کرونا وائرس سے ہونے والی بیماری جسے عالمی ادارہ صحت نے کروڈ19-کا مخفف نام دیا ہے، دسمبر 2019ء میں پہلی بار باضابطہ طور پر اس کا پہلا کیس سامنے آیا۔ فروری میں اسے باقاعدہ عالمی وباء قرار دے دیا گیا۔ اس کی ابتداء چین کے شہر ووہان سے ہوئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے 199ممالک اس کی لپیٹ میں آگئے۔ حیرت انگیز طور پر چین نے اس پر بڑی سرعت کے ساتھ قابو پا لیا چونکہ یہ وائرس کی ایک ایسی نئی قسم ہے جو انسانوں میں پہلے کبھی نہیں پائی گئی، اس لئے اب تک کوئی شافی ویکسین سامنے نہیں آئی۔ تاہم دنیا بھر میں کئی لیبارٹریوں میں اس کی کارآمد ویکسین کی دریافت کیلئے سائنسدان دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔
چین نے ویکسین نہ ہونے کے باوجود محض احتیاطی تدابیر سے اس کو محدود کیا۔ احتیاطی تدابیر کی تعداد 3یا 4سے زیادہ نہیں اور وہ کوئی محنت طلب بھی نہیں۔ شرط یہ ہے کہ ان پر سنجیدگی سے عمل کیاجائے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وباء میں اموات کی شرح ایک فیصد سے بھی کہیں کم ہے لیکن جس طرح لوگ اس سے متاثر ہو رہے ہیں اور اس کا شکار ہو رہے ہیں، اس نے واقعی اسے ڈرائونا بنا دیا ہے۔ اسے محدود کرنے کیلئے لاک ڈائون یا کرفیو سے بہتر کوئی تدبیر نہیں البتہ کرفیو امیر ملکوں میں تو لگایا جاسکتا ہے لیکن تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک جن کی آبادی کا ایک بڑا حصہ خط غربت سے نیچے رہ رہا ہے ،وہ اس کا متحمل نہیں ہوسکتے۔ہمارے ہاں یہ عالم ہے کہ گھر کا سربراہ صبح دیہاڑی کی تلاش میں نکلتا ہے، کوئی چھوٹا موٹا کام مل جائے تو بیوی بچوں کو رات کو پیٹ بھر کھانا نصیب ہو جاتا ہے ورنہ بھوکے سوتے ہیں۔ اس عالم میں کرفیو بلکہ لاک ڈائون اسی صورت مؤثر ہوسکتا ہے اگر حکومت اور فلاحی ادارے لوگوں کو گھر گھر راشن یا کھانا پہنچانے کا ذمہ لے لیں ۔اس عالم رنگ و بو میں سب سے طاقتور چیز فطرت ہے۔ خالق کائنات نے جس چیز کی فطرت میں جو چیز ودیعت کر دی ہے، اس سے اس کا ہٹنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دانا لوگ فطرت سے نہیں ٹکراتے یا فطرت کے اصولوں کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ امیرالمومنین حضرت عمرؓ کے دور میں اس حبش میں طاعون پھیل گئی جس کے سپہ سالار امین الامت حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ تھے۔ حضرت عمرؓ کو خبر ہوئی تو فوراً حضرت ابوعبیدہ بن الجراحؓ کو مدینہ طلب کیا مگر انہوں نے لشکر چھوڑنے سے انکار کر دیا، جس پر حضرت عمرؓخود فوراً لشکر اسلامی پہنچ گئے اور حضرت ابوعبیدہؓ پر بہت زور دیا کہ وہ لشکر چھوڑ دیں،لیکن وہ پھر بھی نہ مانے تو حضرت عمرؓ اِناللہ پڑھتے ہوئے واپس مدینہ پلٹے، جس پر حضرت ابوعبیدہؓ نے حضرت عمرؓ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’’موت سے بھاگتے ہو۔‘‘ جناب امیرالمومنینؓ نے جواب میں جو کچھ فرمایا ، وہ نہ صرف تاریخ کا حصہ ٹھہرا بلکہ فلسفہ تقدیر کی وضاحت بن گیا اور بتا دیا گیا کہ تکوینی امور کس طرح انجام پاتے ہیں۔ آپؓ نے فرمایا کہ ’’ہاں، اللہ کے حکم سے اللہ کے حکم کی طرف بھاگتا ہوں۔‘‘ حضرت ابوعبیدہؓ اسی وباء کا شکار ہوئے، امت ایک نہایت ہی قیمتی انسان سے محروم ہوگئی۔ ہمارے ہاں بڑی سرعت کے ساتھ کرونا وائرس کی وباء کو عذاب الٰہی قرار دے دیا گیا حالانکہ عذاب الٰہی ان اقوام پر آیا جن پر اللہ کے رسولوں نے اتمام حجت پوری کر دی اور عذاب کی صورت میں بھی رسول اور متقین بچا لئے گئے۔ کرونا وائرس کا یہ عالم ہے کہ کرہ ارضی کے 56اسلامی ملکوں سمیت 200ملک زد میں آئے ہوئے ہیں۔ کرونا وائرس کے ہاں ظالم، مظلوم، مسلمان، غیرمسلم، نیک اور بد کی کوئی تفریق نہیں پائی جاتی جو بھی ’’اللہ کے بنائے ہوئے فطرت کے اصولوں کی خلاف ورزی کرے گا، بھگتے گا۔‘‘
قرآن مجید میں کم از کم 2جگہ آتا ہے کہ جو کچھ انسان بھگت رہے ہیں یا آفات و بلیات ارضی و سماوی کا شکار ہو رہے ہیں، یہ خود ان کا اپنا کیا دھرا ہے۔ جو ہم نے ایٹم بم اور ہائیڈروجن بموں کے ڈھیر جمع کر رکھے ہیں اور مہلک ہتھیاروں کے انبار لگا رکھے ہیں، یہ ایک دوسرے کو فنا کرنے کیلئے نہیں تو اور کیا ہیں۔ اب لیبارٹریوں میں مہلک بیماریوں سرطان وغیرہ کی ویکسین کی تلاش کی بجائے دشمن ممالک کو تباہ کرنے کیلئے وائرس تیار کئے جا رہے ہیں۔ کووڈ19- (کرونا) بھی انہی وائرسوں میں سے ایک ہے جو پھسل پڑا ہے اور اب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سرحدیں بند، منڈیاں بند، کاروبار ٹھپ، سب گھروں میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔
سلام! عساکر پاکستان، ہسپتالوں اور کلینکوں کے طبی عملے کو جو جان ہتھیلی پر رکھ کر دوسروں کی جان بچانے میںلگے ہوئے ہیں۔ اب صرف وہ لوگ کم خسارے میں رہیں گے جو احتیاطی تدابیر اختیار کریں گے اور بنیان مرصوص کی صورت میں اس آفت ناگہانی کا مقابلہ کریں گے اگر اب بھی ہم سنجیدہ نہ ہوئے تو اپنا نقصان بھی کریں گے اور دوسروں کا بھی۔ اس وباء کا اس طرح مقابلہ کریں جس طرح دوسرے کر رہے ہیں۔ سورۃ الانعام کی آیات 63اور 64کا پڑھنا بھی باعث سکون ہوگا اور کئی اشکالات رفع ہو جائیں گے۔