راجہ محمد منیر خان
rajamunirkhan@yahoo.com
صوبہ خیبرپختونخوا میں کرونا وائرس کے 200سے زائد کیس سامنے آچکے ہیں جن میں سے 5افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں اس موذی مرض پر کنٹرول نہیں کیا گیا تو اس کے خطرناک نتائج سامنے آئیں گے اس کے پھیلنے کی جتنی حکومت ذمہ دار ہے تو اس سے کئی گنا زیادہ پاکستانی عوام اس مرض کو پھیلانے کی ذمہ دار ہیں حکومتوں نے ان خطرات کے پیش نظر لاک ڈاون کر کے پبلک ٹرانسپورٹ بند کر دی ۔ سکول کالجز یونیورسٹی اور کوچنگ سنٹر بھی بند کر دیئے تاکہ اس موذی مرض کے پھیلنے کے راستے بند ہو سکیں۔ لیکن عوام اب بھی اس موذی مرض کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے اور عام روٹین کی طرح بند بازاروں میں ٹہلتے نظر آتے ۔ دوسری طرف حکومتی کارکردگی کی طرف دیکھا جائے تو35 اضلاع میں بیماری کی تشخیص کیلئے صرف ایک تشخیصی سنٹر پشاورمیں بنایا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ڈویژن کی سطح پر تشخیصی سنٹر ضلع اور تحصیل کی سطح پرسکریننگ سنٹر بنائے جاتے ۔ این ڈی اے نے صوبہ کے پی کے میں دو مزید تشخیصی سنٹر بنانے کا فیصلہ کیا ہے اگر یہ دو مزید تشخیصی سنٹر بن جاتے ہیں تو پھر تشخیص کرنے میں آسانی پیدا ہوگی اور اس موذی مرض کے کنٹرول میں مدد مل سکے گی۔ صوبہ کے پی کے کے ہسپتالوں میں ایم ٹی آئی ایکٹ کی صورت میں عوام سے علاج کی سہولت چھین لی گئی ہے۔ ایم ٹی آئی ایکٹ اپنوں کو نوازنے کا ایکٹ ہے ۔ اس ایکٹ سے قبل جو بھی میڈیکل ڈائریکٹر یا ہسپتال کا ڈائریکٹر اپنے فرائض سرانجام دیتا تھا وہ سرکاری پے سکیل کی تنخواہ لے کر اضافی ڈیوٹی کرتا تھا مگر اس ایکٹ سے سالانہ کروڑوں روپے اضافی تنخواہوں پر چلے جاتے ہیں جو غریب اور نادار مریضوں کے علاج پر لگتے تھے اتنی بھاری تنخواہیں لینے کے بعد ہسپتال کے سسٹم میں بہتری آنی تھی وہ بجٹ نہ ہونے کے باعث مزید ابتر ہو گئی ہے ایسے حالات میں کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کو کیا علاج کی سہولت دیں گے۔ ایسے حالات میں کرونا کے مریضوں میں اضافہ ہو جاتا ہے توکیسے کنٹرول کریں گے۔لاک ڈاون کے باعث عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے،کاروباری زندگی بری طرح متاثر ہے ۔پاکستان پہلے ہی معاشی طور پر بدحالی کا شکار ہے اور لاک ڈاون کے معیشت پر اور برے اثرات مرتب ہوں گے ۔ ایسے حالات میں ہمیں ایک قوم بن کر اس موذی مرض کا مقابلہ کرنا ہے تاکہ اس موذی مرض پر قابو پاسکیں کے اکیلی حکومت کچھ نہیں کر سکتی ہے ۔ ان حالات میں مخیر حضرات کو آگے آکر اپنی پاکستانیوں کا سہارا بننا ہوگا۔ ایبٹ آباد میں مسلم لیگ ن کے سابق امیدوار قومی اسمبلی ملک محبت اعوان اور تحریک صوبہ ہزارہ کے سابق سیکرٹری جنرل سردار فدا نے اپنے ساتھیوں سے مل کر ریلیف کا کام شروع کیا ہے جو قابل ستائش ہے ملک محبت اعوان نے مسلم لیگ یوتھ ونگ کے نوجوانوں ایبٹ آباد شہر اور دیہی علاقوں میں گھر گھر جا کر ضرورت مندوں کی مدد کر رہے ہیں۔ اسی طرح سردار فدا خان نے اپنے کچھ ساتھیوں سے مل کر نوجوان لڑکوں کی ایک ٹیم بنائی ہے جو بغیر کسی تشہیر کے گھر گھر جا کر مستحق لوگوں کی مدد کر رہے ہیں۔ صوبہ کے پی کے کے دیگر اضلاع میں مخیر حضرات اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ان حالات میں مخیر حضرات اپنے ان پاکستانی بھائیوں کی عزت نفس کا خیال رکھیں اگر وہ اللہ کے ساتھ کاروبار کر رہے ہیں تو فوٹو سیشن کے بجائے خاموشی سے اپنے ان مستحق بھائیوں کی مدد کریں تاکہ ان کا عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اور ان کی مدد بھی ہو جائے۔
مرکز میں حکومت کے دوسال مکمل ہونے کو ہیں حکومتی کارکردگی عوام کے سامنے ہے۔ قبائلی علاقوں کا صوبہ کے پی کے میں ضم ہونے کے بعد مسائل میں اضافہ ہوا ہے کیونکہ صوبہ کے پی کے کے چند اضلاع کے علاوہ اکثریتی اضلاع پسماندہ ہیں۔ 2000 کے بعد صوبہ کے پی کے کے صرف اس ضلع نے ترقی کی ہے جس ضلع سے وزیراعلٰی تھا یا طاقتور وزیر ،باقی اضلاع میں نہ ہونے کے برابر ترقی ہوئی ہے جس سے بہت سے اضلاع احساس محرومی کا شکار ہوئے ہیں جن میں سرفہرست ہزارہ ڈویژن ہے جس میں ضلع ہری پور میں طاقتوروزیر ہونے کے باعث ترقی ہوئی ہے جبکہ باقی اضلاع میں اس طرح کی ترقی نہیں ہو سکی ہے۔ جبکہ ایبٹ آباد میں صوبے کاتیسرا بڑا عہدہ سپیکر صوبائی اسمبلی اور ایک وزیر کے ساتھ اتنے ترقیاتی کام نہیں ہو سکے ہیں جتنے پہلے ایک مشیر اور اب ہری پور کے ایک وزیر نے کیے ہیں۔ ایسے حالات میں اگر ہزارہ ڈویژن میں کرونا وائرس کی وباء پھیل گئی تو بڑی مشکل ہو گی۔ ضلع ایبٹ آباد کو بڑے بڑے عہدے ملے ہیں وزیراعلٰی اس ضلع سے رہا گورنر اس ضلع سے رہا ،ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کا عہدہ دو ادوار میں اس ضلع کے حصہ میں آیا۔ وفاقی وزیر اس ضلع سے رہے، صوبائی وزیر اس ضلع سے رہے۔ضلع ایبٹ اباد شاید وہ واحد ضلع ہوگا جس میں ہر ادوار میں وفاق میں یا صوبہ وزارت اس ضلع میں رہی۔ لیکن ان عہدوں کے اعتبار سے اگر ترقی ہوتی تو یہ ضلع صوبہ کے پی کے کا سب سے ترقی یافتہ ضلع ہوتا جو بدقسمتی سے اتنے بڑے عہدے رکھنے کے باوجود بھی پسماندہ ہے۔