ہرچہ بادا باد!

Apr 02, 2019

شوکت علی شاہ

نئی حکومت آئی ہے (اب اتنی نئی بھی نہیں رہی۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں سات ماہ کا عرصہ کچھ اتنا قلیل نہیں ہوتا) گو اب تک ایک ہی راگ الاپا جا رہا ہے۔ پُرانی حکومت تمام خرابیوں کی جڑ تھی۔ وہ ورثے میں کوئی ASSET چھوڑ کر نہیں گئی۔ LIABILITIES کا پہاڑ کھڑا کر گئی ہے۔ خزانہ خالی ہے۔ حکومتی بٹوہ مفلس کے گالوں کی طرح پچکا ہوا ہے۔ بجلی کا ہونا نہ ہونے کے مترادف ہے، جبھی تو سردیوں میں بھی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ (گرمیوں میں کیا ہو گا؟ یہ تو آنے والا کل ہی بتاپائے گا! اس پر بارہ سو ارب روپے کا گردشی قرضہ! گیس؟’’ہر چند کہیں ہے کہ نہیںہے‘‘ 180 ارب کا چُونا لگا ہے۔ اس پر 70 ارب روپے کی چوری مستزاد ہے۔ اب اگر ہزار گنا قیمتیں نہ بڑھائی جائیں تو کیا کیا جائے؟ حج پر سبسڈی مجبوراً ختم کرنا پڑی۔ اس کے سزاوار بھی شریف برادران ہیں۔ اگرایسا نہ ہوتاتو مفت حج کرایاجاتا۔ ہم خرماوہم ثواب۔ حاجی، جیب کو گرمائش دئیے بغیر جنت کے ٹکٹ کٹواتے ۔ قرضوں کا ایک کوہ گراں کھڑا کر دیا گیا ہے۔ اس ہمالہ کو ٹاپنا کارِ دارد ہے لہٰذا دگنی مقدار میں قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ پانچ سال بعد جو بھی حکومت آئیگی اسے ہمیں نہیں شریف برادران کو کوسنا چاہئے۔ گو زرداری بھی ذمہ دار ہے مگر یہ کام بھی انہی لوگوں کو کرنا چاہئے تھا۔ اب ہر بات ہم سے کہلوانا کہاں کی شرافت ہے!
یہ درست ہے کہ الیکشن سے پہلے کہا تھا کہ بجلی اور گیس کے نرخ کم کئے جائینگے۔ بیرونی ایجنسیوں سے قرض لینا گناہِ کبیرہ ہو گا، گورنر ہائوسز کے محلات مسمار کر دئیے جائینگے۔ مدینہ کی ریاست کی طرز پر اس قسم کی سادگی اختیار کی جائے گی جس قسم کی حضرت عمرؓ نے کی تھی۔ ایک اونٹ پر غلام کے ساتھ یروشلم (بیت المقدس) کا سفر، حضرت علیؓ کی طرح قوت لایموت حاصل کرنے کیلئے یہودیوں کے باغ میں محنت مزدوری کرنا پڑے گی۔ پچاس لاکھ مکان ! کسی مجنوں کو صحرا میں پھرنے کی حاجت نہیں رہے گی۔ پکے مکان میں بیٹھ کر موبائل فون پر لیلیٰ کو واردات قلب بتا سکے گا۔ کوئی غالب طنزاً یہ نہیں کہہ پائے گا … ’’ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے‘‘
ایک کروڑ نوکریاں! بیرون ملک مزدور پیشہ پاکستانی گھر آنے کی خواہش میں ہمکیں گے!
