پاکستان کی بقا کیلئے وہ سات دن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وزیراعظم پاکستان عمران خان کو مراسلہ ارسال کیا کہ افغانستان میں غیر ملکی تسلط سے آزادی کی جنگ لڑنے والے طالبان کے ساتھ مذاکرات کروانے میں اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کر کے امریکہ کے لیے سلامتی کے ساتھ افواج کا افغانستان میں سے اخراج کرنے کی خاطر امن معاہدہ ہونے میں مددکی جائے۔ قطر میں افغان طالبان اور امریکہ کے مندوبین کے درمیان مذاکرات کامیابی کے ساتھ جاری تھے کہ 14 فروری 2019ء کو مقبوضہ کشمیر میں پلوامہ میں انڈین سول آرمڈ فورسز کے قافلہ پر حملہ ہوا۔ پچاس سے زیادہ اہلکار ہلاک ہوئے اور اس سے زیادہ زخمی ہوئے۔ کشمیر میں گزشتہ 72 برسوں سے انڈیا سے آزاد ہو کر پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کے لیے کشمیری عوام کی سیاسی جدوجہد جاری ہے۔ کشمیر کا معاملہ 1947ء میں آزادی کا نامکمل ایجنڈا ہے۔
برطانوی پارلیمان سے پاس کردہ، آزادیٔ ہند ایکٹ 18 جولائی 1947ء کے تحت کشمیر مسلم اکثریتی اسٹیٹ ہونے کے سبب پاکستان کا حصہ ہے۔ چونکہ حکمران ہندو راجہ اور آبادی کی اکثریت مسلمان ہے تو ہندو حکمران راجہ کا فیصلہ کہ وہ کشمیر کا الحاق انڈیا کے ساتھ کریگا، یہ غیر قانونی ہے اور ایسے کسی الحاق کی کوئی حیثیت نہیں۔ کشمیر میں استصواب کرا کر عوام کی مرضی کے مطابق فیصلہ کرنا ہے کہ وہ انڈیا کے ساتھ الحاق کرتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ آزادی کے قانون کے مطابق کشمیر کے لیے کوئی تیسرا آپشن نہیں ہے، یعنی الگ ملک ہونے کا حق نہیں ہے۔ جب بھی کشمیری عوام نے انڈیا سے آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق کی جدوجہد کی تو انڈیا نے ان پر انسانی تاریخ کی بدترین ریاستی جبر و استبداد روا رکھا۔ سیاسی جدوجہد اپنی جگہ جاری رہی لیکن کشمیر کی تیسری نسل کے نوجوانوں نے اب گوریلا جنگ شروع کی ہوئی ہے۔
اب کے بار کشمیری نوجوانوں نے برہان وانی شہید کے لہو کے ساتھ اپنا لہو شامل کرنے کا عزم کیا ہوا ہے۔ کشمیر میں سیاسی جدوجہد اپنے عروج پر ہے تو گوریلا جنگ بھی زورپکڑتی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی انڈیا کی ریاستی دہشتگردی بھی عروج پر ہے۔ بیگناہ عوام کے ساتھ ظلم زبردستی ایسی کہ بچیوں اور خواتین پر انسانیت سوز مظالم کیے جا رہے ہیں، سات برس کی بچیوں سے لیکر ستر برس کی بزرگ خواتین سے انڈیا کے ریاستی کارندے درندگی کی انتہا کی کر رہے ہیں۔ مہذب دنیا ان تمام واقعات سے باخبر ہوتے ہوئے بھی بھارت کے خلاف کچھ نہیں کرتی۔ کشمیر کے معاملہ میں پاکستان تسلیم شدہ فریق ہے۔
انڈیا نے کشمیر کے آزادی کے متوالوں کے ہر عمل کو پاکستان سے منسوب کیا ہوا ہے اور پاکستان کے آزاد کشمیرپھر شدید گولہ باری کر کے بیگناہ سویلین کو شہید کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ پلوامہ میں انڈیا کے پیرا ملٹری فورسز پر حملہ کی ذمہ داری بھی پاکستان کے سر تھوپ کر پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دیتے رہے اور دنیا خاموش تماشائی بنی رہی۔ پھر 26 فروری 2019ء کو رات کے اندھیرے میں انڈیا نے بالا کوٹ پر حملہ کر کے پاکستان کی آزادی اور بقا کو للکارا۔ پاک فضائیہ کے شاہینوں نے جب انڈیا کے طیاروں کو للکارا تو وہ اپنا گولہ بارود کا لوڈ جنگل میں پھینک کر بھاگ گئے۔ یہ واقعہ انڈیا کی طرف سے پاکستان پر حملہ تھا اور طویل جنگ اور ایٹمی جنگ کا پیش خیمہ ہو سکتا تھا۔ انڈیا کو خوش فہمی تھی کہ چین اور روس پاکستان کی حمایت نہیںکریں گے اور اس کی نظر میں چونکہ پاکستان ، امریکہ کی طفیلی ریاست ہے اس لیے پاکستان کی سول و عسکری قیادت پر امریکی دبائو ڈال کر معاملہ ٹھپ کیا جائے گا۔ پاکستان ایٹمی ملک ہے اور ایٹمی حملہ میں پہل کرنے کی حکمت عملی یعنی فرسٹ اسٹرائیک آپشن کے تزویراتی فلسفہ پر عمل پیرا ہے۔ پاکستان کی گہرائی میں انڈیا کے حملے کونظر انداز کیا جاتا ہے تو انڈیا کا حوصلہ بڑھ جائے گا اور بے دھڑک مزید مہم جوئی کر سکتا ہے۔ پاکستان کی سول و عسکری قیادت نے محسوس کیا کہ ایٹمی قوت کے حامل پاکستان کی قوت کو چیلنج کیا گیا ہے۔ اب بھی اگر پاکستان اپنی قوت کے استعمال سے گریز کرتا ہے تو اس کی بھرپور طاقت کی حیثیت ہی ختم ہو جاتی ہے۔ پہلے مرحلے میں پاکستان نے روایتی ہتھیاروں کی قوت کا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور 27 فروری 2019ء کو دن کے اجالے میں کنٹرول لائن کے پار مقبوضہ کشمیر میں کئی اہداف پر جنگی ہوائی جہازوں کے ذریعے شدید بمباری کی۔ دشمن نے ان پرجوابی کارروائی کرتے ہوئے ایک مگ 21 اور ایس یو 30 جہاز روانہ کیا جن کو جے ایف 17 تھنڈر جنگی ہوائی جہازوں کے شاہین پائلٹوں نے مار گرایا۔
پاکستان کی بمباری سے انڈیا کا جانی ا ور ہتھیاروں کا نقصان ہوا۔ اس کی کم سے کم تفصیل میڈیا کے لیے ظاہر کی گئی مگر دشمن کو جو گہرا زخم دیکر شدید گھائل کیا گیا اس کا اندازہ دشمن کی طرف سے جوابی کارروائی کی منصوبہ بندی سے کیا جا سکتا ہے۔ آئی ایس پی آر نے پاکستان کی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو تاکید کی کہ عوام کے جذبات نہ ابھارے جائیں تو میڈیا نے بھی سنجیدگی دکھائی۔ یوں پاکستان کے عوام خوف ، مایوسی اور گھبراہٹ کی بجائے وطن عزیزکی عسکری قوت اور حکومتی / عسکری قیادت کے اقدامات پر اعتماد کے ساتھ پُرجوش رہے۔ اس بحران کا سنجیدگی اور کامیابی کے ساتھ مقابلہ کر کے پاکستان کی قیادت نے دنیا پر واضح کیا کہ پاکستان کسی طور پر سپرطاقت کی طفیلی ریاست نہیں ہے۔کچھ سپرپاورز جن کے ساتھ گہرے تعلقات رہے ہیں اور اب بھی ہیں ان کا لحاظ کرنا تو ہوتا ہے مگر وطن عزیز کے مفادات کو ہر صورت میں بالاتر رکھا گیا ہے۔ پاکستان کی قیادت نے ثابت کیا کہ پاکستان آزاد خودمختار ایٹمی قوت کی حامل ذمہ دار اور عالمی امن کے لیے اہم کردار ادا کرنے والی اسلامی مملکت ہے۔
انڈیا اور پاکستان کے درمیان ہیجان عروج پر تھا کہ یکم مارچ 2019 ء کو افغان طالبان نے ہلمند میں شوراب ملٹری بیس (سابق کیمپ بیسشین) پر حملہ کر کے ہاں پر موجود کئی افغان اورغیر ملکی فوجیوں کو قتل کیا اور جنگی ہوائی جہاز ہیلی کاپٹر اور دیگر جنگی سازو سامان کو تباہ کیا اور نیٹو کے جنگی ہوائی بیڑے کو شدید نقصان پہنچایا۔ افغانستان کے اندرونی خلفشار اور طالبان کے حملوں کا خوف ، ایسے عوامل بن گئے کہ افغان فورسز اور قابض امریکی فوجوں کا حوصلہ پست ہو گیا اور انہیں انڈیا کی حمایت میں پاکستان کے خلاف مہم جوئی کی سکت نہیں رہی۔ یوں افغانستان کی طرف سے پاکستان پر حملہ اور سرحدی چھیڑ چھاڑ کر کے پاک فوج کو مصروف رکھنے کی انڈیا کی توقعات پر پانی پھر گیا۔ ملک کے مغربی حصے کی چھائونیوں سے افواج کو حرکت میں لایا گیا اور انہیں پاک بھارت سرحد پر پہنچانے کی منصوبہ بندی کی خبر سے انڈیا کو پیغام ملا کہ افواج پاکستان کی مجموعی فورس لائن آف کنٹرول اور بین الاقوامی سرحد پر پہنچائی جائے گی۔ یوں انڈین فورسز کی افرادی برتری کو بھی زائل کر دے گی۔ انڈیا اپنا بحری بیڑہ پاکستان کی سمندری حدود کے قریب لے آیااور ایک آبدوز پاکستان کی پانیوںکی طرف روانہ کی۔ 4 مارچ 2019ء کو پاکستان نیوی نے اس آب دوز کو بھگا دیا۔ اسی دن یعنی 4 مارچ 2019ء کو افواج پاکستان کو انٹیلی جنس ذرائع سے معلوم ہوا کہ اسرائیل اور انڈیا مل کرراجستھان سے پاکستان پر کراچی، بہاولپور اور کچھ دیگر شہروں پر میزائل حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کر چکے ہیں اور اس حملے کو امریکی آشیرباد حاصل ہے۔ (جاری)

ای پیپر دی نیشن