باغ جناح میں صرف تمہارے لیے

Apr 02, 2019

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

باغ جناح کا اصل نام تو لارنس گارڈن ہے۔ ہم نے ایک دن کا بہت وقت وہاں گزارا۔ بارہ دری کے سامنے ایک سرسبز مقام پر ہم بہت سے دوست بیٹھے رہے۔ یہ سب دوست اپنے طور پر آئے تھے کس کو کس سے دعوت ملی یہ معلوم نہیں۔ مجھے ایک ادبی شخصیت بہت اچھی شاعرہ اور سوشل خاتون عمرانہ مشتاق گھر سے تقریباً اغوا کر کے لائی۔ کہیں اچھی جگہ لے کے جانے کے لیے یہ ضروری ہے۔ عمرانہ کے بیٹے سید محمد احمد اور پوتے سید علی احمد بھی ساتھ تھے مگر انہوں نے میرے اغوا میں عمرانہ کی کوئی مدد نہیں کی۔ وہ دونوں میری بہت عزت کر رہے تھے۔ عمرانہ بہت محترم اور مہربان ایک معزز خاتون ہے۔
یہاں ایک غیر اعلانیہ گیٹ ٹو گیدر تھی۔ آہستہ آہستہ معلوم ہوا کہ عمرانہ مشتاق کے علاوہ برادرم نوازکھرل اکیڈمی آف لیٹرز لاہور کے محمد جمیل جو ریٹائر ہونے کے بعد زیادہ ایکٹو ہو گئے ہیں۔ڈاکٹر امجد طفیل ڈاکٹر ضیا الحسن نے مل کر یہاں اہتمام کیا تھا۔ یہاں بہت سے شاعر تھے مگر کسی نے کسی کو شاعری نہیں سنائی۔ تقریریں بھی نہیں ہوئیں۔ نذیر قیصر کو بھابھی سنبھالنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ کچھ ڈھیلے ڈھالے لگ رہے تھے مگر ایک مشاعرے کی صدارت کے لیے باغ جناح میں ہی کہیں چلے گئے۔ اس کے ساتھ چند لوگ بھی چلے گئے۔ غیرشاعر تھے مگر شاعر لگتے تھے برادرم افضل عاجز بھی تھے دونوں نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ اپنی موجودگی کا رنگ جمایا۔
نواز کھرل یہاں نمایاں تھے۔ ناصر بشیر، نیلما درانی، شفیق احمد ، جاوید آفتاب بھی اہتمام کرنے والوں کی طرح تھے۔جمشید امام ریاض احسن کونپل ، صائمہ الماس ، رابعہ رحمان، صفیہ اسحاق، بیناگوئندی، ڈاکٹر دانش عزیز، افضل پارس، افتخار بخاری، روبینہ راجپوت، زیب النسا زیبی ، فرحت صاحبہ، کرن وقاص پروین وفا، ناصف اعوان بھی تھے۔ ریاض احسن نے کھانا کھلایا۔ ڈاکٹر افتخار بخاری نے چائے پلائی ۔ حیرت ہے کہ یہاں شعرا نے اپنا کلام نہیں سنایا۔ حبیب جالب کی برسی بھی تھی۔ کچھ لوگ گئے ، ہمیں ان کے بیٹے نے نہ بلایا اُن کی بیٹی طاہرہ نے بھی نہیں بلایا۔ دونوں کے ساتھ ساتھ مگر الگ الگ برسی منائی ۔کہتے ہیں کہ طاہرہ والا اہتمام اچھا تھا۔
ہم نے باغ جناح اور گورنر ہائوس کی سیر کی۔عمرانہ مشتاق بھی ساتھ ساتھ تھی۔ گورنر ہائوس اور باغ جناح ایک جیسا لگا۔ ہم کہیںگھومے نہیں۔ بس بیٹھے رہے۔ لکھنے والوں اور محسوس کرنے والوں کا یہی سیرپاٹا ہوتا ہے۔ یہ بیمثال باغ انگریزوں نے بنوایا تھا۔ ہم نے صرف اس کا اپنا نام رکھا ہے۔ یہ بانیٔ پاکستان محمد علی جناح نے کبھی نہیں چاہا ہو گا۔ عجیب بات ہے کہ ہم نے مال روڈ کا نام شاہراہ قائد اعظم رکھا تھا جو کبھی مال روڈ کا متبادل نام نہ بن سکا۔ مگر لارنس گارڈن کے لیے باغ جناح معروف اور مقبول ہو گیا۔ نام رکھنے کا سلیقہ ضروری ہے۔
