ملک کی معاشی صورت حال پریشان کن ہے۔ مالی سال 2017-18 کے پہلے پانچ ماہ ملکی کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ 80% ڈالر اور فروری 2018 میں یہ خسارہ مزید 48% (اڑتالیس فیصد)9.156 بلین ڈالر ہوگیا۔ نیز ہمارا Trade Deficit صرف 6 ماہ میں 18 ملین ڈالر تک پہنچ گیا جس کی اصل وجہ برآمدات کے مقابلے میں درآمدات میں اضافہ ہے۔اس کے علاوہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر بھی کم ہوئی ہے۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر 208 ملین پاکستانی مہنگائی اور مزید مہنگائی کے عذاب میں مبتلا ہیں۔
ملکی آئین کے مطابق بجلی، پانی اور دیگر روزمرہ کی استعمال کے اشیاء کی فراہمی حکومتِ وقت کی اہم ترین ذمہ داریوں میں سے ہے۔ لیکن ہماری نا گفتہ بہ معاشی صورت حال کی وجہ سے ہم غیر ملکی مالی اداروں کے ہاتھوں مجبور ہیں اور ان کی تمام شرائط بلا چوں چراں ماننے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ اس سلسلے میں دیگر شرائط کے علاوہ حکومت نے IMF کے احکامات کے نتیجے میں NEPRA کے ذریعے بجلی کے استعمال پر تین نئے Surcharge لگا دیئے ہیں۔ یہ اضافہ 1.55 روپے فی یونٹ کی شرح سے لگایا گیا ہے۔ جس کی اصل وجہ Line Losses اور بجلی کی چوری سے ہونے والے نقصانات جو کہ 110 بلین روپے بنتے ہیں پورا کرنا مقصود ہے۔ اور یہ حکومت اور Distribution Company یعنی بجلی مہیا کرنے والے اداروں کی سراسر نا اہلی کی وجہ سے ظہور پذیر ہوئی ہے۔
اس سرچارج سے حاصل ہونے والی رقم میںمندرجہ ذیل شامل ہیں۔
اول :Financing cost surcharge
دوم:نیلم جہلم پراجیکٹ سر چارج
سوم:Tariff Rationisation
Tariffکے سرچارج میں توانائی مہیا کرنے والی کمپنیوں کے قرضہ جات کی ادائیگی شامل ہے جن میں وفاقی حکومت کے یعنی گردشی قرضے جو کہ 2013 تا حال جمع ہوئے ہیں ادا کرنے ہیں۔ باالفاظ دیگر اس رقم سے جو کہ سرچارج کی صورت میں عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر حاصل کیا جارہا ہے۔ وہ حکومتی قرضے ہیں جن کو عوام کی فلاح و بہبود سے زیادہ ذاتی امور پر خرچ کیا گیا ہے۔ حکومت گھریلو اور صنعتی صارفین سے 70 (ستر)ملین روپے حاصل کرے گی تاکہ توانائی کے شعبے پر سے مالی بوجھ کم کیا جائے۔
سرچارج کی ادائیگی ایک بہت ہی متضاد معاملہ ہے ۔ کیونکہ 1995 میں ہائی کورٹ نے اسے غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ لیکن NEPRA نے نہایت صفائی سے ہائی کورٹ کے فیصلے کے یعنی غیر موثر ہونے کا فائدہ اٹھا کر یہ قدم اٹھایا۔ اس سلسلے میں NEPRA نے کہا کہ اصل مسئلہ Distribution companies توانائی کی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی ناقص اور غیر ذمہ دارانہ رویے اور غفلت کا نتیجہ ہے۔ اس سے سرچارج ختم کرنے کے فیصلے کو بہت تقویت ملتی ہے۔ اور ابھی تک اس سلسلے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ اور حکومت کو قانوناً سرچارج واپس کرنے کا حکم دیا جاسکتا ہے۔لیکن حکومت یہ قدم اٹھانے سے گریزاں ہے کیونکہ سرچارج لگانا توانائی کے شعبے میں اصلاحات کرنے سے بہت زیادہ آسان کام ہے حکومت نے توانائی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کی طرف سے 70 (ستر)ملین روپے کے سرچارج کو روکنے کے لئے قطعی کوئی اقدامات نہیں کئے۔کیونکہ سرچارج اور بجلی کے بلوں میں اضافی اور غیر قانونی اضافہ آسان کام ہے۔
اس ضمن میں ایک اور وجہ یہ ہے کہ میٹر ریڈر صحیح ریڈنگ نہیں لکھتے اور عام طور پر بغیر میٹر دیکھے دفتروں میں بیٹھ کر ہی کام کردیا جاتا ہے۔ اس سال جنوری کے مہینے میں صارفین نے 1.97 بلین روپے اصل بجلی کی استعمال کے بغیر ادا کئے۔ ایک طرف ان کی عدم ادائیگی کے نتیجے میں کنکشن فوری طور پر کاٹ دیا جاتا ہے۔ اور دوسری طرف بجلی مہیا کرنے والی کمپنیاں آزادی سے صارفین کے استحصال میں مصروف ہیں ۔ اس سلسلے میں اگر حکومت واقعی عوام کی مددکرنے کو تیار ہے تو بجلی مہیا کرنے والی کمپینوں پر جرمانے عائد کرے۔ یہ جرمانہ اتنا ہو کہ صارفین سے لوٹا ہوا تمام پیسہ ان کو واپس کیا جاسکے اور ان سے صرف وہی رقم وصول کی جائے جتنی بجلی انہوں نے دراصل استعمال کی ہو۔ اور جس کی NEPRA نے اجازت دی ہو۔ اس سلسلے میں ایک آزاد اور غیر جانبدارانہ تحقیق کی جانی چاہئے۔ کیونکہ Over Billingکا معاملہ اس وقت تک حل نہیں ہوسکتا جب تک حکومت توانائی کے شعبے سے ہر صورت میں پیسے جمع کرنے کے عمل کو ترک کرکے عوامی فائدے کے لئے بتدریج اصلاحات نافذ نہیں کرتی۔ حکومت کی طرف سے عوام کی بہبود اور فلاح سے غفلت کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ 2015 میں NEPRA نے اس بات کا اعتراف کیا کہ 70% بجلی کے میٹر اپنی میعاد پوری کرچکے ہیں جبکہ% 35 کے میٹروں کو دیکھا ہی نہیں جاتا اور بل دفتر بیٹھ کر اندھا دھند لگا دئے جاتے ہیں۔ کیا ایک عوامی حکومت کا یہ رویہ اس کے شایانِ شان ہے۔ دراصل :ع
"بجلی گرتی ہے تو بیچارے صارفین پر"
٭…٭…٭
بجلی گرتی ہے تو بیچارے صارفین پر
Apr 02, 2018