اگر یہ سب نہیں ہو پایا تو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ ’’یوٹرن‘‘ بڑے آدمیوں کی روش ہے۔ ویسے ہی تو انگریزی زبان کا وہ محاورہ وضع نہیں کیا گیا۔ (CONSISTANCY IS THE GENEIOUS OF MEDIOCRITY) ہٹلر اورنپولین خودسر اورخناس تھے جبھی تو مار کھا گئے۔ اگر روس میں داخل ہونے سے پہلے ہی یا فوراً بعد ’’گھوم‘‘ جاتے تو آج تاریخ کسی اور ڈھنگ سے لکھی جاتی۔
یہ مان لیا کہ لوگ آپ کی باتوں کا اعتبار کر لیں گے۔ بھاشن سے متاثر ہونگے۔ قوم گزشتہ 70 برس سے فریبِ وعدہ فروا پہ اعتبار کرتی آئی ہے، وہ اس قلیل عرصے کو بھی کڑوی گولی سمجھ کر نگل جائیگی۔ لیکن اصل مسئلہ کچھ اور ہے! برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ طفل تسلیاں بھوکے پیٹ نہیں بھرتیں۔ جس شخص کی تنخواہ ہی بیس ہزار ہو وہ پچیس ہزار کا گیس بل کیسے بھرے گا؟ بجلی کے بل کا کہاں تک رونا روئے گا؟ فٹ پاتھ پر لگی ہوئی ریڑھی کے اٹھائے جانے پر ردعمل کیا ہو گا۔ بغیر نقشے یا میونسپل زمین پر بنے ہوئے ڈھارے کے گرائے جانے پر کہاں تک اشک بہائے گا۔ منشی پریم چند نے ایک جگہ لکھا تھا۔ ’’ہرن راہِ فرار نہ پا کر شکاری کی طرف لپکا‘‘۔ اگر بالفرض ان مظلوم لوگوں کا قدم گھر سے نکل کر سڑک پر آ گیا تو پھر کیا ہو گا؟ یہ بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے۔ اس امکان کو وقتی طور پر ٹالا تو جا سکتا ہے روکا نہیں جا سکتا! جن لوگوں کو آپ موردِ الزام ٹھہرا رہے ہیں انہوں نے تو یورپ، امریکہ چلے جانا ہے۔ ہم آپ نے مجبوراً ادھر ہی رہنا ہے اس حقیقت کو پیش نظر رکھیں۔ انگریزی زبان کے شاعر کالرج کے الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے۔ (A THING TO DREAM AND NOT TO TELL) ۔ قوم پر اتنا ہی بوجھ ڈالنا چاہئے جتنا وہ اٹھا سکے۔ اونٹ پر زیادہ بوجھ ڈالا جائے تو وہ بلبلانے لگتا ہے۔ گدھا تک زائد وزن کو گرا دیتا ہے یا پھر خود گر جاتاہے۔ سینکڑوں سال کے پابند سلاسل …اپنے آقائوں سے خراج مانگنے لگتے ہیں۔ مفلسی حِس لطافت کومٹا دیتی ہے۔ بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی۔ کہا جاتا ہے کہ 70 ارب کی گیس چوری ہو رہی ہے۔ اب تو آپ کی حکومت ہے۔ اسے روکتے کیوں نہیں! گردشی قرضہ بہت زیاہ ہے۔ اسے بڑھنے تو نہ دیں۔ بتدریج کم کریں۔ مکانات فی الفور بن نہیں سکتے۔ بھلا نہ بنیں، کم از کم گرائیں تو نہیں۔ اگر بنی گالا کے مکانات ریگولرائز ہو سکتے ہیں تو یہ کیوں نہیں ہو سکتے۔ ان کی تعمیر کو اب تک برس ہا برس بیت گئے ہیں۔ خرید و فروخت سے کئی ہاتھ بدل چکے ہیں۔ موجودہ رہائشی تو حسرت سے صرف یہ کہہ سکتے ہیں … ’’اے کاش جانتا تو مٹاتا نہ گھر کو میں ‘‘
کوئی باشعور شخص سابقہ دور حکومتوں کی طرف داری نہیں کر سکتا۔ ملک کو اس حال تک پہنچانے میں یقیناً ان کا ہاتھ تھا۔ اقربا پروری ، لوٹ کھسوٹ، ’’مال بنائو تے ڈنگ ٹپائو‘‘ کی پالیسی پر گامزن رہیں لیکن وہ تجربہ کار لوگ تھے۔ گرگانِ باراں دیدہ گرم و سرد چشیدہ! انہیں غلط کام کرنے کا بھی ڈھنگ آتا تھا۔ اگر روپیہ کی قدرکم کرنا ہوتی تو مارکیٹ سے ڈالر اٹھا لیتے۔ مختلف ناموں پر اربوں روپے کا اسکریپ منگوا کر 29 فیصد ڈیوٹی لگا دینے بجٹ سے پہلے ہر وہ چیز خرید لیتے جس پر ٹیکس لاگو ہوتا تھا۔ باایں ہمہ انہیں قانونی طور پر گرفت میں لانا مشکل تھا …؎
شرع و آئین پر مدارسہی !
