الطاف صحافت کے سائے میں پچپن سال

Apr 02, 2019

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

یہ نصف صدی سے زائد کا قصہ ہے۔ میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا، اکسٹھ باسٹھ کی بات ہو گی ۔قصور کے سرحدی گائوں فتوحی والہ سے اردو ڈائجسٹ کی خریداری کے لئے وی پی آرڈربھجوایا۔ اس رسالے کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ ایک سال تک یہ مجھے باقاعدہ بذریعہ ڈاک ملتا رہا۔ اس کے ذریعے الطاف حسن قریشی کے زور قلم سے متاثر ہوا۔پورا رسالہ چند روز میں پڑھ ڈالتا۔ اس میں ہر ذائقے کا مواد تھا۔ بچوں کے لئے، بوڑھوں کے لئے ۔ خواتین کے لئے۔ جوانوں کے لئے ، فوجیوں کے لئے۔ سیاست دانوں کے لئے ، مہم جو افراد کے لئے اور مجھ جیسے نو خیز طالب علموں کے لئے بھی۔ اس نے میرے ذہن کوکشادگی بخشی اور شاید یہی رسالہ مجھے صحافت کی طرف مائل کرنے کا باعث بنا۔ اردو ڈائجسٹ نے اس دور کی صحافت میں ایک زلزلہ برپاکیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ڈائجسٹ رسالوں کی بھیڑ ہو گئی۔مگر الطا ف حسن قریشی ہر کسی کے نصب میں نہ تھا۔ وہ کسی بھی تحریر پر نظر ثانی کرتے تواس کی تاثیر میں جوہری فرق رونما ہو جاتا۔ان کا اپنا تجزیہ،،، کچھ اپنی زبان میں اگرچہ میری فہم سے بالا تھا مگر جو سیاست دان اور دانشور تھے، ان کے لئے یہ نئی راہیں روشن کرتا۔ پھر انہی کے قلم سے ایک انٹرویو ہوتا ۔ میںنہیں سمجھتا کہ الطاف حسن قریش نے ان دنوں اوریانا فلاسی کے انٹرویو پڑھ رکھے تھے مگر یہ اس خاتون سے کہیں آگے نکل گئے۔ چبھتے ہوئے سوالات، دلکش انداز تحریر اور ساتھ ساتھ منظر نگاری سے ایک نیا سماں بندھ جاتا ۔ قاری محسوس کرتا جیسے وہ بھی انٹرویو لینے والے کے ساتھ بیٹھا ہے۔ اس رسالے میں کیا نہیں تھا۔ ادبی تحریریں۔ مہم جو ئی اور فرار کی ہوش ربا داستانیں۔ اور شکاریات کا بالکل نیا موضوع۔ اردو کے قارئین کو جم کاربٹ اور کینتھ اینڈرسن کے افسانہ نما قصے پڑھنے کو ملتے۔ کوئی شیر۔ کوئی چیتا، کوئی بھیڑیا یا کوئی اور بلا پہلے تو بکریوں کا شکار کرتی ۔ پھر اس کے منہ کو انسانوں کا خون لگ جاتاا ور ا س موذی کا قلع قمع کرنے لئے کوئی شکاری جنگل کی راہ لیتا اور خطر ات سے ٹکرا کر ایسی کہانی تخلیق کرتاکہ قاری سانس روک کر اسے پڑھنے پر مجبور ہوتا۔ اسے ہر موڑ پر محسوس ہوتا کہ بس ابھی کوئی شیر اسی پر جھپٹا مارے گا۔ شکاریات کے علاوہ خوفناک کہانیاں بھی اردو ڈائجسٹ کے قارئین کو پڑھنے کوملتیں۔ سائنس فکشن کا تڑکا بھی رسالے میںموجود ہوتا۔اس رسالے کا نوے فی صد مواد تراجم پر مشتمل ہوتا۔ امین اللہ وثیر، عبداللہ ڈوگر اور مقبول جہانگیر کے بعد ضیا شاہد بھی اس میدان میں اترے اورا س ٹیم کی رخصتی کے بعد ایک نئی ٹیم آئی۔ آبادشاہ پوری۔ شریف کیانی۔ مجاہد لاہوری۔ محمود فریدی،اور خاکسار ان میں جونیئر ترین تھا۔ مگر انگلش لٹریچر میں ایم اے کی ڈگری نے مجھے ترقی کی منازل تیزی سے طے کرنے میںمدد دی ۔ مجھے یاد ہے کہ تہتر کی عرب اسرائیل جنگ کے دوران، میںنے اس کی کوریج کے لئے جو طویل تریں مضمون چند روز میں لکھا ، اسے ٹائٹل اسٹوری بنایا گیا۔ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی جوالطاف حسن قریشی کے بڑے بھائی ہیں اور تاریخ کے پروفیسر رہے تھے، انہوں نے میری حوصلہ افزائی اور ستائش میں کسی بخل کااظہار نہیں کیا اور سب ایڈیٹر سے سیدھے اسسٹنٹ ایڈیٹر بنا کر ادارتی بورڈ میں میرا نام شائع ہونے لگا۔
میں جو آج قلم لے کر لکھنے بیٹھا ہوں تو اس کی وجہ ایک کتاب ہے جس کا نام ہے الطاف صحافت۔ اس میں الطاف حس قرشی کے مداحوں کی تحریریں شامل ہیں ۔ یہ سب لکھنے و الے بڑے بڑے نام ہیں ۔ مجھ سے بھی کہا گیا تھا کہ میں بھی اس کے لئے اپنی یادیں قلم بند کروں مگر میں اس کہکشاں کا حصہ بننے کے لائق نہ تھا۔ اپنی ذات کو خوب پہچانتا ہوں۔ مگر اب جو کتاب آئی ہے توبے اختیار ہو کر اپنے استاد اور محسن کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہوں ، خواہ ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں سہی۔