ہم نے کبھی سوچا کہ ہم نے کیا بنایا اور انگریزوں نے کیا بنایا تھا۔ پاکستان قائد اعظم نے بنا کے ہمیں دے دیا اور ہم نے اس کا کیا حال کیا۔ کچھ دن پہلے ہم گورنر ہائوس میں تھے۔ ڈاکٹر صغرا صدف نے پنجابی ڈکشنری بنائی ہے۔ میرے ساتھ عمرانہ مشتاق اور شاہدہ دلاور شاہ بیٹھی ہوئی تھیں اور ہم گورنر ہائوس کو دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے۔ لکڑی کا ایسا زبردست کام دیکھ کر ہم خود لکڑی کے بنے ہوئے تھے۔ آجکل گورنر ہائوس کے مالک ایک ایسے شخص ہیں جو گورنر تو بالکل نہیں ہیں۔ ہمارے دوست ہیں ہم حیران ہوئے کے ہر شخص وہاں یہ کہہ رہا تھا کہ چودھری سرور میرے دوست ہیں۔ وہ ذاتی طور پر دوست آدمی ہیں جو آدمی انہیں دوست کہہ دے وہ اسی کے دوست ہوتے ہیں۔ ایسی کشادگی کم کم شخصیتوں میں ہوتی ہے، ان کی اہلیہ پروین سرور بھی بہت بڑی عورت ہیں۔ ورنہ ہم نے یہاں گورنروں کی بیویوں کو افسری بلکہ گورنری کرتے کرتے کم کم دیکھا ہے۔ وہ سماجی محفلوں میں بھی کم کم جاتی ہیں۔ علمی ادبی محفلوں میں تو کم سے بھی کم کم جاتی ہیں۔ مگر ہمیں پروین صاحبہ چودھری سرور سے زیادہ گورنر لگتی ہیں۔ وہ بہت محفلوں میں جاتی ہیں۔ تقریریں بھی کرتی ہیں۔ تقریر کرناانہوں نے چودھری صاحب سے سیکھا ہے۔
میںنے ان کے دفتر کے ایک افسر مشہود شورش سے کہا تھا کہ چودھری صاحب معروف شاعرہ ناز بٹ کے فنکشن کی صدارت کریں اور وہ وہاں صدر تھے جبکہ میں وہاں موجود بھی نہیں تھا۔ انہوں نے ناز بٹ کے اشعار بھی سنائے۔ ان کی کچھ نوک جھونک مجیب شامی سے بھی ہوئی۔ ناز بٹ کی بہت تعریف ہوئی۔ یہ ایک یادگار محفل تھی۔
ڈاکٹر حسن فاروقی بہت اچھے شاعرہیں وہ ریڈیو پاکستان پر بہت بڑے افسر ہیں۔ ٹیلی وژن سے بہت پہلے ہمارے لیے نشریاتی مادرعلمی ریڈیو پاکستان تھا۔ ٹی وی کی طرف تو ہم نے بہت بعد میں رُخ کیا۔ اس اعتراف میں عجیب شرمندگی ہے کہ ہم ریڈیو کو بھول گئے۔ ایک بات نوٹ کریں کہ ریڈیو پاکستان کے علاوہ کم کم ریڈیوہیں ۔ ٹی وی بہت ہیں۔ اب ڈاکٹر فاروقی وہاں ہیں تو شاید کوئی وابستگی ہو۔ وابستگی پر غور کریں کہ وارفتگی اس کے بعد ہی آتی ہے۔ اُن کا شعری مجموعہ بہت اچھا ہے۔ نام بہت زبردست ہے۔ صرف ہمارے لیے یہ تو آٹوگراف کی طرح لگتا ہے۔ پڑھتے ہوئے محسوس کریں کہ یہ آٹوگراف ہے۔ ’’صرف تمہارے لیے‘‘
ایک بہت شاندار نظم ’’صرف تمہارے لیے‘‘ کتاب کے آخر میں موجود ہے ۔
صرف تمہارے لیے
وفا کا آنسو سنبھال رکھا ہے
صرف تمہارے لیے
درد آنکھوں میں پال رکھا ہے
صرف تمہارے لیے
میں تو کب کا بیمار پڑ جاتا
یا کہ مر جاتا
میں نے اپنا خیال رکھا ہے
صرف تمہارے لیے
صرف تمہارے لیے

مزیدخبریں