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
یہی وجہ ہے کہ اب بھی کسی نہ کسی طور ان کے بچ جانے کا قوی امکان ہے یہ اتنا بڑا مافیا ہے کہ اسے حکومت نہ تو نگل سکتی ہے نہ اُگل سکتی ہے۔ یہ جب تک اسیر ہیں، حکومت کے حلق میں کانٹے کی طرح چُبھتے رہیں گے۔ اخبارات انکی خبروں سے بھرے ہونگے۔ سرشام ٹی وی پر اینکر ان کا ذکر اچھے یا بُرے الفاظ میں کرینگے۔ قوم تذبذب اور بے یقینی کا شکار ہو جائیگی۔ حکمرانوں کا درد سر دل کے نہاں خانوں تک پہنچنے لگے گا۔ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ بے یقینی کی کیفیت میں معیشت ترقی نہیں کر سکتی…باہر آنے کی صورت میں یہ چیتے کی طرح حاکموں کی گردن پر لپکیں گے۔روز ہڑتالیں ، جلسے جلوس، دشنام اور ابہام کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ڈغڈغہ ، ڈائیں ، ڈائیں ، ڈینگ ڈگار! غربت اور افلاس کی چکی میں پسے ہوئے لوگ ان کے داغدار ماضی کو بُھلا کرایک مرتبہ پھر ان کے پیچھے چل پڑیں گے۔
عمران خان ذاتی طور پر بلاشبہ ایک ایماندار، دبنگ اور نڈر انسان ہے اسکی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ناتجربہ کاری ہے۔ ایک کامیاب کپتان رہا ہے۔ اسے اس بات کا تو بخوبی علم ہونا چاہئے کہ ’’انڈرنائنٹین ٹیم‘‘ سے ٹورنامنٹ نہیں جیتا جا سکتا۔ گورنر نواب کالا باغ کا خاکہ لکھتے ہوئے شورش کاشمیری مرحوم نے لکھا تھا ’’نہایت ایماندار اور سنجیدہ انسان ہیں لیکن کابینہ میں ایک آدھ غٹرغوں وزیر بھی رکھ لیتے ہیں کیونکہ سنجیدہ سے سنجیدہ انسان کو بھی طفننِ طبع کیلئے ایک مسخرا درکار ہوتا ہے۔ ہر روزایک دھماکہ دار بیان داغتے ہیں، کپتان کی خوشنودی کیلئے یا اپنی خصلت سے مجبور ہو کر ایسی ناروا باتیں کر جاتے ہیں کہ بعد میں معافی مانگنی پڑتی ہے یا معذرت خواہ ہوتے ہیں۔ گویا ہرچہ بادا باد ہے۔ داخلہ والا خارجہ پالیسی پر بیان دے رہا ہے۔ ریلوے والوں نے دشنام کی نان اسٹاپ ایکسپریس چلا رکھی ہے۔ کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ باس کا نفسِ ناطقہ ہیں
’’منصور کے پردے میں خدا بول رہا ہے‘‘
جُز ہونے کے باوصف کل کا تاثر ملتا ہے۔ اطلاعات والا ہر قسم کے کیل کانٹے سے لیس ہوتا ہے۔ جیمز بانڈ کی طرح چومکھی لڑتا ہے۔ صوبوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کے متعلق کہا جا سکتا ہے۔ …؎
گرخامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے
پھر ہر کوئی ہمچوما دیگرے نیست ہے۔ اسمبلی میں ٹی وی ٹاکروں میں لمبی چھوڑتے ہیں بڑھکیں ہانکتے ہیں۔ آج شریف برادران نے مجھ سے معافی مانگ کر NRO کی استدعا کی ہے چونکہ ڈر خوف کی وجہ سے خان سے براہ راست بات نہیں کرسکتے اس لیے مجھے ذریعہ بنایا ہے۔ آج چار ممبران اسمبلی میرے پاس آ کر گڑگڑائے ہیں مگر نام نہیں بتائوں گا۔
بھٹو مرحوم جب سے بلی تھیلے سے نکالنے کا گُر بتا گئے ہیں، یار لوگوں نے اس نسخے کو حرز جاں بنا لیا ہے…یہ بے چارے سادہ لوح ہیں ۔ انہیں کیاخبر وہ ایک شاطر سیاست دان تھا۔ اسے علم تھا کہ اس قسم کے نسخے کو صرف ایک بار آزمایا جا سکتا ہے۔ بار بار دہرانے سے اپنی ناتجربہ کاری کا پول تو کھل سکتا ہے، مخالف کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا!
شیخ رشید صاحب کی باتوں سے متفق ہونا ضروری نہیں، لیکن ان کی باتیں سمجھ میں ضرور آتی ہیں۔ جس قسم کا سلوک شریف برادران نے ان کیساتھ روا رکھا وہ اسے بمعہ سود لوٹا رہے ہیں۔ سابقہ دور میں انہیں راہ سے ہٹانے کی بھرپور کوشش کی گئی انکے کئی رفیق راہی ملکِ عدم ہوئے۔ انکے گریبان پر ہاتھ ڈالا گیا۔ ان حالات میں ردعمل ہونا ہی تھا۔ ہر شخص کی روزی کاایک ذریعہ ہوتا ہے، ان کی عمر بھرکی کمائی ان کی زبان ہے۔ اگر انہیں ڈارلنگ آف ٹی وی اینکرز کہاجائے تو بیجا نہ ہو گا زیرک انسان ہیں۔ سیاسی کٹھنائیوں میں چلتے چلتے کئی مرتبہ آبلہ پا ہوئے ہیں جن کیلئے کبھی قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کیں آج ان سے نبرد آزما ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کی تاریخ تو یقیناً پڑھی ہو گی! سمجھی بھی ہو گی! ہم انہیں مشورہ دینگے کہ ’’ارتھ شاستر‘‘ یا میکائولی کی پرنس کا مطالعہ ایک بار پھر کر لیں! انکے LARGER THAN LIFE IMAGE نے پارٹی میں کئی مخالفین کھڑے کر دئیے ہیں۔ ’’ کہا جاتا ہے
(KING SHIP KNOWS NO KINSHIP)

مزیدخبریں