الطاف حسن قریشی اور ان کا میگزین اردو ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی دراصل کوئی کاروباری ادارہ نہ تھا بلکہ ایک اعلی پائے کی یونیورسٹی تھی جہاں سے صحافیوں کی ایک تجربے کار ٹیم نکلی ا ورا س نے جدید صحافت کو بام عروج تک پہنچایا۔مختار حسن افغان امور کے ایسے ماہر تھے کہ آج تک کوئی ان کی گرد کو نہیں پہنچ سکا۔ مجیب الرحمن شامی جیسا ایڈیٹر یہیں سے صیقل ہوا۔ سجاد میر ،عبدالغنی فاروق،ممتاز ملک،لطیف چودھری،منیر احمد منیر، شفیق جالندھری،مشکور حسین یاد، رئوف طا ہر،محمد رفیق ڈوگر، بھاء طارق اسماعیل، ڈاکٹرنثار زبیری، محبو ب الحق ڈار، حاجی نواز رضا،مختاراحمد، عامر خاکوانی،ریاض چودھری،ہارون الرشید ، محسن فارانی، یہ ایک قافلہ ہے اورا س کے میر کارواں تھے الطاف حسن قریشی، آج وہ نوے سال کی عمر کے ہیں مگرنوجوانوں سے بڑھ کر عز م و یقین کے حامل اور حالات کی گہرائی پر گہری نظر رکھنے والے۔ صحافت سے ان کا رشتہ پون صدی سے قائم ہے جس میں پچپن سال کی آشنائی کا مجھے بھی دعوی ہے۔صرف یہ نہیں کہ میںنے اردو ڈائجسٹ کو نویں جماعت میں خرید کر پڑھا بلکہ ایک سال بعد گورنمنٹ کالج میں اعلی تعلیم کے لئے آیا تو میرا قیام اسلامیہ پارک میں تھا اور نصف کلو میٹر دور اردو ڈائجسٹ کا دفتر تھا جہاں میں اکثر الطاف صاحب سے ملنے جاتا اور ڈاکٹرا عجاز حسن قریشی نے میرے تعلیمی اخراجات کے سلسلے میں چھ برس تک تعاون کیا۔ ابھی انہوں نے کاروان علم کی بنیاد نہیں رکھی تھی۔ مگر ان کے اندر یہ جذبہ اور تخیل کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ جیسے ہی میںنے ایم اے کیا تو ڈاکٹر صاحب نے بیش کش کی کہ میں ان کے ادارے کا حصہ بنوں ،۔دلیل ان کی یہ تھی کہ اگر میںلیکچرر بن گیا یا سی ا یس پی کر لیا تو مجھے ساڑھے تین سو ملیں گے جبکہ انہوںنے پانچ سو روپے کے معاوضے کا وعدہ کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اردو ڈائجسٹ کے بعد نوائے و قت میں میگزین ایڈیٹر کے طور پر آیا تو میں ہر لحاظ سے تربیت پا چکا تھا۔ جنگی وقائع نگاری تو میں نے اردو ڈائجسٹ ہی سے سیکھی ۔ اور وہ بھی اس میں شمولیت سے ایک سال بعد اکہتر کی جنگ میں ،سی این این نے اکانوے میں امبیڈیڈ وقائع نگاری کی اصطلاح متعارف کرائی، میںنے اکہتر کی جنگ میں ایک ماہ پاک فوج کی مختلف بٹالینز کے ساتھ بسر کیا اور اپنی چشم دید رپورٹیں قسط وار قلم بند کیں جو بعدمیں قلم کی آنکھ سے، کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوئیں۔لیکن جنگی وقائع نگاری کو الطاف حس قریشی پینسٹھ میں بام عروج تک پہنچا چکے تھے، میں ان کی گرد کو بھی نہ چھو سکا، حکائت کے ایڈیٹر عنائت اللہ ا ور مشرق کے ریاض بٹالوی نے بھی اس میدان میں جھنڈے گاڑے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج الیکٹرانک میڈیا کی ترقی اور تما م تر وسائل کے باوجود یہ شعبہ یتیم ہے۔ آئی ایس پی ا ٓر کے چند ٹویٹ تو یہ کمی دور نہیں کر سکتے۔ ہمیں تو آج کوئی اصغر علی گھرال بھی نصیب نہیں جنہوںنے میجر عزیز بھٹی نشان حیدر پر یاد گار اور ضخیم کتاب لکھ ڈالی مگر اب کسی نے بھارتی ونگ کمانڈرا ورا سرائیلی پائلٹ کے جہازوں کو مار گرانے والے ہوا باز حسن صدیقی کی مہارت کی تصویر کشی نہیں کی ،آج کے نوجوان لکھاریوں کے لئے اس میدان کو بنجر نہیں چھوڑنا چاہئے۔یہ ان کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
الطاف صحافت ایک اعلی پائے کے قلم کار، ایڈیٹر، انٹرویو نگار، تجزیہ کار اور صحافت کے عملی استاد الطاف حسن قریشی کے بارے میں بڑے بڑے قلم کاروں کی تحریروں کا ایک گل دستہ ہے۔ بہت ہی حسین، بے حد دلکش اور انتہائی یاد گار دستاویز۔ایک مہم جو صحافی کی تحیر خیز کامرانیوں کا زندہ جاویدشاہنامہ ۔

مزیدخبریں