احسان الحق
ihsan.nw@gmail.com
پچھلے کچھ عرصہ کے دوران پاکستان میں آئی ہوئی کرونا جیسی موذی مرض پر قابوپانے کے لئے وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ ہمارے عسکری ودیگر قومی ادارے بھی اپنا فریضہ انتہائی احسن طریقہ سے ادا کررہے ہیں جس سے ملک بھر کے عوام میں اطمینان کی لہر دیکھی جا رہی ہے۔ لاک ڈائون کے باعث پاکستان سے برآمدگی سرگرمیاں متاثر ہونے سے کاروباری طبقے اورپاکستان کے معاشی ماہرین میں تشویش دیکھی جا رہی تھی کیونکہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ ہماری برآمدات متاثرہونے سے پاکستانی معیشت ڈانواں ڈول ہو سکتی ہے اس لئے وزیر اعظم عمران خان نے نہ صرف برآمدی صنعتوں کو اس لاک ڈائون سے مستثنیٰ قرار دیا ہے بلکہ برآمدات سے متعلق کراچی میں قائم تمام اداروں کو بھی مکمل فعال رہنے کے احکامات جاری کئے ہیں جس سے توقع ہے کہ ہماری برآمدات متاثر نہ ہونے سے ملکی معیشت پر منڈلانے والے خطرات اب کافی حد تک ختم ہو سکیں گے تاہم لاک ڈائون کے دوران عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے وفاقی وصوبائی حکومتوں اورضلعی انتطامیہ کی جانب سے اعلان کردہ پیکج وامدادی سامان کی ترسیل ابھی تک عملی طور پر شروع نہ ہونے سے عوام میں تشویش دیکھی جا رہی ہے ۔تقریباً دوہفتے قبل پنجاب بھر میں شروع ہونے والے لاک ڈائون کے باعث بیشتر تجارتی سرگرمیاں معطل ہونے سے غریب اورسفید پوش طبقے کے مسائل میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور توقع ظاہر کی جا رہی تھی کہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ایسے افراد کے لئے راشن کا انتظام فوری طورپر کیا جائے گا لیکن اطلاعات کے مطابق ابھی تک لسٹیں بنانے کا عمل بھی مکمل نہیں ہوا جس کے بعدیونین کونسل کی سطح پر ان لسٹوں کی جانچ پڑتال کا طویل مرحلہ ابھی باقی ہے جس سے خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ کہیں دواکے پہنچنے تک مریض جاں بحق ہی نہ ہوجائے اس لئے ضلعی انتطامیہ کو چاہئے کہ وہ وفاقی اورصوبائی حکومتوں سے ملنے والے پیکجزاورتاجر تنظیموں کی جانب سے ملنے والے امدادی سامان کی ضرورت مند افراد تک ترسیل فوری طور پر شروع کریںتاکہ یہ طبقہ اس امدادسے بروقت مستفیدہو سکے ۔لاک ڈائون کے دوران وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے متضادبیانات بھی عوام کے لئے پریشانی کا باعث بن رہے ہیں اورسمجھا جا رہا ہے کہ وفاقی اورصوبائی حکومتوں کے درمیان ’’انٹریکشن ‘‘کافقدان ہے جس سے عوام کو حالات کی نزاکت سمجھنے میں مشکل پیش آرہی ہے کیونکہ وزیر اعظم عمران خان اپنے خطابات کے دوران لاک ڈائون نہ کرنے یا لاک ڈائون میں نرمی کرنے بارے اظہارخیال کرتے ہیں لیکن ان کے خطاب کے محض ایک دوروز کے بعد ہی پہلے پنجاب میں لاک ڈائون کا نفاذ کیا جاتا ہے اوربعدمیں لاک ڈائون میں مزید سختی کی جاتی ہے جس سے عوام یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ کرونا وائرس کے حوالے سے حالات بہتر ہو رہے ہیں یاحالات مزید سنگینی کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔حکومت پاکستان میں اس وائرس سے نمٹنے کے لئے کوئی ہوم ورک نہیں کیا جس کا خمیازہ ہمیں آج بھگتنا پڑرہا ہے۔ چین میں اس وائرس کی شدید آنے کے ساتھ ہی حکومت پاکستان کو چاہئے تھا کہ وہ فوری طور پر حفاظتی انتظامات کے طور پر تمام تر’’انفراسٹرکچر‘‘مکمل کرتی جس میں خاص طور پر ڈاکٹرزاورپیرا میڈیکل سٹاف کے لئے مخصوص لباس اورکرونا وائرس کے مشتبہ مریضوں کے ٹیسٹ کے لئے کٹس کا انتظام بہت ضروری ہونے کے ساتھ ساتھ ماسک اورسینی ٹائزرکی وافر فراہمی کو یقینی بنانا چاہئے تھا۔ لیکن بدقسمتی سے تمام ڈاکٹر اورپیرا میڈیکل سٹاف ابھی تک حفاظتی کٹس سے محروم ہیں اوراطلاعات کے مطابق ملک کے بعض حصوں میں ڈاکٹرز منہ اورہاتھوں پر شاپر چڑھا کر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں جس سے ہماری حکومتوں کا اس کرونا وائرس سے ہنگامی بنیادوں پر نمٹنے کا انداز ہ لگایا جا سکتا ہے ۔کرونا وائرس کے حوالے سے ضلعی انتطامیہ کی پالیسیاں بھی عوام سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ضلع رحیم یارخان میں کرونا وائرس کے پہلے متاثرہ مریض اوراس مرض سے ضلع بھرمیں پہلی ہلاکت بارے عوام کو اندھیرے میں رکھا گیا لیکن وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدارکے ٹوئیٹس نے ان دونوں خبروں کی تصدیق کی جس سے نہ صرف عوام کا ضلعی انتظامیہ پراعتمادمتاثرہوا بلکہ اس سے غیر تصدیق شدہ خبروں پر عوام کو اعتماد کرنا پڑا جس سے عوام میں اس مرض سے متعلق آگاہی مہم بھی متاثر ہوئی۔
پاکستان میں جب بھی کبھی کسی قومی کازکے لئے حکومتوں نے عوام سے امدادیا چندے کی اپیل کی تو عوام اورخاص طور پر صنعت کاروں اورتاجروں نے اس کازمیں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا لیکن ملکی تاریخ میں شائد یہ پہلا واقعہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان اورصوبائی حکومتوں کی جانب سے کرونا ریلیف فنڈ میں عوام اورخاص طورپر صنعت کارکسی مثبت ردعمل کا اظہارنہیں کر رہے اورصنعت کاروں کی جانب سے اس ریلیف فنڈ کے لیے ابھی تک کوئی بڑا اعلان سامنے نہیں آسکا ۔بزنس کمیونٹی کے رہنمائوں کا خیال ہے کہ کچھ عرصہ قبل ڈیم فند کے لئے اکھٹے کئے گئے اربوں روپوں کو کرونا ریلیف فنڈ میں تبدیل کر دیا جائے اوریہ پیسے ختم ہونے کے بعداگر ضرورت محسوس ہوئی تو پھر وزیر اعظم اورصوبائی وزیراعلیٰ کی اپیل پرکان دھرا جا سکتا ہے ۔