولی سی بات اور واقعہ کو بھی سیاسی مقاصد اور پوائنٹ سکورنگ کےلئے استعمال کرنے کی روایت پڑ چکی ہے اس لئے فوجی قیادت کو ایسے معاملات سے گریز کرنا چاہیے۔ پانامہ کیس پر فیصلہ بھی جلد متوقع ہے۔ اس حوالے سے بھی ملاقات پر چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں۔
پانی کی قلت دور کرنے کیلئے
نئے ڈیموں کی ضرورت
خریف کی فصلوں کے لئے پانی کی 18 فیصد کمی۔ بھارت ڈیمز میں تبدیلی کے وعدے سے مکر گیا۔
ارسا کے اعلامیہ کے مطابق خریف کی فصل کے لئے پانی کی قلت 35 فیصد تھی جو بہتر انتظامات کی وجہ سے 18 فیصد رہ گئی ہے مگر یہ بھی کوئی زیادہ بہتر صورتحال نہیں۔ پانی کی قلت سے پہلے ہی ملک کا وسیع رقبہ بنجرہو رہا ہے۔ بھارت ضرورت کے مطابق دریاﺅں میں پانی کم کر دینے کی اپنی مکروہ پالیسی پر عمل پیرا ہے جس کا مقصد پاکستان کی زرعی معیشت کو تباہ کرنا ہے۔ موسمی حالات، بارشوں کی کمی اور پانی سٹور نہ کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے ہر سال پاکستان کو پانی کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بھارت نے ایک بار پھر اپنے وعدوں سے مکرتے ہوئے اپنے زیرتعمیر ڈیموں کے ڈیزائن میں تبدیلی سے انکار کر دیا ہے جس کے بعد ضروری ہے کہ یہ معاملہ عالمی فورم پر اٹھایا جائے اور اس کے خلاف بھرپور آواز بلند کی جائے۔ اگر ہمارے حکمران پانی کی قلت پر قابو پانے میں مخلص ہیں تو انہیں ملک میں آبی ذخائر میں اضافہ کرنا ہو گا۔ اس کام کے لئے کالاباغ ڈیم سے زیادہ مفید اور کوئی منصوبہ نہیں ہو سکتا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملک کو آبی بحران سے بچانے کیلئے فوری طور پر کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے کمر کس لی جائے ورنہ بھارتی آبی جارحیت سے ہماری زرعی معیشت تباہ ہو جائے گی۔
عالمی مارکیٹ میں کمی کا رحجان پاکستان میں تیل کی قیمتیں بڑھا دی گئیں
Apr 02, 2017