وزیراعظم عباسی کی کھٹی میٹھی باتیں!

محبت اور سیاست، شاید دونوں ایسے مضامین ہیں جن کی فہم و فراست کے لئے ان کا تجربہ ضروری ہے۔ دونوں صورتوں میں انسان ملکیت یا قبضے کے جنون سے باہر نہیں نکل پاتا، اور اپنی غرض اور عرض ہی کو مقدم جانتا ہے دوسروں کو نہیں!اقبالیات کا تو سبق یہ ہے کہ۔۔۔۔ دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر۔۔۔۔ جب تک محبت اور سیاست کو دیار عشق میں نہیں لایا جاتا تب تک مقام پیدا کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ محبت ہو کہ سیاست دونوں کا دیار عشق میں قدم رنجہ فرمانا ضروری ہے۔ سلیم کوثر نے بھی کیا خوب کہا ہے کہ :
عالم ذات میں درویش بنا دیتا ہے
عشق انسان کو پاگل نہیں ہونے دیتا
اگر واقعی ایسا ہو تو رہبر کبھی عوام کے کاسہ خواب سے کوئی تعبیر نہ چرا پائے۔ خواب اور تعبیریں اپنی جگہ پر ، تدبیریں بھی اپنا جگہ پر ، لیکن شاہد خاقان عباسی کے ہاتھوں میں نکیل اقتدار تقدیر لے آئی ہے۔ اس مختصر دور اقتدار میں ان کی کچھ خوبیاں بھی سامنے آئی ہیں حالانکہ وہ ایسے دوراہے پر ہیں کہ " ایک طرف اس کا گھر ایک طرف میکدہ" ماضی میں پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے جب غلام مصطفٰی جتوئی، ملک معراج خالد اور فاروق لغاری ایسے سیاسی اور خوش قسمتی کے دوراہوں پر پہنچے تو محسنوں سے لے کر نظریات تک کو خداحافظ کہہ دیا اور بس یہی ذہن میں رکھا کہ:
گوہاتھ کوجنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
کمال ہے ہمارا حلقہ یاراں بھی کہ، ایک فضول اور ناقابل غور بات پر ہنگامہ برپا کر دیا، حالانکہ ہنگامہ آرائی اور توجہ طلب امور تو آنکھیں بچھائے سیاستدانوں اور دانشوروں کے منتظر ہیں لیکن کسی کا خیال اس جانب نہیں بس یہی رولا ہے کہ،"آٹا گن دی ہل دی کیوں اے؟"
کچھ دن قبل کسی مہرباں نے ایک انڈین ٹی وی نیوز کا ایک کلپ بھیجا، ساتھ حکم فرمایا کہ، اس کی سوشل میڈیا پر مزید تقسیم اور ترسیل کریں۔ میں نے جب یہ کلپ دیکھا اور سنا تو مجھے یہ بہت توہین آمیز لگا۔ یہ تضحیک میرے لئے ناقابل برداشت تھی۔ ایک انڈین چینل میرے ملک اور میرے وزیر اعظم کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہا تھا، جو مجھے سچ نہ لگا۔ اور دیکھنے سننے کے بعد میں نے فورا ڈیلیٹ کردیا۔ امریکن ائرپورٹ پر تلاشی کے اس منظر میں کوئی پہچانا ہی نہیں جارہا تھا لہذا میں کسی حتمی نتیجہ پر پہنچنے سے قاصر تھا۔ حالانکہ، میں نے اپنے وزیر اعظم پر پچھلے ہفتہ وار دو کالموں میں تنقید کے تیر و نشتر چلائے کہ، نومنتخب چئیرمین سینٹ صادق سنجرانی پر جناب عباسی کی تنقید درست نہیں اور وہ اپنے ہی قائد کا فرمان بھول گئے جو گلی گلی و نگر نگر کہتے نہیں تھکتے کہ، ووٹ کو عزت دو ( وہ الگ بات ہے کہ ہم کہتے ہیں ووٹر کو عزت دو)۔ پی پی پی اور پی ٹی آئی کے عباسی صاحب کے خلاف سینٹ میں پرتحریک استحقاق جیسے پلان سے ہمیں سو فیصد اتفاق ہے لیکن دشمن ملک کے میڈیا کے جلتی پر تیل ڈالنے اور میرے وطن عزیز کے جمہوری و آئینی وزیر اعظم کی بین الاقوامی سطح پر جگ ہنسائی ایک فی صد بھی منظور نہیں، بس نہیں!!! واضح رہے کہ، عباسی صاحب کے اس دورہ امریکہ اور واقعہ جامہ تلاشی کے حوالے سے ہم نے ادھر ادھر تصدیق کی، وزیر اعظم ہاؤس بالواسطہ اور بلاواسطہ روابط، کچھ وزراء سے ہیلو ہائے، مخالفین کے در پر ٹیلی فونک دستک اور آخر چوہدری جعفر اقبال وزیر مملکت برائے پورٹس اینڈ شپنگ سے تفصیلی گفت و شنید کے بعد یہ اخذ کیا کہ، وزیر اعظم عباسی کے اس 14 تا 20 مارچ 2018 کے امریکی دورہ کے سیاق و سباق کے مطابق تعریف و توصیف ہی بنتی ہے،سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں! بمطابق وزیر مملکت چوہدری جعفر اقبال اور دیگر ذرائع عباسی صاحب نے اپنے سٹاف کے اصرار کے باوجود نہ اسے سرکاری دورہ قرار دیا اور نہ سرکاری و نیم سرکاری پروٹوکول پسند کیا۔ اپنی بہن کے آپریشن کے سلسلہ میں انہیں دورہ مقصود تھا۔البتہ اپوزیشن یہ ضرور کہہ سکتی ہے کہ، عباسی صاحب نے آج کل اپنے اندر بلال و دانیال، سعد رفیق و خواجہ آصف وغیرہ جیسے وزراء کی روحوں کو اپنے اندر حلول کرلیا جو بعض قوتوں کے خلاف خوب بول رہے ہیں، اور ایک اور "ڈیسنٹ" پروفیسر وزیر پوری نغمگی اور موسیقیت سے ہم نوا ہیں۔ لیکن میں تو وزیراعظم کے عادل اعظم سے ملنے کو بھی مثبت اقدام قرار دیتا ہوں بے شک وہ فریادی بن کر گئے یا چیف اگزیکٹو، ہاں وہ ساتھ کچھ کابینہ ممبران کو بھی لے جاتے تو اچھا ہوتا۔ واپس آتے ہیں پھر " امریکی دورہ" کی جانب، تو صاحبان و دانشورواران اپوزیشن! وزیراعظم نے معمول کے مطابق قطر ائیر ویز سے سفر کیا، دوحہ ائرپورٹ پر بھی دوست ملک قطر کو مطلع نہ کیا۔ بعدازاں ایک شکوہ حکومت قطر سے بھی آیا کہ، دوران ٹرانزٹ فلائیٹ برادر ممالک کے بڑوں کے درمیاں دوطرفہ بات تو ہو سکتی تھی۔ خیر، وزیراعظم عباسی نے اس دورہ کو مکمل نجی زمرے میں رکھا۔ امریکہ میں بھی یہی عالم تھا، تاہم سوشل میڈیا و دیگر ذرائع سے جب وہاں معلوم ہوا تو امریکی نائب صدر کی خواہش پر ملاقات کا اہتمام ہوا۔ غیر جانبدار ذرائع کہتے ہیں کہ امریکی نائب صدر مائیکل پینس سے اس "غیرمتوقع" 30 منٹ کی ملاقات میں افغان امور پر بات چیت ہوئی جس میں نوٹ ٹیکر کی حیثیت سے مائیکل پینس کے خصوصی مشیر برائے جنوبی ایشائی امور مائیکل کٹرون بھی شریک ہوئے۔ گویا وزیر اعظم عباسی کو تلاشی کے عمل سے اگر گزرنا بھی پڑا تو یہ ان کے ہاں عام طور سے رائج ہے۔ فی زمانہ ان کا پراعتماد ہوکر عام آدمی کی طرح جیب خاص سے خرچ کرکے سفر کرنا، اور اکثر کرنا، بغیر پروٹوکول کے اپنے آبائی حلقہ تحصیل مری میں کوسوں ملنا جلنا، عالمی برادری کے اجلاس اور بیٹھکوں میں شلوار قمیض زیب تن کرنا قابل ستائش ہے۔ بھر اپنے ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کے لئے بغیر لاؤ لشکر اسلام آباد دفتر چلے جانا قابل ستائش ہے! ہاں جناب عباسی کو کچھ اچھا مشورہ دینے کو جی چاہتا ہی ہے، قبلہ! وزیر اعظم ہاؤس کی بغل میں ایک پرستائش لائبریری اور اس کی خاموش کتب کب سے کسی قاری سے ہم کلام ہونے کو ترس رہی ہیں۔ وہاں چند لمحے جائیے اور 4 اپریل 1979 کی یاد اور تناظر میں ذوالفقار علی بھٹو پر لکھی ہوئی یا ان کی تحریر کردہ کتاب کے چند اوراق زیر مطالعہ لائیے، دیکھیں کہ، چین کے ساتھ انہوں نے محبت کی بنیاد کیوں اور کیسے رکھی، ترقی پسند اور عوامی تحریکوں کے بانیان سے تعلق کیسے استوار کئے، ماوزے تنگ و چو این لائی یا جمال عبدالناصر و سوئیکارنو و احمد بن بیلا (الجزائر ) سے بھٹو کی قربتوں اور محبتوں کا پس منظر اور پیش منظر کیا تھا؟ اس مطالعہ سے جسمانی صحت متاثر نہیں ہوگی بلکہ قوی امید ہے کہ سیاسی شفا کے سنگ سنگ جمہوری قوت مدافعت میں بھی اضافہ ہوگا۔ ان گنہگار آنکھوں نے سابق نگران وزیر اعظم میر ہزار خان کھوسو اور میاں محمد نواز شریف کے ادوار میں لائبریری کی الماریوں کے اوپر اداسی کو بال کھولے سویا دیکھا ہے۔ سرکار کبھی پی ایم ہاؤس لائبریری سے نیلسن منڈیلا، مہاتیر محمد، احمدی نژاد، محمد مرسی، رسل یا جارج واشنگٹن کے حوالے سے استفادہ کریں، روحانی و جسمانی و سیاسی قوت میسر آئے گی۔ یقین کیجئے آپ کے قائد آپ کو کچھ نہیں کہیں گے، انہیں آپ پر پورا بھروسہ ہے، اور ہمیں بھی آپ کی اپنی قیادت سے وفا شعاری پر ناز ہے، پھر ویسے بھی آج کل مطالعہ بندوں کا کچھ "بگاڑتا" ہی کب ہے؟
وزیراعظم ہو یا عادل اعظم و سالار اعظم ان پر اگر تنقید یا بحث برائے اصلاح مطلوب بھی ہے تو حد ادب اور آئینی و جمہوری تقاضوں کو مدنظر رکھنا بھی ضروری ہے۔ ہم زردار اعظم اور خان اعظم جیسی عوامی اور پریکٹیکل اپوزیشن، اور خورشید شاہ و شیری رحمان پارلیمانی اپوزیشن کا بھی خیال کرنا آئینی و اخلاقی ذمہ داری ہے۔ اور، اے حکمرانو! حضرت علیؓ کا کہنا قابل توجہ ہے ،حکام کا رعیت سے پر دہ کرنا تنگی نظر و علمی کمی کا شاخسانہ ہے۔ اس کے سبب انہیں احوال کا علم نہیں ہوتا ، گویا چھوٹی باتیں بڑی اور بڑی باتیں چھوٹی بن جاتی ہیں!
حب الوطنی محض محبت اور سیاست سے ممکن نہیں ، وہ عشق درکار ہے جو عالم ذات میں درویش بنا دیتا ہے۔ ملکیت یا قبضے کے جنون سے باہر نکلنا، اور اپنی غرض اور عرض کے بجائے قومی ترجمانی کو مقدم جاننا ضروری ہے! وہ جو خان کہتا ہے نا نواز و زرداری جیسے کرپٹ لیڈروں سے اتحاد نہیں ہوسکتا، تو سینٹ کا الیکشن تھا کیا؟ سچ بتاؤ! نواز، مخالف سیاستدان اور کرپشن گر پسند نہیں تو اپنی پارٹی میں بھرتی کئے کرپٹ عناصر سے محبت ہے نا؟ اقبالیات سے افکار قائد اعظم تک کا سبق یہی ہے۔۔۔۔ دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر۔۔۔ جی! محبت ہو کہ سیاست دونوں کا دیار عشق میں قدم رنجہ فرمانا لازم ہے ورنہ سب باتیں ہیں اور افسانے اور خالی باتیں خالی برتنوں کی طرح ہیں، اور ایسے بھانڈوں(برتنوں ) کا کیا؟!!

ای پیپر دی نیشن